طوق منگھ یا منگھوپیر

August 20, 2019

قصبے میں ہزاروں سالہ قدیم تہذیب کے آثار بکھرے ہوئے ہیں

سندھ کے قدیم آثار،جن میں ٹیلے، مساجد، مقابر،مزارات وغیرہ اشامل ہیں، خطے کی ارتقائی تہذیب و تمدن کی خاموش داستان بیان کرتے ہیں۔اس کے سب سے بڑے شہر کراچی سے16کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑی ٹیلوں اور کیکرکی جھاڑیوں و جنگلات سے گھرا ہوا ’’منگھوپیر‘‘کا قصبہ ہے، جہاں ہزاروں سال قدیم تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں۔ اس قصبے کے بارے میں مؤرخین کی رائے ہے کہ یہ علاقہ کسی دور میں آباد اور ہنستا بستا شہر تھا جو کسی قدرتی آفت یا حادثے کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سےمٹ گیا لیکن اس کے آثار اب بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔منگھوپیر کا علاقہ کراچی کے شمال مشرق میں واقع ہے جو اسے بند مراد کے ذریعے لسبیلہ سے ملاتا ہے۔ اس کے ٹیلوں پر واقع چوکنڈی طرز کی منقش قبریں، مکانات،تالاب اور دیگر آثار اس کی تاریخی حیثیت کی گواہی دیتے ہیں۔قدیم دور میں یہ علاقہ مکران اور ایران کے ساتھ تجارت کے لیے راہ داری کا کام دیتا تھا۔اسلام پھیلنے کے بعد عربوں کی آمد و رفت ایران اور مکران کے راستے ہوتی تھی۔ ان کے قافلے اسی راستے سے گزرکر اگلے مستقرکی جانبعازم سفر ہوتے تھے۔ دوران سفر ان کا پڑائو لسبیلہ اور اس کے گردونواح کے قصبات میں ہوتا تھا،جن میں سے ایک منگھوپیر کا قصبہ بھی تھا۔اس کی پہاڑیوں کے دامن میں موجود شکستہ،ٹوٹی پھوٹی پرانی قبریں صدیوں قدیم ہیں، ان میں چوکنڈی طرز کی قبریں بھی ہیں۔ یہاں تمام قبریں جنگ شاہی پتھر سے تعمیر کی گئی ہیں جو تیز پیلے اور قریب قریب زرد رنگ سے ملتا جلتا ہے۔ مؤرخین کے مطابق ،یہاں ایسی قبریں بھی دیکھی گئیں جن پر تلوار بازی، گھڑ سواری اورآات حرب کے نقوش بھی پائے جاتے تھے جبکہ خواتین کی قبروں پر خوبصورت زیورات کنندہ کئے گئے ہیں۔بعض قبریں چبوترے پر بنائی گئی تھیں جبکہ بعض کے نیچے ایک طرح کے طاق بنائے گئے ہیں جن کے آر پار دیکھا جاسکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کچھ خواتین کی قبروں پر ڈولی اور جنازے کی علامت گہوارے سے مشابہہ نقوش بھی موجود تھے جن کا مطلب تھا کہ یہ قبریں شادی شدہ خواتین کی ہیں ۔مردوں کی قبروں پر خوبصورت کلاہ نما ڈیزائن بنائے گئے ہیں،اس کے علاوہ تلوار بازی، گھڑسواری اور خنجر وغیرہ کے نقش نگار بھی بنائے گئے ہیں۔ خواتین کی قبروں پر خوبصورت زیورات کنندہ کئے گئے ہیں۔ ان نقوش سے مرد و زن کی قبروں کی باآسانی شناخت کی جاسکتی ہے۔ یہ قبریں تعمیراتی فن کا اعلیٰ نمونہ ہیں لیکن اس طرز کی زیادہ تر قبریں ناپید ہوچکی ہیں صرف دو قبریں منگھوپیر کے مزار کے سامنے موجود ہیں ، ان کی حالت بھی مخدوش ہے۔

