بلند و بالا عمارتیں ماحول کو تباہ کر رہی ہیں

August 29, 2019

مختار آزاد

برطانوی عہد (1839ء تا 1947ء) کو کراچی کی تمدنی اور تعمیراتی تاریخ کا دور تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس دور میں شہر کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ یوں سرکاری دفاتر، افسران کی رہائش گاہیں، بازار، گرجا گھر اور عام شہریوں کے رہائشی علاقے وجود میں آئے، تاہم یہ تعمیرات ساحلِ سمندر اور موجودہ کینٹ اسٹیشن کے اطراف تک محدود رقبے پر مشتمل تھیں اور ان پر گوتھک طرز کی چھاپ تھی، جس میں جودھپوری سنگِ زرد کا استعمال کیا جاتا تھا۔ اس دور کی عمارتوں میں سرخ کھپریل کی چھتیں، بڑی بڑی کھڑکیاں، روشن دان اور محراب دار برآمدے نمایاں تھے۔

انیسویں صدی کی اوائلی چار دہائیوں میں جب کراچی میں بندرگاہ کے ذریعے تجارت بڑھی تو خوشحال، متوسط طبقے اور مزدوروں کی بستیاں آباد ہونا شروع ہوئیں۔ خوشحال طبقے میں پارسیوں اور ہندو تاجروں کا شمار ہوتا تھا ،جن کے بنگلے کشادہ اور برطانوی طرزِ تعمیر اور ہندوستانی فنِ تعمیر کا امتزاج ہوتےتھے۔ متوسط طبقے کے ملازمت پیشہ یا تجارت کرنے والے اور اینگلو انڈین باشندوں نے کھارادر، میٹھادر، برنس روڈ اور صدر کو اپنا مسکن بنایا، جہاں فلیٹ سر اٹھانے لگے۔ ان تعمیرات میں بھی ہوا کے رخ اور سورج کی روشنی کاخاص خیال رکھا جاتا تھا۔ بنگلوں میں بیٹھک کو ’گول کمرہ‘ کہتے تھے کیونکہ اس گولائی دار کمرے کا رخ مغرب کی سمت مرکزی گیٹ کی جانب ہوتا تھا۔ اس میں کئی کھڑکیاں ہوتی تھیں۔ جس کا مقصد دن میں سورج کی روشنی سے کمرہ روشن اور ہوا سے اسے ٹھنڈا رکھنا ہوتا تھا۔ نیز چھت پر روشن دان نما جگہ رکھی جاتی تھی، جس میں شیشے لگا کر سورج کی روشنی سے دن میں کمرے کو روشن رکھا جاتا تھا۔

تیسرا دور 1947ء کے بعد شروع ہوتا ہے، جب ایک دم اس شہر پر آبادی کا بے پناہ دباؤ پڑا، یوں اگلی دو دہائیوں میں شہر بے ترتیبی سے پھیلنے لگا۔ منظم، ماحول درست طرزِ تعمیر کی جگہ بد انتظامی نے لے لی۔

