جنرل قاسم سلیمانی کے بعد کا مشرقِ وسطیٰ

January 19, 2020

نئے سال کے آغاز ہی میں امریکی حملے میں ایرانی پاس دارانِ انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ، جنرل قاسم سلیمانی کی موت کے نتیجے میں امریکا، ایران کشیدگی اس حد تک پہنچ گئی کہ تیسری عالمی جنگ کے آغاز کا خدشہ ظاہر کیا جانے لگا۔ یاد رہے کہ جنرل سلیمانی اُس خارجہ پالیسی کے نفاذ میں کلیدی کردار کے حامل تھے، جس پر ایران اس صدی کے اوائل سے عمل پیرا ہے، تاکہ مشرقِ وسطیٰ میں ایرانی مفادات کا تحفّظ ہو اور اُس کے اثر و رسوخ کو مستحکم کیا جا سکے۔ قاسم سلیمانی اس مقصد کے حصول کے لیے ایران کے زیرِ اثر ممالک میں مختلف ملیشیاز کو استعمال کرتے تھے اور اس ضمن میں شام اور یمن کی خانہ جنگی کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

امریکا، ایران کشیدگی میں اضافے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہائوس میں خطاب کرتے ہوئے

ایران کی ایک طاقت وَر شخصیت کی اچانک ہلاکت کسی دھماکے سے کم نہیں تھی، کیوں کہ امریکی اتحادیوں کو بھی امریکا سے اس انتہائی اقدام کی توقّع نہیں تھی، جب کہ اس واقعے کے بعد کشیدگی میں کمی کے لیے رُوس اور چین نے فریقین کو صبر و تحمل کی تلقین کی۔ جنرل سلیمانی کی موت سے ایرانی حکومت اور قوم کو بھی شدید دھچکا لگا۔ اُن کی تدفین میں لاکھوں ایرانی باشندوں نے شرکت کی اور اس موقعے پر امریکا کے خلاف شدید غم و غصّے کا اظہار کیا۔

علاوہ ازیں، ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے عراق میں قائم دو امریکی فوجی اڈّوں پر میزائل داغے اور 80افراد ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ تاہم امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایرانی حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ البتہ ایران کے اس جوابی حملے کے بعد دونوں ممالک کے مابین ممکنہ جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای، قاسم سلیمانی کی نمازِ جنازہ کے موقعے پر آبدیدہ ہو گئے،تصویر میں حسن روحانی بھی نمایاں ہیں

قبل ازیں، ایرانی سُپریم لیڈر، آیت اللّٰہ خامنہ ای نے خود بدلہ لینے کی دھمکی دی تھی، کیوں کہ جنرل سلیمانی ان کے کافی قریب تھے۔ ایران کی جوابی کارروائی کے بعد امریکی صدر نے قوم سے خطاب میں کہا کہ ’’ہم ہتھیاروں اور فوجی طاقت کا استعمال نہیں چاہتے۔‘‘ البتہ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بات بھی دُہرائی کہ’’ امریکا دُنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے۔‘‘ امریکی صدر نے ایران کو امن کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ’’ایرانی باشندوں کو بہتر زندگی کا موقع ملنا چاہیے اور ہم غیر مشروط بات چیت کے لیے تیار ہیں۔‘‘ تاہم، اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عاید کرنے کا بھی اعلان کردیا۔ بہرحال،ٹرمپ کے اس خطاب کے بعد اقوامِ عالم نے سُکھ کا سانس لیا۔

کرمان میں القدس فورس کے سربراہ کی تدفین میں لاکھوں ایرانی باشندے شریک ہوئے

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی موت کے بعد مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال کیسی ہوگی۔ جنرل سلیمانی ایران کی دوسری طاقت وَر ترین شخصیت تھے اور براہِ راست سُپریم لیڈر کو جواب دہ تھے۔ وہ مشرقِ وسطیٰ سے لے کر جنوبی ایشیا تک میں ایرانی مفادات کی نگہبانی کرتے تھے۔ واضح رہے کہ ایرانی انقلاب کے بانی، آیت اللہ خمینی نے اقتدار میں آنے کے بعد شہنشاہ محمد رضا پہلوی کی افواج کو ہٹاتے ہوتے انقلاب کی حفاظت کے لیے ایک نئی فورس تشکیل دی تھی، جسے پاس دارانِ انقلاب کا نام دیا گیا۔