منگھوپیر کی پہاڑیوں کو ’’طوق منگھ‘‘ کہا جاتا ہے۔منگھوپیر کا مقام جو مگر پیر کے نام سے بھی معروف تھا، ہندوئوں کیلئے بھی متبرک حیثیت کا حامل تھا۔ سندھ میں اسلام پھیلنے سے قبل ہندو یاتری اس علاقے میں اپنے مقدس مقامات کی زیارت کیلئے آتے تھے اور وہ تالاب میں موجود مگرمچھوں کی پوجا کرتے تھے، خاص کر ان کے سردارکی ،جسے وہ ’’لالہ جراج‘‘کا اوتار سمجھتے تھے۔آثار قدیمہ کے ماہرین منگھوپیر کی تہذیب کو کانسی کے دور سے بھی قدیم تہذیب قرار دیتے ہیں۔قدیم آثارکے ماہر،کاربن ڈیٹنگ کے مطابق یہاں ملنے والی ہڈیاں کانسی کے دور (3300-1200 قبلِ مسیح) سے تعلق رکھتی ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کو یہاں کچھ پیتل کی قدیم اشیا بھی ملی ہیں جن پر موجود نقش و نگار سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں ہزاروں سال پہلے کانسی دور کا ایک قدیم گاؤں رہا ہوگا جہاں لوگ مگرمچھوں کی عبادت کرتے تھے۔یہ علاقہ چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے، ایک پہاڑ کے دامن میں حوض ہے جس میں ہمہ وقت گرم پانی موجود رہتا ہے۔ اس علاقے میں موجود سمہ دور کے مقبرے، مکانات، تاریخی کتبے، تالاب ، چشمے تحقیق و تفتیش کرنے والوں کو دعوت فکر و نظر دیتے ہیں۔ منگھوپیر کو اس لیے بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے کہ سلاطین دہلی کے عہد کے ایک بزرگ،خواجہ حسن سخی سلطان المعروف منگھوپیر مدفون ہیں۔ منگھوپیر بابا یا خواجہ حسن سخی سلطان کون تھے ، تاریخ اس حولے سے کچھ روشنی ڈلنے سے قاصر ہے۔

ان بزرگ کا سندھ کے معروف مؤرخ میر علی شیر قانع نے اپنی تصنیف ’’تحفتہ الکرام‘‘ میں مختصر سا تذکرہ کیا ہے ۔ میر شیر علی قانع کے مطابق خواجہ حسن سخی سلطان نے جس مقام پر اقامت اختیار کی اور چلہ کشی کرتے رہے ، وہ جگہ ان کے نام سے مشہور ہوگئی۔ مقامی لوگوں کی روایت کے مطابق منگھوپیر بابا کی آمد سے قبل یہاں کسی بزرگ کی قبر تھی جس کی زیارت کے لیے بڑی تعداد میں لوگ آیا کرتے تھے۔ ایک دن سخت سردی کے موسم میں خواجہ حسن سخی سلطان کا اس علاقے سے گزر ہوا ، یہاں کا محل وقوع انہیں اتنا پسند آیا کہ وہ یہیں مقیم ہوگئے۔ مقامی آبادی نے ان کے ساتھ بڑی بے اعتناعی برتی اور انہیں خود کو سردی سے محفوظ رکھنے کے لیے گھاس پھوس سے آگ جلا کر خود کو گرمی دینے بھی منع کیا۔ ان کے اس طرز عمل سے سخی سلطان جلال میں آگئے اور اان لوگوں کو اپنی روحانی کرامت سے مگرمچھوں میں تبدیل کردیا۔ جب ان کی وفات ہوئی تو مقامی لوگوں نے اسی جگہ پر چھوٹا سا مزار تعمیر کر دیا۔ یہ مزار سطح سمندر سے تقریباً 600 فٹ بلند ہے اور ایک پہاڑی چوٹی پر واقع ہے۔بعض قدیم روایات میں بتایا گیا ہے کہ حضرت خواجہ حسن سخی سلطان کے آباؤ اجداد گیارہویں صدی میں برصغیر آئے تھے۔ دوسری روایت کے مطابق آٹھ سو سال قبل صوفی بزرگ بابا فرید گنج شکر ایک قافلے کے ہمراہ حج کے لیے جا رہے تھے کہ بدنام زمانہ ڈاکو منگھو وسا نے مسافروں کو لوٹنے کی کوشش کی۔ بابا فرید سے جب اس کا سامنا ہوا تو ان کی روحانی شخصیت کا اس پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ اس نے اسلام قبول کر لیا اور جرائم سے تائب ہو گیا۔ منگھو وسا نے بابا فرید کی رہنمائی میں تصوف کی مشق شروع کر دی اجسے بعد میں پیر کا خطاب دیا گیااور وہ منگھو پیر کہلانے لگے۔ آپ کے مسکن کے نزدیک گندھک والے گرم پانی کا ایک چشمہ جاری ہو گیا ہے جہاں آج بھی زائرین جلد کے امراض کے علاج کی امید میں غسل کرنے جاتے ہیں اور شفا پاتے ہیں۔ ہر سال 8 ذوالحجہ کو ہزاروں عقیدت مند سلطان سخی منگھوپیر کا عرس مناتے ہیں۔ اس کے علاوہ ساون کے مہینے سے پہلے میلہ بھی منعقد کرتے ہیں۔ منگھوپیر بابا کے مزار کے احاطے میں ایک جھرنا بھی مزار کی وجہ شہرت اور لوگوں کی دلچسپی کا باعث ہے۔کچھ تاریخی حوالے میں اس بات کے بھی اشارے ملتے ہیں کہ مزار کی تاریخ 800 سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ سندھ کے ایک مورخ گل حسن کلمتی نے اپنی کتاب ’’کراچی سندھ جی مارئی‘ ‘میں لکھا ہے کہ حاجی سلطان المعروف منگھوپیر باباکی پیدائش 1162ء جبکہ وفات 1252ء میں ہوئی تھی۔ لیکن یہ علاقہ اس سے پہلے بھی موجود تھا۔ایک روایت کے مطابق، لعل شہباز قلندرجب منگھوپیربابا کے پاس آئے تو انہوں نے مگر مچھ پر سواری کی تھی۔ دوسری روایت کے مطابق منگھوپیر بابانے ندی میں پھول پھینکے جو مگر مچھ بن گئے۔