’تعمیراتی تبدیلیوں کا آغاز تو پچاس اور ساٹھ کی دہائی سے شروع ہوچکا تھا، لیکن ستر کی دہائی میں ملک کے دیگر حصوں سے یہاں لوگوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے،اسی لیے ان کی رہائشی ضروریات پوری کرنے کے لیے تین منزلہ فلیٹوں کی تعمیر اور کچی آبادیوں سے بے ہنگم تعمیرات کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا جو اب آٹھ دس منزلہ بلاکوں سے بھی تجاوز کررہا ہے۔ کمپاؤنڈ میں پارک کا رجحان تو ختم ہی ہوچکا ہے۔ گلشنِ اقبال اور گلستانِ جوہر اس کی زندہ مثال ہیں۔ اسی طرح کارپوریٹ سیکٹر کی تعمیرات کو زیادہ پرشکوہ بنانے کی چکر میں شیشوں کا استعمال شروع ہوا۔ اب تو پوری کی پوری دیوار پر شیشے لگادیے جاتےہیں۔ ان عمارتوں میں تعمیرات کی بیرونی دل کشی کا خیال ہے نہ صحتمند ماحول کا، نہ ہی ہوا کے رخ کا خیال ہے اور نہ بالکنیوں کے فوائد کا۔ اب نہ تو بنگلوں میں روشن دان ملتے ہیں نہ ہی فلیٹوں میں۔ عالم یہ ہے کہ اگر دروازے اندر سے بند کردو تو پورا گھر قدرتی روشنی اور ہوا سے محروم ہو جاتا ہے۔ کچی آبادیوں کا حال ہی برا ہے۔ ماحول پر استوار تعمیرات تو کب کی متروک ہوچکی ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں ایک ہزار اور چھ سو گز کے دو منزلہ رہائشی بنگلوں کو بھی لوگ اب تجارتی کیٹیگری میں تبدیل کروا کر بِلڈرز کو بیچنا چاہتےتھے، تاکہ وہ کروڑوں میں زمین خریدیں۔ چھوٹے چھوٹے فلیٹوں اور نیچے دکانوں پر مشتمل پلازہ بنائیں اور اربوں کمائیں۔

’کراچی میں بے ہنگم تعمیرات اقتصادیات پر بوجھ ہیں اور اس سے توانائی کی ضرورت زیادہ ہوئی ہے۔ اس طرف توجہ نہیں دی گئی کہ شہر میں ایئر کنڈیشنر استعمال کرنے والوں کی تعداد کتنی ہے۔ اندازوں کے مطابق دفاتر ہوں یا گھر، کم از کم پچیس فیصد شہری ائیر کنڈیشنر استعمال کرتے ہیں۔ خوشحال علاقوں کے ایک گھر میں دو سے چار تک ائیر کنڈیشنر کام کررہے ہیں۔ دفاتر میں تو یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔ محتاط اندازوں کے مطابق کم از کم پچاس لاکھ سے زائد ائیر کنڈیشنر دن رات چلتے ہیں۔ گھروں اور دفاتر کی تعمیر میں تھوڑا سا خیال رکھا جائے تو ماحول کی بہتری میں بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ ہم گھر کو ٹھنڈا اور شہر کو گرم کررہے ہیں۔

عالمی ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں عمارتیں موسمیاتی تبدیلیوں میں شدت لانے والی مہلک گیسوں کی پچاس فیصد شرح کے اخراج کی ذمہ دار ہیں۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی ’کلنٹن فاؤنڈیشن، کے پروگرام ’کلنٹن کلائمٹ انیشیٹیوز‘ نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے متعد بڑے شہروں کی عمارتی اصلاح کر کے ماحول میں مہلک گیسوں کے اخراج میں کمی کا منصوبہ شروع کیا تھا، جس میں لندن، بنکاک، شکاگو، برلن اور نیویارک کے علاوہ ممبئی اور کراچی کو بھی شامل کیا گیاہے، جہاں شہری اداروں کے اشتراک سے عمارتوں کا اصلاحی پروگرام شروع کیا جائے گا۔ تاکہ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کیا جاسکے۔

کراچی افقی اور عمودی سمت میں پھیل رہا ہے۔مرکزِ شہر سے زیادہ قریب رہنے اور کم زمین کے باعث زیادہ سے زیادہ استعمال کے جنون نے دفاتر، شاپنگ پلازوں اور فلیٹوں کو ایسی بے ہنگم تعمیرات میں تبدیل کردیا ہے، جس میں دھوپ، ہوا، صحتمند ماحول اور توانائی کی کفایت کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ اسی لیے جب سورج کی روشنی دن میں بھی اندر نہ آئے تو دن رات بلب جلائے جاتے ہیں۔ کراچی میں گرمیوں کے دن بھی ہوا سے خالی نہیں، لیکن جب کھڑکیوں کی سمت درست نہ ہو۔ کئی کئی منزلہ بلاک ایک دوسرے سے جڑے کھڑے ہوں تو ہوا کہاں سے آئے گی۔