اپوزیشن جماعتوں کا حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا منصوبہ

December 19, 2019

پاکستان تحریک انصاف کا’’ فلیگ شپ‘‘ منصوبہ بس ریپڈ ٹرانزٹ( بی آر ٹی ) ایک مرتبہ پھرزیر بحث آچکا ہے کیونکہ پشاور ہائی کورٹ نےمنصوبہ میں مبینہ کرپشن اورنقائص کا نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی اے کو45دنوں میں تفصیلی انکوائری کا حکم جاری کیا ہے، بی آر ٹی تحریک انصاف کیلئے ایک ایسا ایشو بن چکا ہے جو ہر گزرتے دن کیساتھ اس کیلئے اور اس کی صوبائی حکومت کیلئے شرمندہ اورطعنہ زنی کا باعث بنتا جارہا ہے، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کے دوران اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نےپشاور کے عوام کو بہترین سفری سہولیات کی فراہمی کیلئے19 اکتوبر 2017 کو’’ بس ریپڈ ٹرانزٹ کا سنگ بنیاد رکھ کر منصوبہ کو 180 دنوں(6ماہ) میں مکمل کرنیکا اعلان کیا تھا تاہم6ماہ میں اس منصوبہ کی تکمیل کے دعوؤں کے باوجود سوا دو سال گزرنے کے بعد بھی اس منصوبہ کی تکمیل کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

دعوؤں کے برعکس منصوبہ انتہائی تاخیر کا شکار ہوچکا ہے بلکہ اب تو اس کی شفافیت پر کھلے عام انگلیاں اٹھنے لگی ہیں،اس حوالے سے پشاورہائی کورٹ کے حالیہ فیصلہ نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے،سب سے زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے ایف آئی اے کو منصوبہ کی انکوائری سے روکنے کیلئے عدالتی فیصلہ کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد یہ سوال بہرحال انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اگر اس منصوبہ میں کوئی گڑبڑ اور بے ضابطگی نہیں ہوئی اور تمام تر مراحل شفاف انداز میں طے کئے گئے ہیں تو پھر صوبائی حکومت شفاف تحقیقات سے راہ فرار کیوں اختیار کررہی ہے ؟ اطلاعات کے مطابق ایف آئی اے نے اب اس حوالے سے انکوائری کا باضابطہ آغاز کردیا ہے۔

تاہم صوبائی حکومت کی جانب سے تاحال سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہیں کی جاسکی ہے، درحقیقت بی آر ٹی نے پشاور کے لوگوں کیلئے جو مشکلات پیدا کی ہیں اس کی وجہ سے ہر خاص و عام کی دلچسپی اس منصوبہ میں ہے، پورے شہر کا انفراسٹرکچر تباہ اور سڑکیں تنگ ہوچکی ہیں، شہر میںکراسنگ پوائنٹ کم ہونے سے بچوں، بوڑھوں، خواتین اور مریضوں کیلئے چمکنی سے حیات آباد تک سڑک پار کرنا انتہائی مشکل مرحلہ بن چکا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا غم و غصہ بڑھتا اور منصوبہ کی انکوائری کا مطالبہ روز پکڑتا جارہا ہے۔

جس کا ادراک کرتے ہوئے صوبائی حکومت نے بھی ایف آئی اے کو ’’بس ریپڈ ٹرانزٹ‘‘ منصوبہ کی تحقیقات میں مکمل تعاون اور قانون کے مطابق مدد فراہم کرنیکا اعلان کیا اور موقف اپنا یا کہ سپریم کورٹ میں رٹ پٹیشن ایف آئی اے کو انکوائری سے روکنے کیلئے نہیں بلکہ ہائی کورٹ کے سوالات پر اپنا موقف پیش کرنے کیلئےجمع کرارہے ہیں اگر ایف آئی اے انکوائری کرنا چاہتی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہم ایف آئی اے کو تحقیقات سے روکیں گے،ہمیں صرف خدشہ یہ ہے کہ کہیں کام میں تاخیر نہ ہو کیونکہ بی آر ٹی کے تعمیراتی کام میں تیزی آگئی ہے،وزیر اعلی محمود خان خود اس کی نگرانی کر رہے ہیں، اگر اس کی شفافیت پر کہیں انگلی اٹھتی ہے تو ہم خود چاہیں گے کہ تحقیقات ہوں‘‘ بہر حال اس ضمن میں اب شفاف تحقیقات ناگزیز ہوچکی ہیں تاکہ کوتاہی کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا جائے کیونکہ یہ منصوبہ جتنا تاخیر کا شکار ہوتا جائے گا اور صوبائی حکومت انکوائری سے جتنا راہ فرار اختیار کرے گی ۔

اس سے صوبائی حکومت کیلئے مشکلات میں اضافہ ہوتا جائیگا، یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے دن کیساتھ بی آر ٹی کے معاملہ میں شفاف انکوائری کے مطالبہ میں شدت آتی جارہی ہے، دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایک مرتبہ پھر خیبر پختونخوا اسمبلی کااجلاس بلانے کیلئے ریکوزیشن جمع کرائی جاچکی ہے جس پر 39ارکان نے دستخط کئے ہیں جبکہ ریکوزیشن کیساتھ 10نکاتی ایجنڈا بھی جمع کرایا گیا ہے۔

جس میں بی آر ٹی اور بلین ٹری منصوبوں میں مبینہ کرپشن کے نکات سر فہرست ہیں، اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت اہم نوعیت کی قانون سازی پر نہ صرف غفلت کا مظاہرہ کررہی ہے بلکہ صوبائی اسمبلی کو ربڑ سٹمپ کے طور پر بھی استعمال کررہی ہے کیونکہ انتہائی اہم قانون سازی کیلئے آئینی طریقہ کار اختیار کرنے کی بجائے لمحوں میں بلوں کی منظوری کی روایت مستحکم کررہی ہے جس کی مثال اپوزیشن کی طرف سے ترمیمی معدنی بل کی دی جاتی ہے۔