بعد ازاں، ایک باقاعدہ فوج بھی تیار کی گئی۔ گرچہ پاس دارانِ انقلاب کوئی باقاعدہ فوج نہیں، تاہم ایک اعلیٰ درجے کی لڑاکا فورس ضرور ہے۔ القدس فورس اسی کا حصّہ ہے، جس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی تھے۔ انقلاب کے بعد تقریباً 20برس تک ایران اندرونی مسائل سے نبرد آزما رہا۔ 1980ء کی دہائی میں اسے عراق کے خلاف 10سال تک جنگ لڑنا پڑی۔ اس جنگ میں پاس دارانِ انقلاب نے بھی بھرپور حصّہ لیا۔ اسی عرصے میں قاسم سلیمانی فورس میں شامل ہوئے اور کئی معرکوں میں حصّہ لیا۔ البتہ اصلاح پسند، ہاشمی رفسنجانی کے دورِ صدارت میں پس منظر میں چلے گئے۔

نئے ہزاریے کے آغاز میں ایران نے اپنے انقلاب کو برآمد کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کیا اور صدر احمدی نژاد کے دَور میں اس پر خاصی تیزی سے کام کیا گیا۔ اسی دَور میں قاسم سلیمانی کو نئی خارجہ پالیسی پر عمل درآمد کروانے کی ذمّے داری سونپی گئی، جس کے نتیجے میں ایران اور امریکا کے مفادات میں زبردست تصادم کا خطرہ لاحق ہوا، جب کہ قبل ازیں، جنرل سلیمانی اتحادی افواج اور امریکا کی طالبان کے خلاف جنگ کے حامی تھے۔ تاہم، عراق پر امریکی فوج کے قبضے کے بعد ایک نیا دَور شروع ہوا۔

اس دوران ایران نے سب سے پہلے لبنان میں حزبُ اللہ کو مضبوط کیا اور مُلک میں حکومت سازی کے لیے مختلف سیاسی دھڑوں کے درمیان طاقت کا توازن پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ایران نے عرب باشندوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے حماس سے تعلقات استوار کیے، انتہائی جارحانہ انداز میں اسرائیل کی مخالفت شروع کی اور خود کو مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن بنا کر پیش کیا۔ یاد رہے کہ شہنشاہِ ایران کے زمانے میں ایران کے اسرائیل سے خوش گوار تعلقات تھے۔

جنرل قاسم سلیمانی نے حزبُ اللہ کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اسے اس قدر وسائل فراہم کیے کہ وہ مشرقِ وسطی کی سب سے طاقت ور ملیشیا بن گئی۔ واضح رہے کہ اس وقت حزبُ اللّٰہ کے سربراہ، حسن نصر اللّٰہ لبنان میں ’’بادشاہ گَر‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں، جنرل سلیمانی نے ایران کی حمایت یافتہ تمام ملیشیاز کو مربوط و توانا کرنے میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔

یہی وجہ ہے کہ حزبُ اللّٰہ سمیت دیگر ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاز نے شامی خانہ جنگی میں ایرانی مفادات کا بھرپور انداز میں تحفّظ کیا اور انہی کی معاونت کے سبب شامی صدر، بشار الاسد کی افواج نے اپوزیشن کے خلاف کام یابی حاصل کی اور جنرل سلیمانی نے اس فتح میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ شامی صدر نے انہیں زبردست انداز میں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ رُوس کو شامی خانہ جنگی کا حصّہ بنانے میں بھی جنرل قاسم کا کردار رہا۔ انہوں نے یہ قدم اُس وقت اُٹھایا کہ جب جوہری معاہدے کے بعد امریکا کے دل میں ایران کے لیے نرم گوشہ پیدا ہو گیا تھا۔

گرچہ شام میں ایران کی یہ کام یابی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے، لیکن اس خانہ جنگی کے نتیجے میں 5لاکھ شامی شہری جاں بحق اور ایک کروڑ سے زاید بے گھر ہوئے، جن میں سے 30لاکھ صرف تُرکی کی سرحد پر کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ خانہ جنگی کے دوران شامی اپوزیشن کو سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک اور تُرکی کی حمایت حاصل تھی، جب کہ امریکا اور یورپ بھی زبانی حد تک اس کی مدد کرتے رہے۔

تاہم، عین موقعے پر اوباما نے شامی اپوزیشن کی حمایت ترک کر کے اُسے شکست کے راستے پر ڈال دیا، جس پر خود امریکا میں اُن پر زبردست تنقید ہوئی۔ شامی خانہ جنگی ہی کو سعودی عرب، ایران تنازعے کا نام دیا گیا اور یہی دونوں کے درمیان بالادستی کی کش مکش کی بنیاد بنی۔ ہر چند کہ جنرل قاسم سلیمانی کی حکمتِ عملی نے عرب ممالک، تُرکی اور مغربی طاقتوں کو شام میں جُھکنے پر مجبور کیا، لیکن اس سلسلے میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے نے بھی کردار ادا کیا، جس کے تحت امریکا نے ایران کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں واپسی کے دروازے کھولے۔