تالاب میں موجود مگر مچھوں میں سے بعض کی عمرتقریباً 100 سال ہے ۔ان سے متعلق کئی دیومالائی داستانیں مشہور ہیں،جیسے مگرمچھ اصل میں منگھوپیر بابا کےسر کی جوئیں تھیں جوان کی روحانی قوت سے مگر مچھوں میں تبدیل ہو گئیں۔مگر سائنسدان اور ماہرین آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں بابا منگھوپیر کی آمد سے قبل ایک تالاب یا جھیل موجود تھی جس میں سینکڑوں مگر مچھ موجود تھے۔ان کے مطابق جھیل ایک قدیم سیلاب کی وجہ سے وجود میں آئی اور مگر مچھ بھی سیلاب کے ساتھ بہہ کر یہاں تک آ پہنچے تھے۔ ان کی اس دلیل کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ اس مقام کو ہندوؤں کے نزدیک مذہبی حیثیت حاصل تھی اور دوردراز کے علاقوں سے لوگ یہاں زیارت کی غرض سے آتے اور مگرمچھوں کی پوجا کرتے تھے۔سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ دنیابھر میں پائے جانے والے مگرمچھوں کے برعکس مزار پر موجود مگر مچھ گوشت سے لے کر مٹھائی اور حلوہ سمیت سب کھا لیتے ہیں۔منگھوپیر کی درگاہ کے قریب پانی کے دو چشمے ہیں جبکہ اس سے دو میل کے فاصلے پر حضرت جلیل شاہ کے مزار کے قریب دو اور چشمے ہیں جہاں جلدی امراض کے مریضوں کے علاج کیلئے نہانے کا انتظام کیا گیا ہے جسے ’’ماما باتھ‘‘کہا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق ،ایک سماجی رہنما آسومل نے یہاں مسافروں کے قیام کیلئے ایک ’’لانڈھی‘‘تعمیر کرائی(سرائے کو مقامی زبان میں لانڈھی کہا جاتا ہے)جہاں بستر اور ضروری سامان کا بھی انتظام کیا گیا۔

