’تلاش‘ نئے سال کی مناسبت سے لکھا گیا خصوصی افسانہ

January 19, 2020

ہوا تیز اور سرد تھی۔ لہریں ایک دوسرے کے تعاقب میں ساحل کی طرف آتیں اور ریت پر آکر اُس کے قدموں میں دَم توڑ دیتیں۔ سال کے آخری دن کا سورج دُور سمندر کے نیلگوں پانیوں میں اُترنے کی تیاریوں میں تھا۔ پُرسکون پانیوں پہ مچھیروں کی کشتیاں رواں دواں تھیں۔ اُس نے نظر اُٹھا کر اُن آبی پرندوں کو دیکھا، جو پروں کو سمیٹتے اور پھیلاتے، اجنبی منزلوں کے سفر پر گام زن تھے۔ اُس سرد ہوا کی خنکی کو اُن پرندوں نے بھی اُسی کی طرح محسوس کیا۔ ڈوبتے سورج کا شفق رنگ عکس، اُن پرندوں اور انیس احمد کی آنکھوں کی پُتلیوں میں ایک ساتھ اتر آیا۔

اُس کا منہ سورج کی طرف تھا۔ اُس کے ننگے پیروں کے تلووں نے نرم ریت کی خنکی کو جذب کیا۔ ریت کے ذرّےاُس کے پیروں کے بوجھ کے نیچے اِدھر اُدھر کِھسک گئے تھے۔ساحل کی ریت پر کچرا بکھرا تھا۔ انیس احمد کے سائے نے بسکٹ کے ایک خالی ڈبے کو ڈھانپ رکھا تھا۔اُس نے گردن گھما کر دیکھا ایک خانہ بدوش بچّے نے اُس خالی ڈبے کو اُٹھا کر کوڑے کی اُس ٹوکری میں ڈال لیا، جو اُس نے اپنے کندھوںپر اُٹھا رکھی تھی۔

شام کے اندھیرے اکثر لوگوں کو گھر کا رستہ دِکھاتے ہیں۔ پرندے، مسافر اور صبح کے بھولے بھٹکے اکثر سرِشام گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ انیس احمد نے غور سے دیکھا، اُس لاغر اور کمزور بچّے کے چہرے میں اُسے اپنا چہرہ نظر آیا۔ کبھی وہ بھی اسی طرح ،اسی ساحل پہ کوڑا کرکٹ چُنتا تھا۔ لوگوں کے لیے جس کچرےکی کوئی قیمت نہیں ہوتی تھی، وہ جسے بے مصرف اور فضول سمجھ کر ساحل پر پھینک دیتے تھے۔ وہ خالی بوتلیں، ڈبّے، پلاسٹک کے شاپر، ٹوٹے جوتے، پَھٹےپرانے کپڑے یہ سب بے وقعت چیزیں اُس کے لیے بہت قیمتی ہوتیں کہ اسی کوڑے کرکٹ کو بیچ کر وہ پیٹ کا ایندھن خریدتا تھا۔

شام ہوچُکی تھی اور اُسے اپنے گھر لوٹنا تھا۔ پر اُس کا تو اب اس شہر میں کوئی گھر نہ تھا۔ کئی برس بعد وہ اس شہر لوٹا تھا۔ مچھیروں کی وہ بستی اس ساحل سے زیادہ دُور نہیں تھی جہاں اس نے آنکھیں کھولیں، جو اس کی جائے پیدائش تھی۔ پر،ہوش کی منزل تک پہنچنے سے پہلے پہلےاس کے ماں باپ نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔ اس بَھری دنیا میں ٹوٹے پھوٹے، ایک گھاس پھونس کے جھونپڑے کے سوا اُس کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔

جہاں وہ رات کو سو جاتا اور پھر صبح اُٹھ کر سارا دن شہر کی سڑکوں کی خاک چھانتا۔ شام کے ڈھلتے سورج کو وہ ہمیشہ سمندر کے ساحل پر الوداع کہتا ، پھر بستی کا رُخ کرتا۔ اپنے جھونپڑے پہنچتا اور لالٹین جلا لیتا۔ لالٹین کی دھیمی روشنی، مَیلےشیشوں سےنکل کر پورے جھونپڑے میںپھیل جاتی۔وہ چٹائی پر لیٹ جاتا اور اس نیم تاریک جھونپڑے میں اَن دیکھی دنیا کے خواب دیکھتا، سنہرے دِنوں کے خواب، اچھے مستقبل کے سپنےسجاتا۔ بھوک لگتی تو بچا کُھچا ،سوکھا سڑا جو بھی کھانا جھونپڑے میں پڑا ہوتا ،پانی کے ساتھ حلق سے نیچے اتار لیتا۔

