چین اور امریکا کے مفادات

January 22, 2020

مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی سے خطّےکی صورت حال خاص پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے ۔ ایک جانب امریکا، اسرائیل، یورپی ممالک، سعودی عرب اور خلیجی ریاستیں ہیں ، دوسری جانب ایران ہے جس کے خاصے گہرے اثرات لبنان، عراق، شام اور یمن میں ہیں۔ ان تمام مذکورہ ممالک کے کسی نہ کسی حوالے سے مشرق وسطیٰ سے مفادات جڑے ہوئےہیں۔ دوسری جانب چین اور روس دو بڑی طاقتیں ہیں۔

روس نےگزشتہ چندبرسوں سے شام میں بشار الاسد کی حکومت کی حمایت میں فوجی مداخلت کر رکھی ہے۔ روسی لڑاکا بمبار طیارے شام میں حکومت مخالف قوتوں پر بمباری کرتے رہے ہیں ،خاص طور پر روس نے شام میں داعش کو خاصا نقصان پہنچایا ہے اور ایک بڑا علاقہ داعش سے خالی کرالیا ہے۔ عراق میں امریکا کی چھ ہزار افواج ہیں۔

لڑاکا طیارے اور دیگر جدید سامان حرب موجود ہے۔ چین کا اس خطےکےحوالے سے بے حد محتاط رویہ ہے۔ چین نے ’’ایک روٹ ایک بیلٹ‘‘ کا جو گلوبل منصوبہ شروع کیا ہے اس میں وہ ایشیائی، افریقی، یورپی اور جنوبی امریکی ممالک سمیت مشرق وسطیٰ کو بھی بہت اہمیت کا حامل خطہ تصور کرتا ہے،کیونکہ ایران اور دیگر ممالک سے چین تیل خریدتا ہے۔

چین کی روز بروز تیل کی کھپت بڑھتی جا رہی ہے، مشرق وسطیٰ کا خطہ اس کیلئےبہت اہمیت کا حامل ہے۔جب کہ امریکا جو اس وقت سپر پاور ہے وہ چین کی اقتصادی ، تجارتی اور انفرا اسٹرکچر میں بڑی سرمایہ کاری کے فروغ کو اپنے مفادات کےخلاف تصور کرتا ہے۔ اس لئے امریکا اس خطے میں کشیدگی کو جاری رکھنے کی پالیسی پر گامزن دکھائی دیتا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں امریکا کا سب سے اہم حلیف سعودی عرب ہے جو ایران کو اپنا سب سے بڑا حریف تصور کرتا ہے ،جس میں بنیادی مسئلہ مسلک کا ہے۔ مگر اب سعودی عرب امریکا کی ایران کے حوالے سے جاری پالیسی پر تذبذب کا شکار ہے ،کیونکہ گزشتہ دنوں جب ایران نے ڈر ون حملوں سے سعودی عرب کے تیل کے کنوؤں کو نشانہ بنایا تھا تب صدر ٹرمپ نے سخت بیانات پر اکتفا کیا تھا۔ خطے کی دیگر ریاستیں بھی امریکا پالیسی سے مطمئن نہیں دکھائی دیتی ہیں۔

چین نے روس کی طرح شام میں مداخلت کے بجائے اپنا پہلا غیر ملکی فوجی اڈہ بحیرہ احمر کے قریب جنبوتی کی بندر گاہ میں بنایا ،جہاں چین کےبحری جہاز لنگر انداز ہیں ۔ چین کی خواہش اور ضرورت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے اپنے تعلقات قائم کرے ،کیونکہ چین کو تیل کی ضرورت ہے ،اس کی صنعتی ، تجارتی اورمعاشرتی ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ایسے میں تیل کی زیادہ ضرورت چین کو ہے، کیونکہ امریکا اورروس تیل میں خو د کفیل ہیں ،جب کہ دنیا میں چین تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ چین کو ایران پر پابندیوںکی وجہ سے تیل کی فراہمی میں مشکل پیش آرہی ہے۔ اس حوالے سے سعودی عرب اوردیگر خلیجی ریاستیں چین کے لئےبہت اہم ہیں۔

اب چین کو سعودی عرب اور تیل پیداکرنےوالی خلیجی ریاستوں سے دوستی کرنے اور تجارتی تعلقات قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر چین لین دین کی سفارت کاری اور تعلقات کی پالیسی پر گامزن ہے۔ وہ کسی کی طرف داری یا مخالفت میں الجھنا نہیں چاہتا۔ چین کے پاس بہت سرمایہ ہے وہ مشرق وسطیٰ میں تیل کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے انفرا اسٹرکچر تعمیر پر سرمایہ کاری کے لئے تیار ہے۔

اب یہ ستم ظریفی ہے کہ امریکا ایران جوہری معاہدہ میں چین بھی ایک فریق ہے۔ جس نے معاہدہ پر دستخط کیے ہیں۔ مگر صدر ٹرمپ نے یک طرفہ اعلان کر کے ایران سے معاہدہ توڑ لیا۔ اس کے ساتھ ہی ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں لگا دیں۔ دوسری طرف امریکا نے اپنی قومی دفاعی حکمت عملی کے طور پر چین کو اپنا حریف اول قرار دینے کا اعلان کر دیا۔

چین سمیت دیگر ممالک بھی امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسوں کو سمجھنے سے قاصرہیں کہ یہ شخص کب کس وقت کیا اعلان کرےگا۔ حال ہی میں صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ سے امریکی فوجی واپس بلانے کا عندیہ دیا تھا، مگر اچانک ایرانی جنرل قاسم سلیمانی پر ڈر ون حملہ کر کے ان کی ہلاکت کےبعد جب خطے میں صورت حال مزید بگڑ گئی تو امریکا فوجی واپس بلانے کے اعلان کے باوجود مزید تین ہزار فوجی عراق میں تعینات کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کےساتھ ہی امریکی طیارہ بردار بحری جہاز جس کو چند روز قبل بحرالکاہل میں تعینات کیا گیا تھا اسے واپس خلیج میں بلوا لیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ امریکی کب تک اس خطے میں رہ سکتے ہیں، جب کہ وہا ں صورت حال خراب سے خراب تر ہو رہی ہے۔ ایرانی حکومت پر دبائو ہے کہ جنرل قاسم کا بدلہ لیا جائے۔ ایرانی حکومت بھی امریکا کو دھمکیاں دےرہی ہے۔ جو ہری معاہدہ پر بھی ایران اپنا موقف دے چکا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی سوچ رہے ہیں کہ آخر ہم کب تک امریکا کا بوجھ اٹھاتےرہیں گے۔امریکا یورپی ممالک سے کہہ رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں نیٹو اپنا کردار نبھائے ہم پر بوجھ نہ ڈالے۔ چین سے امریکا تجارتی رعائتیں مانگ رہاہے۔

برطانوی سیاست دان بین ویلس نے دس سال قبل کہا تھا کہ یورپی ممالک کو تیار رہنا چاہیے جب امریکا از خود عالمی رہنمائی سے اپنی دستبرداری کا اعلان کر دے گا۔

اس صورت حال میں عین ممکن ہے کہ چین بھی مشرق وسطیٰ میں اپنے سیاسی، تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کی پالیسی اپنا لے گا کیونکہ تیل کی بڑھتی ضرورت اس کو اس خطے میں قدم رکھنے پر مجبور کر سکتی ہے۔