ایک انگریز ، لیفٹننٹ کارلس جو بحری فوج کا ملازم تھا، 1838ء میں منگھوپیر پہنچا۔ یہاں کا احوال اس نے ’’گزیٹر آف انڈیا‘‘ کے صفحہ نمبر 101پر بیان کیے ہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ چونے کے پہاڑ کا وہ ٹیلہ جس پر منگھوپیر بابا کا مزار ہے، دو ہزار سالہ قدیم ہے۔ میر صدر الدین محمد شیرازی ٹھٹھوی کی اولاد میں سے ، سید لطف اہ شکر الہٰی شیرازی ٹھٹھو ی جب ٹھٹھہ سے حج کےلیےروانہ ہوا ۔ راستے میں اسے اس مقام کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا، جس کا تذکرہ اس نے اپنے سفر نامے، ’’تحفتہ الباصرین‘‘ میں کیا ہے ۔ ابن حوقل اور ادریسی اس مقام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سندھ کے قدیم مقامات میں سے مینما بری (منگھوپیر ) نام کا ایک قصبہ ہے، جو دیبل سے دو پڑاؤ کی مسافت پر ہے اور ارمائیل (لسبیلہ) کی گزرگاہ پر واقع ہے۔ایک انگریز سیاح ، اپنے سفر کے دوران ریگستان، پتھریلے اور غیر آباد علاقوں کے راستےمنگھوپیر پہنچا، وہ لکھتا ہے کہ’’ میں مگرمچھوں شہرت سن کر تالاب پر پہنچا اور اس میںنظر ڈالی تھی ، مجھے وہاں کوئی مگرمچھ نظر نہیں آیاتھا۔ جس پر میں نے اپنےگائیڈ سے ترشی سے کہا کہ تم نے مجھے مگرمچھ دکھانے کے نام پر خوامخوا تکلیف دی۔ ’’ میںا ور میرا گائیڈ ابھی مگرمچھوں کو تلاش میں مصروف تھے کہ ایک بوڑھا شخص فقیروں کے لباس میں وہاں آگیا۔ میں نے اس کو دو روپے دیئے اور مگرمچھوں کا معلوم کیا ۔ اس نے اپنا سونٹا نکالا اور بلند آواز میں دو تین مرتبہ پکارا، ’’آؤ، آؤ‘‘۔ اس وقت پورا تالاب مگرمچھوں سے بھر گیا۔ میں نے ان مگرمچھوں کی گنتی کی تو معلوم ہوا کہ وہ ساٹھ ہیں۔ ان میں سے بعض 15 فٹ لمبے تھے۔ میرے لیے سب سے زیادہ حیران کن لمحہ یہ تھا کہ اس فقیر نے اپنے سونٹے سے اشارہ کیا تو تمام مگرمچھ میرے قریب آگئے اورمیرے قدموں میں لیٹ گئے۔ ان کے کھلے ہوئے جبڑوں سے ان کی فرماں برداری کا اظہار ہورہا تھا۔ پھر میں نے اس سے نصف میل کے فاصلے پر ایک اور تالاب دیکھا جس کا پانی اس قدر گرم تھا کہ اس میں کوئی نہا نہیں سکتا تھا، لیکن حیران کن طور پر اس میں بھی مگرمچھ موجود تھے‘‘۔

