ریپ تحقیقات کیلئے تربیت یافتہ ڈاکٹرز دستیاب نہیں: ڈائریکٹر فرانزک

December 15, 2019

ڈائریکٹر جنرل پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی محمد اشرف نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں ریپ کیسز کی تحقیقات کے لیے تربیت یافتہ ڈاکٹرز موجود نہیں۔

ڈی جی فرانزک سائنس ایجنسی محمد اشرف کا ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے کہ زیادتی کیسز کے نمونے ضائع ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قصور میں زیادتی کے 3 ملزمان تاحال گرفتار نہیں ہو سکے، رواں سال زیادتی سمیت دیگر کیسز کی تحقیقات پر 65 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔

ڈی جی فرانزک نے بتایا کہ محکمۂ صحت نے 2 سال پہلے سرکاری اسپتالوں کو زیادتی کیسز کی تحقیقات کے لیے زیادتی کیسز کی 25000 کٹس فراہم کیں جبکہ ہمیں صرف 700 کٹس ملیں۔

انہوں نے بتایا کہ اسپتالوں میں ڈاکٹرز کو ریپ کٹس کے استعمال کی تربیت نہیں دی گئی، کٹس ویسے ہی پڑی ہیں، بیشتر کیسز کے ملزم نمونے ضائع ہونے کی وجہ سے بچ گئے۔

ڈی جی فرانزک سائنس ایجنسی کا کہنا ہے کہ زیادتی کیس میں ایک نمونہ لینے پر ایک لاکھ 30 ہزار روپے لاگت آتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ قصور میں بچوں سے زیادتی کے 3 ملزمان ثبوت ہونے کے باوجود قانون کی گرفت میں نہیں آ سکے، یہ ملزمان بچوں کو دوبارہ اپنا شکار بنا سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیئے: راولپنڈی گینگ ریپ، فرانزک رپورٹ آگئی

ڈی جی فرانزک لیب نے بتایا کہ اپنے ملک سمیت دیگر ملکوں کے کیسز کی رپورٹس بھی تیار کرتے ہیں جن میں امریکا اور اسکاٹ لینڈیارڈ سمیت 8 ملک شامل ہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ موجودہ فرانزک لیب 113 سال بعد قائم ہوئی ہے، آئندہ 200 سال تک ایسی لیب کا قائم ہونا ممکن نہیں۔

محمد اشرف کا یہ بھی کہنا ہے کہ پنجاب فرانزک ایجنسی میں ٹریننگ لیب بھی قائم کی جا رہی ہے جس کا افتتاح وزیرِ اعظم عمران خان 2020ء میں کریں گے۔