اس جوہری معاہدے میں ایرانی صدر، حسن روحانی پیش پیش رہے۔ معاہدے کے بعد رُوس نے شامی شہروں پر بم باری شروع کر دی، جسے داعش کے خلاف کارروائی قرار دیا گیا، جب کہ آج ایران خود داعش کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رہا ہے۔ دوسری جانب عراق پر قبضے کے بعد امریکا نے جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صدام دَور کی فوج اور بیورو کریسی ہٹا کر ایک نئی انتظامیہ اور فورس بنانے کا اعلان کیا اور اپنے منتخب نمایندے مالکی کو عراق کا وزیرِ اعظم مقرّر کر دیا۔

گو کہ اُس وقت بھی ایران، امریکا دشمنی عروج پر تھی، لیکن عراق کی حد تک دونوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایران نے فوراً ہی مالکی انتظامیہ کو قبول کر لیا۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی اپنی حمایت یافتہ ملیشیاز کو عراقی فوج کا نعم البدل بنا دیا۔

ان جنگ جُو تنظیموں کو امریکا کی پُشت پناہی بھی حاصل تھی، کیوں کہ وہ انہیں صدام حسین کے حامیوں کو غیر مؤثر کرنے کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ عراق سے متعلق ایرانی پالیسی میں قاسم سلیمانی نے اہم ترین کردار ادا کیا۔ انہوں نے عراق میں موجود اپنی ملیشیاز کو مستحکم کیا اور نتیجتاً عراق وہ پہلا مُلک بن گیا کہ جو امریکا کی عسکری قوّت کی موجودگی کے باوجود ایران کے زیرِ اثر رہا۔

امریکی حملے میں جنرل سلیمانی کے ساتھ حشد الشعبی نامی عراقی ملیشیا کے نائب سربراہ، ابو مہدی المہندس بھی مارے گئے۔ یاد رہے کہ مذکورہ جنگ جُو تنظیم ہی نے واقعے سے چند روز قبل امریکی اہل کاروں کو ہلاک کرنے کی ذمّے داری قبول کی تھی، جس کے جواب میں امریکا نے اس کے 24جنگ جُو قتل کر دیے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ عراق گزشتہ تین ماہ سے شدید احتجاجی مظاہروں کی لپیٹ میں تھا، جس کا سبب موجودہ عراقی وزیرِ اعظم، عادل المہدی کی انتظامیہ کی نا اہلی اور تباہ حال معیشت ہے۔ ان مظاہروں کے دوران نہ صرف نجف میں واقع ایرانی قونصل خانے پر حملہ کیا گیا، بلکہ ایرانی پرچم نذرِ آتش کرنے کے ساتھ ایران کے عراق سے نکل جانے کے نعرے بھی لگائے گئے۔ ایران نے ان مظاہروں کا ذمّے دار امریکا کو ٹھہرایا۔

احتجاج میں شدّت آنے کے بعد عادل المہدی وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہو کر نگراں وزیرِ اعظم بن گئے۔ اس موقعے پر محسوس ہوا کہ عراق میں ایران کی حکمتِ عملی ناکام ہو گئی اور عراقی عوام میں اس کے خلاف غم و غصّہ پایا جاتا ہے، جب کہ گزشتہ برس جب داعش کے خلاف امریکی اور عراقی افواج نے مشترکہ کارروائی کی تھی، تو ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاز نے امریکی فوج کا ساتھ دیا تھا۔ داعش کو شکست دینے میں بھی جنرل سلیمانی کے اہم کردار کا اعتراف کیا گیا اور غالباً اسی لیے اپنے خطاب میں ٹرمپ نے یہ کہا کہ داعش کے خاتمے سے ایران کو فائدہ ہوا۔

خطّے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے منصوبے پر عمل پیرا ایران، یمن میں حوثی باغیوں کی اعانت کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں سعودی عرب کی دو اہم تیل تنصیبات پر حملے کے نتیجے میں سعودی عرب کی جانب سے تیل کی نصف ترسیل معطّل ہو گئی تھی۔ اس حملے کی ذمّے داری حوثی باغیوں نے قبول کی تھی۔ ڈرون طیاروں کے ذریعے کی گئی اس کارروائی کے نتیجے میں سعودی تیل تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا اور متعدد اہل کار ہلاک ہوئے۔