سلطان بابا کا مزار شیدی قوم کے لئے سب سے زیادہ اہمیت کا باعث رہا ہے۔ اس قبیلے کی جانب سے سالہاسال سے مزار پر ہر سال ایک میلہ بھی لگتا آیا ہے اور اس کا انعقاد رواں ماہ 10 اگست کو بھی کیا گیا تھا۔اس دوران مگرمچھ کے اعزاز میں منگھوپیر کے پہاڑی علاقے میں ایک چار روزہ رنگارنگ تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے ، جس میں مگرمچھوں کی نازبرداریاں کی جاتی ہیں اور ان سے منت مرادیں مانگی جاتی ہیں، اس میلے کو ’’لعل شاہ واگو‘‘ یا ’’شیدی ‘‘میلہ کہا جاتاہے۔ ’’واگو‘‘ مقامی زبان میں مگرمچھ کو کہتے ہیں، لعل شاہ مگرمچھوں کا سردار کہلاتا ہے۔ میلہ کا آغاز صبح کے وقت منگھوپیر کے مزار سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک میدان میں کیا جاتا ہے، جو شام تک جاری رہتا ہے ۔پہلے روز کی رسومات کے دوران دھمال سے تقریبات شروع کی جاتی ہیں ، ’’مگرمان‘‘ بجایا جاتا ہے جو بڑا سامخصوص ڈھول ہوتا ہے۔ اس کی آواز سے شرکاء مسحور ہوجاتے ہیں۔اس کے بعد وہ ایک مخصوص مقام پر اکٹھا ہوکر شیدی میلے کی رسم (ٹکہ) کی تیاری کرتے ہوئے ایک بہت بڑے سے تھال میں مکئی کے دانے، دال ،چنے ودیگر اناج بادام اخروٹ، کھوپرا ملاکر دیسی گھی کی چوری ( کٹی) بناکر سات تھالیوں میں ڈال کر شیدی قبیلے کی سات چھوٹی لڑکیوں کے سروں پر رکھ کر انہیں سب سے آگے روانہکرکے دیسی شربت بناکرہر شخص کو پلایا جاتا ہے۔چار سے پانچ فٹ لمبے مگرمان ڈھول کی تھاپ پر لوبان کی دھونی دیتے ہوئے، شیدی قبیلے کی خواتین مرد اور بچے ایک ہی قطار میں عجیب سی آوازمیں گشتی دھمال ڈالتےہوئے انتہائی تپتی ہوئی دھوپ میں ننگے پیر مزار کے سامنے سے ہوتے ہوئے مگر مچھوں کے تالاب کے قریب جاکر دن بھردھمال کرتے ہیں۔میلے کا آغاز ’’میدانی‘‘نامی ساز سے ہوتا ہے جس کی مسحورکن آواز میلے میں شریک افراد پر وجد کی کیفیت طاری کر دیتی ہے۔ اس موقع پر نعت شریف،اولیائے کرام کی شان میں ثناء پڑھی جاتی ہے بعدازاں لنگر کی تقسیم ہوتی ہے۔اس کے بعد زمین پر رکھ کرمگرمان بجایا جاتا ہے۔ڈھول تاشوں کی آوازوں سے ’’مورثواب‘‘یا لال شاہ واگو تالاب میں واقع اپنے مسکن سے نکل کر کنارے پر آ جاتا ہے۔خلیفہ ڈنڈوں کی مدد سے اس کا منہ کھول کر تازہ بکرا ذبح کر کے بکرے کے کندھے کا گوشت اس کے منہ میں ڈالتے ہیں، اسی بکرے کے خون میں سیندور ملا کر اس کے سر پر تلک لگایا جاتا ہے جسے ٹیکہ کہا جاتا ہے۔ ٹیکے کی رسم کی ادائیگی کے بعد دھمال کے شرکاء تالاب سے نصف میل کے فاصلے پر گرم چشمے کے قریب جلیل شاہ جان کے مزار پر جا کر حاضری دیتے ہوئے نعرہ لگاتے ہیں۔’’جلیل شاہ جان۔ڈینڈومکھن مان۔‘‘

شیدیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر مور ثواب ان کا دیا ہوا گوشت نہ کھائیں تو ان کا وہ سال اچھا نہیں گزرتا اور اس سال میلہ بھی نہیں لگتا اور اگر مور ثواب گوشت کھالیں تو میلہ کا آغاز جاتا ہے اور اس خوشی میں تالاب سے کچھ فاصلے پر واقع ایک چھوٹے سے میدان میں ایک ڈرم نما ڈھول بجنے لگتا ہے۔ مگرمان شیدیوں کے لیے صرف ناچنے گانے کا ساز نہیں بلکہ ان کا روحانی ساز ہے۔اس کی آواز کی لے کے ساتھ ،سیاہ فام مرد اور خواتین مخصوص انداز میں رقص کرنے لگتے ہیں اور اس دوران میں ان پر وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور یہ ایک دوسرے کے گلے بھی لگ جاتے ہیں ان سب کے پاؤں ننگے ہوتے ہوتے ہیں اور سر پر رومال بندھا ہوتا ہے جبکہ ہاتھوں میں فقیری ڈنڈے ہوتے ہیں۔مگرمان کی تھاپ کے ساتھ ساتھ یہ مرد اور عورتیں ایک خاص ورد کرتے نظر آئے جس کے اکثر الفاظ شاید وہ خود بھی نہیں جانتے مگر پرکھوں سے سنی ہوئی یہ آوازیں سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہیں۔ میلے کے منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ سواحلی زبان کے الفاظ ہیں جو افریقہ میں آج بھی بولی جاتی ہے۔بعض لوگوں کے مطابق اس میلے کا انعقاد سیکڑوں سال سے کیا جارہا ہے۔درحقیقت کراچی جیسے جدید شہر میں اپک قدیم تہذیب و ثقافت کا حامل قصبہ بھی آبادہے جس کے باسی آج بھی ہزاروں سالقدیم روایات کو اپنے سینے سے لگائے زندگی بسر کررہے ہیں۔