اُس شام جب سال کا آخری سورج الوداع کہہ کر دُور پانیوں میں ڈوبنے لگا ، تو انیس احمد کو لگا کہ کسی نہ کسی بستی میں کوئی نہ کوئی ویران جھونپڑا اس بچّے کا منتظر ہوگا، لیکن اس شام اس شہر میں جہاں وہ اتنے عرصے بعد آیا تھا، واپس لوٹنے کے لیے انیس احمد کا کوئی گھر نہیں تھا، نہ ہی کوئی بستی اُس کی منتظر تھی اور نہ ہی کوئی ویران جھونپڑا۔بہت سال پہلے وہ بھی اسی ساحل پہ کوڑا کرکٹ چُنتا تھا، تو سردیوں کی ایک شام ایک بوڑھے شخص کی اُس پر نظر پڑ گئی تھی۔بوڑھا جو ڈوبتے سورج کو الوداع کہہ رہا تھااور وہ بوڑھے کے ریت پر لمبے ہوتے سائے میں پڑے ایک بسکٹ کے ڈبّے کو جُھک کے اُٹھانے ہی لگاتھا کہ کانوں میں بوڑھے کی کرخت آواز گونجی ’’خبردار اِس کو ہاتھ مت لگانا…‘‘ وہ جُھکتے جُھکتے اُٹھ کھڑا ہوا۔ بوڑھے کی آنکھوں میں خشونت تھی۔

وہ آنکھیں اُسے گھور رہی تھیں۔ ’’انیسو‘‘ کو لگا،جو اب انیس احمد تھا، جیسے وہ چوری کرتے پکڑا گیا ہو۔ بوڑھے نے وہ خالی ڈبّا اُٹھایا اور اُسے ساتھ آنےکا اشارہ کیا۔ بوڑھے شخص نے وہ ڈبّا کوڑے دان میں پھینک دیا۔ وہ سہما سہما سا بوڑھے کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔’’مَیں نے کئی بار تمہیں ساحل سےکُوڑا چُنتے دیکھا ہے…‘‘ بوڑھے کے لہجے میں بدستور کرختگی تھی۔’’جی! مَیں کُوڑا چُنتا ہوں۔ اُس میں سے کچھ کام کی چیزیں نکال کے کباڑی کو بیچ دیتا ہوںاور پھر اُسی آمدن سے اپنی پیٹ پوجا کرتا ہوں…‘‘ اُس نے سہمے لہجے میں بوڑھے کو جواب دیا۔’’خبردار! آئندہ تم مجھے ساحل پر کُوڑا چُنتےکبھی نظر مت آنا…‘‘ بوڑھے نے اُسے تقریباً ڈانٹتے ہوئے کہا۔ تنگ گلیوں میں سے ہوتے ہوئے وہ دونوں ایک بوسیدہ سے مکان کے سامنے پہنچ گئے۔ مکان کے صدر دروازے کےباہر تختی لگی ہوئی تھی۔ ’’جمیل بھائی موجمدار‘‘ بوڑھے نے اپنی واسکٹ کی جیب سے ایک چابی نکالی اور گھر کا دروازہ کھولا۔ وہ دونوں ایک چھوٹے سے صحن سے گزر کر ایک بہت بڑے کمرے میں داخل ہوگئے۔

یہ کمرا بیک وقت بیڈ رُوم بھی تھا، کچن ، ڈائننگ رُوم اور بیٹھک بھی۔ کمرے میں داخل ہوکر جمیل بھائی موجمدار نے ایک مونڈھے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ ڈرا ڈرا سا اُس مونڈھے پر بیٹھ گیا۔ بوڑھا آدمی بھی چارپائی پر بیٹھ گیا۔ چارپائی کے قریب حقّہ دھرا تھا، جسے شاید دوپہر میں تازہ کیا گیا تھا۔ بوڑھے نے حقّے کی راکھ ایک چھڑی سے کریدی۔ اور حقّے کی نال منہ سے لگا کر کش کھینچا۔ دھویں کے مرغولے کے ساتھ تمباکو کی بُو کمرے میں پھیل گئی۔

کمرے میں مختلف خوشبوئیں تھیں، جو الگ الگ پہچانی جا سکتی تھیں۔ ایک برتن میں پڑے تازہ تازہ گُڑ کی خُوش بُو، جو آج ہی کہیں سےآیا تھا، حقّے سے اُٹھتی تمباکو کی خُوش بُو، چارپائی سےآتی بان کی بوسیدگی کی بُو۔ اُس نے ان تمام خوش بوؤں کو الگ الگ اور اُن کے ملاپ سے بننے والے خوش بُوکے ملغوبے کو بالکل الگ محسوس کیا۔