اس حملے کا ذمّے دار ایران کو قرار دیا گیا، لیکن ایران نے اس واقعے سے مکمل برأت کا اظہار کیا۔ اس موقعے پر امریکا نے اپنے حلیف، سعودی عرب کو جوابی کارروائی کی پیش کش کی، لیکن سعودی قیادت نے تحمّل کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذکورہ واقعے کو جنگ میں تبدیل ہونے سے روک دیا۔ تاہم، ماہرین کے مطابق امریکا نے اُسی وقت ایران کے خلاف فیصلہ کُن قدم اٹھانے کا فیصلہ کر لیا تھا، تاکہ خطّے میں موجود اُس کے اتحادیوں کے مفادات کو کوئی ناقابلِ تلافی نقصان نہ پہنچے اور یہ تاثر مستحکم نہ ہو جائے کہ ایران مشرقِ وسطی کی ایک فیصلہ کُن طاقت بن رہا ہے اور رُوس بھی واپس آ چُکا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پر نظر رکھنے والے اُس جوہری تبدیلی کی جانب بھی توجّہ دلاتے ہیں کہ جو تیل کی کم قیمتوں کے سبب رُونما ہوئی۔ واضح رہے کہ آج امریکا اور مغربی دُنیا کو مشرقِ وسطیٰ کے تیل کی ضرورت نہیں رہی اور ٹرمپ نے اپنے خطاب میں بھی اس بات کا ذکر کیا کہ امریکا نہ صرف دُنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرتا ہے، بلکہ برآمد بھی کرتا ہے۔

تیل پیدا کرنے والے ممالک میں ایران چوتھے نمبر پر ہے۔ تاہم، تیل کی قیمتوں میں کمی اور امریکا کی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران کی معیشت زبرست دباؤ میں ہے اور حسن روحانی معیشت کی بحالی کے وعدے کے سبب ہی دو مرتبہ عہدۂ صدارت پر فائز ہوئے۔ لہٰذا، غم و غصّے کے باوجود ایرانی قیادت زمینی حقائق کا ادراک رکھتی ہے۔ سو، ماہرین کا ماننا ہے کہ امریکا اور ایران کے درمیان تلخ بیانات کا تبادلہ اور مشرقِ وسطیٰ میں تنائو بھی برقرار رہے گا، لیکن کسی باقاعدہ جنگ کا خطرہ نہیں، کیوں کہ عالمی طاقتیں بھی اس کی متحمّل نہیں ہو سکتیں۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی موت کے بعد رُونما ہونے والے واقعات کا پاکستان پر کیا اثر مرتّب ہو گا۔ نیز، ایک ایسے اسلامی مُلک کو، جس کے امریکا، عرب ممالک اور ایران سے قریبی تعلقات ہیں، کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟ پاکستان کے امّتِ مسلمہ کا اہم حصّہ ہونے کے ناتے پاکستانی قوم کی خواہش ہے کہ اسلامی ممالک کا کوئی بھی باہمی تنازع خوں ریزی کی شکل اختیار نہ کرے، بلکہ امتِ مسلمہ اتحاد و یک جہتی کا مظاہرہ کرے۔

البتہ نہ چاہتے ہوئے بھی مشرقِ وسطیٰ کے ہر تنازعے کے اثرات پاکستان پر مرتّب ہوتے ہیں، کیوں کہ اگر ایران سے اس کی سرحدیں ملتی ہیں، تو خلیجی ممالک میں کم و بیش 50 لاکھ پاکستانی ملازمت کرتے ہیں اور اُن کے مفادات پاکستان کے مفادات ہیں۔ وہ نہ صرف ہمارے بھائی ہیں، بلکہ اپنے خون پسینے کی کمائی سے قیمتی زرِ مبادلہ بھی فراہم کرتے ہیں، جو ہماری معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسری جانب مُلک کی کم زور معیشت کو توانا کرنے کے لیے مالی امداد اور تیل کی اشد ضرورت ہے، جس کے سبب خلیجی ممالک کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

البتہ ہمیں اپنی سر زمین کو کسی دوسرے بالخصوص اسلامی ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ اس سلسلے میں ہم افغانستان کی خانہ جنگی سے بخوبی سبق حاصل کر چُکے ہیں، جس کے زخم ابھی تک مندمل نہیں ہو ئے۔ پھر ویسے بھی اب اسلامی دُنیا کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ معاشی مسابقت کا دَور ہے، جنگوں اور بالادستی کا زمانہ گزر گیا۔ہمیں چاہیے کہ پہلے ہم اپنے عوام کے حالات سنواریں، پھر کسی دوسرے مُلک میں اثر و رسوخ بڑھانے کے بارے میں سوچیں۔