کیا کیا نہ دیکھا

February 15, 2020

(قتل میں اعانت) پر نمبر ایک، نمبر دو جب تین جج کہہ دیں ’’Not guilty‘‘ (بےقصور) تو شک کا فائدہ استغاثہ کو نہیں، ملزم کو جائے گا۔

مثال نمبر 3صفحہ 643 ’’چار اپریل 1979کو پھانسی ہوئی۔ جنرل چشتی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میں گلگت چلا گیا تھا۔ وہ میری آمد کا انتظار کر رہے تھے۔ میں آنا نہیں چاہتا تھا۔ میں جان بوجھ کے اوائڈ کر رہا تھا کہ یہ سارا میرے اوپر ڈال دیں گے۔ جنرل چشتی کے جانے کی وجہ سے ایک دن پھانسی لیٹ ہو گئی ورنہ وہ تین کو دے رہے تھے۔

س:ان کے اس موقف کے بعد کیا صداقت رہ جاتی ہے، جو آج بھی عام ہے کہ جنرل چشتی نے بھٹو صاحب کو ٹھڈے مارے اور وہ پھانسی لگنے سے پہلے ہی ہلاک ہو گئے تھے۔

ج:نہیں کیونکہ اہم بات یہ ہے کہ جیل کے اندر سارا انتظام جیل والوں کا تھا اور فوج کا تھا۔ پولیس والے بھی جیل کے اندر نہیں تھے لیکن مجھے پتا چل رہا تھا کہ آج یہ ہو گا۔ آج آخری ملاقات ہو گی۔ بھٹو صاحب کو یقین ہو گیا تھا کہ اب انہیں پھانسی لگے گی تو پھر انہوں نے پیپر منگوایا اپنی وصیت لکھنے کے لئے۔ پیپر پر کچھ وصیت لکھی۔ پھاڑ کے پھینک دی۔ وہ جو سپاہی جیل میں کھڑا تھا اُس نے وہ پیپر اٹھا لیا، اس میں کوئی خاص بات نہیں تھی، پھر انہوں نے دوبارہ لکھا بیگم صاحبہ (نصرت بھٹو) اور بے نظیر ان کو مل کے گئی ہیں تو کاریڈور میں انہوں نے رونا شروع کر دیا کہ میری ضیاء الحق سے بات کروا دو۔

س:بیگم نے کہا تھا؟

ج:بیگم نے کہا۔ وہاں کا جو انچارج تھا کمانڈر یا کور کمانڈر جنرل قیصر ۔ انہوں نے کہا اس وقت وہ Busyہیں، اس وقت بات نہیں ہو سکتی۔

س:پھانسی گھاٹ کی طرف وہ خود چل کے گئے ہیں یاا سٹریچر پر؟

ج:بھٹو صاحب نے ایک دو Tranquillizer (سکون آور ادویہ) لئے وہ لے کے انہوں نے کہا۔ پانی لائو۔ شیو کی۔ ان کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ شیو کرکے انہوں نے یہ الفاظ کہے "I dont Want to appear before My God Almighty like a bloody mullah" جب وہ انہیں لے جا رہے تھے اُس وقت وہ اُن کو پکڑنے لگے۔ انہوں نے کہامیں خود جائوں گا اور خود اوپر گئے ہیں۔

س:پھانسی گھاٹ تک چل کے گئے ہیں

ج:ہاں

س:اسٹریچر والی بات یونہی اڑا دی گئی؟

ج:اسٹریچر والی بات۔ انہوں نے Tranqeuillizer لیا ہوا تھا۔ ان کو اٹھایا تو انہوں نے کہا ’’نو، میں خود جائوں گا‘‘ آنکھوں دیکھا حال جیل والے بتا سکتے ہیں!‘‘

منیر احمد منیر کی زندگی کا یہ طویل ترین انٹرویو اس وقت تک آپ کو پوری طرح دھلا اور تھرا نہیں سکتا جب تک آپ خود اس کا مطالعہ نہ کر لیں، جب آپ اس کا مطالعہ کر رہے ہوں گے کہ آپ کے ذہنی اور جسمانی مساموں تک میں جاری کیفیات، ظاہری اور باطنی کے پاس صرف ایک لفظ باقی رہ جائے گا، ’’حیرت‘‘، حیرت جو آنسوئوں کے جزیرے میں تیر رہی ہو گی، آپ کی ذات صرف اپنے آنسوئوں سے مکالمہ کر سکے گی، اس کے سوا بے بسی اُس کا واحد سہارا ہو گا۔

منیر احمد منیرؔ کی زندگی کا یہ طویل ترین انٹرویو، جس کا ریکارڈ اس نے خود ہی توڑا، میں اُس منیرؔ کا تھوڑا سا تعارف کرانا چاہتا ہوں یہ تعارف اس نے کتاب کی ابتدا میں خود ہی لکھا ہے۔ میں اس میں سے صرف چند سطریں پیش کرتا ہوں، مجھے یقین ہے آپ پورے منیرؔ کو جان جائیں گے، پہچان جائیں گے۔لکھتا ہے ’’آغا شورش کاشمیری کے نام، لکھت کا یہ محبت بھرا لگائو باعث ہوا کہ اپنی زندگی کا، اب تک طویل ترین انٹرویو ’’کیا کیا نہ دیکھا‘‘ اپنے دور کے اس جری مدیر، تقریر کے جادوگر، ایک سیانے قلم کار، ایک پُر ہنر اخبار نویس، شخصی صحافت اور بدیہہ گوئی کو تادمِ ایں، آخری بہار، آغا شورش کاشمیری سے منسوب کروں‘‘

اور صرف ایک آخری بات، ویسے تو پوری کتاب ہی کا کوئی صفحہ آپ کے مطالعہ سے خالی نہیں جانا چاہئے لیکن صفحہ 96سے لے کر صفحہ 905 تک اگر خصوصاً مطالعہ کر لیں، آپ کو وطن عزیز کے حسن اور داغ دونوں کے چہرے میں پوشیدہ اُن ظاہری و باطنی جرثوموں کی شناخت ہو جائے گی جنہوں نے اس ملک کا حسن لوٹا اور اس کے حسین چہرے کو داغدار کیا۔ (ختم شد)