عقل مند کوئل

August 30, 2019

رئیس صدیقی

ایک کوئل تھی۔ وہ بڑے لگن سے گیت گایا کرتی تھی لیکن اسے اس بات کا دکھ تھا کہ بُلبُل اس سے کہیں زیادہ میٹھی آواز میں گیت گاتی ہے۔

ایک دن ہمیشہ کی طرح وہ ایک درخت پر بیٹھی اپنے آپ میں گُم گیت گارہی تھی کہ اتفاق سے اس طرف سے ایک بلّی کا گزر ہوا۔

بلّی نے سوچا کہ یہ صاحبہ گلوکارہ معلوم ہوتی ہیں۔ ممکن ہے کوئی دائوں لگ جائے اور اپنا بھلا ہوجائے، چنانچہ وہ بولی۔

واہ بھئی واہ! کیا آواز ہے ۔ کیا رس بھرا گلا ہے۔ بس کمال ہے، جواب نہیں تمھاری آواز کا۔

جب کوئل کے کان میں ایک اجنبی کی آواز پڑی تو اس نے نیچے دیکھا۔ بلّی صاحبہ تشریف فرما تھیں۔کوئل اپنی تعریف سن کر مارے خوشی کے پھولے نہ سمائی۔

وہ بولی، ’’کیا واقعی میری آواز اچھی ہے؟‘‘

بلّی نے جواب دیا، ’’ارے تو کیا میں تم سے مذاق کررہی ہوں۔ سچ کہتی ہوں۔ خدا کی قسم پورے جنگل میں کوئی ایسا نہیں ہے جو تمھارا مقابلہ کرسکے۔‘‘

کوئل ما یوسی سے بولی۔ ’’نہیں بی بلی! یہ بات تو خیر غلط ہے۔ جنگل میں ایک سے ایک فنکار موجود ہیں۔ دور کیوں جائو ۔ بلبل ہی کو دیکھ لو۔کتنا اچھا گاتی ہے۔‘‘

’’خاک!‘‘ بلّی نے منہ بنا کر کہا، اس کے گانے میں کوئی لعل تھوڑے ہی ٹگے ہیں۔ اس کے اور تمھارے گانے میں صرف اتنا فرق ہے کہ بلبل گاتے گاتے آنکھ بند کرلیتی ہے اور آس پاس سے بے خبر ہوکر گانے لگتی ہے، جس سے اس کی آواز میں رس بھر جاتا ہے بس اتنی سی بات ہے جو اس کے گیت میں اس قدر مٹھاس پیدا ہوجاتی ہے۔

یہ سن کر کوئل باغ باغ ہوگئی اور مسکراتے ہوئے بولی، ’’ بس اتنی سی بات؟ لیکن یہ تو کوئی مشکل کام نہیں ہے؟ یہ تو میں بھی کرسکتی ہوں۔‘‘

بلّی نے جواب دیا، ’’ہاں، ہاں تم بھی کرسکتی ہو کوئی خاص بات نہیں ہے۔‘‘

’’میں ضرور ایسا کروںگی‘‘۔کوئل بولی۔

’’ہاں، ہاں! تو پھر بسم اللہ کرو۔‘‘ بلّی نے رائے دی۔

کوئل نے گانا شروع کیا اور آہستہ آہستہ آنکھیں بند کرلیں،پھر بلند آواز میں گیت گانے لگی۔

جب بلّی کو بالکل یقین ہوگیا کہ اب وہ اپنا شکار آسانی سے کرسکتی ہے، تو وہ آہستہ آہستہ درخت پر چڑھی، پھر اس ڈال پر پہنچ گئی، جس پر کوئل بیٹھی تھی ۔ چند لمحے کے بعد بلّی نے یک لخت کوئل کی ٹانگ اپنے منہ میں دبوچ لی۔جب کوئل نے یہ دیکھا تو وہ ہکّا بکّا رہ گئی، مگر فوراً اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے اُس نے سیاست اختیار کی اور مسکراتے ہوئے بولی،

’بلی صاحبہ، یہ کیا مذاق ہے؟ آپ مجھے اس قدر کیوں شرمندہ کررہی ہیں۔ کیا واقعی آپ کو میرا گیت اس قدر پسند آیا کہ مارے عقیدت کے میرے پائوں چوم لیے؟

اخلاقاً بلّی نے جواب دیا،’’ جی کوئل صاحبہ‘‘۔

اتنا ہی بلّی کے منہ سے نکلا تھا کہ کوئل کا پیر بلّی کے منہ سے چھوٹ گیا اور وہ آزاد ہو گئی اور وہ پھُرسے اڑکر سب سے اونچی شاخ پر بیٹھ گئی اور بولی۔

’’بی بلی، مجھے پہلے ہی شک ہوگیا تھا، مگر میں تمھاری میٹھی میٹھی باتوں میں آگئی اور ا پنی حقیقت بھول گئی ۔

بڑوں نے سچ کہا ہے ،کبھی بھی ،کسی کو اپنی حقیقت نہیں بھولنی چاہئے، کبھی بھی کسی کی میٹھی میٹھی باتوں میں نہیں آ نا چاہئے ،کبھی بھی کسی کی تعریف پر آنکھ بند کر یقین نہیں کرنا چاہئے ۔ یہ کہہ کر کوئل پُھر سے اُڑگئی اور بلی اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