بابا جمیل بھائی موجمدار نے اسے ایک تھالی میںتازہ گُڑ رکھ کر کھانے کے لیے دیااوروہ کچر کچر گُڑ چبانے لگا۔ اُس نے گڑکی مٹھاس اور بابا موجمدار کے لہجے کی کڑواہٹ بیک وقت محسوس کی۔’’آج کے بعد تم کچرا نہیں چُنو گے۔ بستہ اور کتابیں مَیں نے خرید لی ہیں۔ کل سے تمہیں اسکول چھوڑ آؤں گا۔ تمہارا کھانا پینا، پڑھنا پڑھاناسب میرے ذمّے ہے۔‘‘ بابا موجمدار نے حقّےکا کَش لگایا اوردھوئیں کا مرغولا فضا میں چھوڑ دیا۔ اُس نے بوڑھے موجمدار کی آنکھوں پہ جَمےشیشوں کی عینک کو گھورااور کمرے میں جلتے پیلےبلب کی روشنی میں اُس کی چمکتی سفید داڑھی کو دیکھا۔ اُس داڑھی سے انیسو کو نور کے ہالے سے نکلتے محسوس ہوئے۔ بابا جی نے اپنی ساری جمع پونجی اُس پر خرچ کردی، اُسے علم کے راستے پر ڈال دیا۔

وہ زندگی میں آگے بڑھتا رہا، ترقّی کرتا رہا۔ بابا جی کی ذات اُس کےلیے زندگی میں سب سے بڑا سہارا، اُس کی کُل کائنات تھی۔ وہ وظیفے پہ سات سمندر پا رپڑھنے کے لیےچلا گیا، جہاں اُسے بہت شان دار نوکری مل گئی۔ اُس نے بے تحاشا دولت کمائی، مگر زندگی کے ہر موڑ پر باباموجمدار کو یاد رکھا۔

آج کئی برسوں بعد، سال کے آخری دن وہ اپنےشہر ،بابا موجمدار کے شہر لوٹا تھا۔ بابا جی اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔ اس شہر میں وہ اِسی اداسی کے ساتھ داخل ہوا تھا کہ موٹے شیشوں کی عینک اور نورانی داڑھی والا وہ بابا اب اس شہر میں نہیں ، جس کی وجہ سے وہ آج اس مقام پر تھا۔انیس احمد نے اُس کوڑا چنتے بچّے کو دیکھا، تواُسے لگا کہیں کوئی جھونپڑا اس بچّے کا بھی منتظر ہے۔ میلی لالٹین کےشیشوں سےجھانکتی ،گدلی روشنی اس کا رستہ تک رہی ہوگی۔ وہیں کسی پھٹی پرانی چٹائی پر لیٹ کر یہ بچّہ بھی خواب دیکھتا ہوگا ،سُہانے مستقبل کے خواب۔ سنہرے دِنوں کے سپنے اس کی آنکھوں میں نیند کے ساتھ اُتر آتے ہوں گے۔

انیس احمد نے اِدھر اُدھر دیکھا، اُسے ساحلِ سمندر پر دُور تک کوئی جمیل بھائی موجمدار نظر نہیںآئے۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ اُس نے بچّے کو کلائی سے پکڑ لیا۔ ’’اسکول جاتےہو؟‘‘ اُس نے لڑکے سے پوچھا۔ لڑکے نے نفی میں سر ہلا دیا۔ ’’آج کے بعد تم کُوڑا نہیں چُنو گے۔‘‘ انیس احمد کے لہجےمیں درشتی تھی، لڑکے نے سہمی سہمی نظروں سے اُسے دیکھا ۔ اُن آنکھوں میں خوف کے سائے تھے۔’’مَیں تمہارے لیے کتابیں اور بستہ خریدوں گا۔ تمہیں نئے کپڑے لے کر دوں گا۔

کل نئے سال کا پہلا دن ہے اور مَیں چاہتا ہوں کہ یہ نیا سال تمہاری زندگی کے لیے واقعی نیا ثابت ہو۔ کل مَیں تمہیں اسکول چھوڑ کے آؤں گا۔ تمہاری پڑھائی کا سارا خرچہ مَیں اُٹھاؤںگا۔جب کل نئےسال کا پہلا سورج طلوع ہو تو تم مجھے اِسی ساحل پر ملنا۔‘‘شام کے سائے پھیل گئے تھے۔ شام ہو تو لوگ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔

خانہ بدوش لڑکے نے کُوڑےکی ٹوکری پشت سے اتار کر ایک طرف رکھ دی اور اپنے جھونپڑے کی طرف چل دیا۔ انیس احمد کا تو اب اس شہر میں کہیں کوئی گھر نہیں تھا۔ اُسے کہیں لوٹ کر نہیں جانا تھا۔ اُس نے ریت پر ایک طرف رکھے اپنے جوتے پہنے اور بابا جمیل بھائی موجمدار کی قبر کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ وہ نئے سال کا پہلا دن اُس مسیحا کی قبر پر گزارنا چاہتا تھا، جو اس کی زندگی میں ایک نئی صبح، نئی روشنی اور زندگی کو نئی سمت دینے آیا تھا۔