صحت مند معاشرہ، ہم سب کی ذمہ داری!

October 03, 2019

کہتے ہیں کہ نیکی گھر سے شروع کی جاتی ہے، اس سوچ کو دیکھا جائےتو شہر میں جا بجا جو کچرے کے ڈھیر نظر آرہے ہیں ، اس میں کسی حد تک قصور ہمارا اپنا بھی ہے۔ ہم اپنے گھر کا کچرا تھیلیوں میںبھرتے ہیںاور باہر گلی کے نکڑ پر موجود کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ کچرے کا ڈھیر جمع ہوتا چلا جاتاہے، جو تعفن کا باعث بنتا ہے۔

ہم اپنی ناک پر رومال رکھ کر انتظامیہ کو برا بھلا کہتے ہوئے کچرے کے پاس سے گزر جاتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ کوئی مسیحا آئے اور اس بدبودار صورتحا ل سے جان چھڑائے۔ اگر اس صورتحال میںبارش ہوجائے تو یہی کچرا تیرتا ہوا واپس ہمارے گھروں کے سامنے آجاتا ہے۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ انتظامیہ جاگتی ہے، جنگی بنیادوںپر کام ہوتاہے، مگر تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے کچھ دنوں بعد پھر ویسی ہی صورتحال ہو جاتی ہے۔

ایک اندازے کےمطابق کراچی میں روزانہ 12سے 14ہزار ٹن کچر پیدا ہوتاہے، جس میں سے بہ مشکل نصف ہی ٹھکانے لگایا جاتاہے، جبکہ باقی نصف کچر اشہر کے گلی کوچوں اور شاہراہوں پر موجود رہتا ہے اور یہ صورتحال کئی سالوں سے دیکھنے میں آرہی ہے، تو لازمی امر ہے کہ پھر تو شہر کچرے کا ڈھیر ہی بنے گا۔

دوسری جانب ہمارے ملک میں فضلے کوٹھکانے لگانے کا نظام خراب سے خراب تر ہوتا جارہا ہے۔ اس بحران کی بنیادی وجوہات میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ ادارے کی ناکامی ، بیوروکریسی کی کوتاہی، بلدیاتی نظام کا مؤثر کردار نہ ہونا، بوسیدہ انفرااسٹرکچر اور عوام میں شعور کی کمی شامل ہیں۔

پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں سالانہ 2کروڑ ٹن کچر ا پیدا ہوتاہے اور اس میں سالانہ 2.4فیصد اضافہ ہورہاہے۔ اس کچرے کی وجہ سے پھیلنے والی بیماریوں سے ہر سال50لاکھ سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

پاکستان کے بڑے شہر (کراچی، پشاور اور لاہور) کچرے کے انتظام کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے شدید مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان شہروں کے مختلف حصوں میں کچرے کے ڈھیروں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ایک مایوس کن تصویر پیش کی ہے، جو صفائی نصف ایمان اور حفظان صحت کی حمایت کرنے والی اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں ناکام ہے۔

اسپتال کے کچرے میں مختلف قسم کا کیمیائی، تابکاری اور عمومی فضلہ شامل ہوتا ہے، جو مناسب طریقے سے تلف نہیں کیا جاتا ہے اور پھر یہ انسانوں کی صحت کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ آپریشن تھیٹر میں استعمال ہونے والی سرنجیں ، ڈرپس ، خون کی بوتلیں ، پائپ اور دیگر آلات بڑی حد تک مناسب طریقے سے تلف نہیں کیے جاتے۔

اس طرح کا کچرا کئی بار کھلی جگہوں پر پھینک دیا جاتا ہے، جو بیماریوں کو پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔ مقامی اور بلدیاتی اداروں نے تخمینہ لگایا ہے کہ میٹروپولیٹن علاقوں سے تقریباً 70ہزار ٹن ٹھوس فضلہ پیدا ہوتا ہے، جس سےہزاروں افراد کی صحت کو خطرہ لاحق ہے۔

اسی طرح فیکٹریوں کا فضلہ اور کوڑا کرکٹ اکثر و بیشتر خالی پلاٹس، کھلے نالوں، سمندر اور دریاؤں پر ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں سمندری جانوروں کی زندگی بھی خطرے میں پڑ رہی ہے۔ صنعتی فضلہ کی مناسب تلفی نہ ہونے کے باعث اس سے غیر صحت بخش کیمیکلز جاری ہوتے ہیں، جو نہ صرف ماحول کو متاثر کرتے ہیں بلکہ لوگوں کی صحت خراب کرتے ہیں۔

فضلہ کے مذکورہ بالا انتظام کو دیکھتے ہوئے، تلف کرنے کے طریقوں کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ فضلہ کو تلف کرنے کے مناسب طریقوں سے متعلق معلومات کو عام کرنے کے لئے ماحولیاتی آگاہی کے پروگرام مرتب کیے جانے چاہئیں۔ ساتھ ہی فضلہ کو غیر مناسب طریقے سے تلف کرنے پر عوام کو صحت کے ممکنہ خطرات سے اچھی طرح آگاہ کیا جانا چاہئے۔ صنعتوں کو چاہئے کہ وہ مصنوعات کی تیاری میں ماحول دوست طریقہ کار اپنائیں۔

اس کے لیے انہیں اپنے طریقوں میں تخفیف کرنے (reduce)، ری سائیکل کرنے (recycle) اور دوبارہ استعمال کرنے (reuse ) جیسے تین عوامل کی پیروی کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ آبادی والے علاقوں میں صنعتی فضلہ پھینکنے سے گریز کیا جائے۔

اگر کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے لئے کوئی مناسب جگہ نہیں مل پاتی ہے تو شہر سے باہران مخصوص علاقوں میں کچرے کو تلف کرنا چاہئے، جہاں دور دور تک آبادی موجود نہ ہو۔ کچرا باہر پھینکنے یا صحیح جگہ ٹھکانے نہ لگانے پر قانون میں کچھ سزائیںبھی ہیں، جن پر سختی سے عمل درآمد ہونا چاہئے۔

ہمیں کیا کرناچاہیے ؟

٭ہمیں اپنے گھر کے کچرے کو مناسب جگہ ٹھکانے لگانے کا خود انتظام کرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہئے کہ اسے مخصوص مقام پر کچرا کنڈی کے اندر پھینکیں۔

٭ہمیںپولی تھین بیگز کی جگہ پیپر بیگز استعمال کرنے چاہئیں، جو بوسیدہ ہو کر زمینکا حصہ بن جاتے ہیں اور ماحولیاتی آلودگی کا باعث نہیں بنتے۔

٭کچرا جلانے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ اس کا دھواں بھی بہت مضر صحت ہوتاہے۔

٭ وفاقی، صوبائی، بلدیاتی اور انفرادی سطح پر ہم سب کو مل کر کچرے کے اس عفریت سے نجات پانے کیلئے مل جل کرکوشش کرنی چاہیے۔