نئے پوائنٹس بیسڈ امیگریشن سسٹم کا اعلان، یورپی یونین سے سستی ورک فورس کا خاتمہ اور مجموعی مائیگریشن کم ہوگی، ہوم آفس

February 20, 2020

لندن (ودود مشتاق/پی اے) بریگزٹ کے بعد ہوم آفس نے برطانیہ میں امیگریشن کیلئے نئے پوائنٹس بیسڈ سسٹم کا اعلان کر دیا۔ اس نئے سسم کے اعلان سے ایک اندازے کے مطابق یورپی یونین سے تعلق رکھنے والی 70 فیصد سے زائد ورک فورس سکلڈ ورکر روٹ کی اہلیت پر پورا نہیں اترتی۔ اس نئے سسٹم کا اطلاق یکم جنوری 2021 سے ہوگا اور اس سے دنیا کی ذہین ترین اور باصلاحیت ورک فورس کیلئے برطانیہ کے دروازے کھل جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی یورپی یونین سے لو سکلڈ ورک فورس اور فری موومنٹ کا خاتمہ ہو جائے گا اور برطانیہ کو اپنے بارڈرز پر دوبارہ کنٹرول مل جائے گا، عوام کا اعتماد بحال ہوگا۔ لیبر، لبرل ڈیموکریٹس اور سکاٹش نیشل پارٹی نے اس نئے سسٹم کی مخالفت کی ہے جبکہ کئی اداروں کی تنظیموں نے بھی ریکروٹمنٹ کےحوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ہوم آفس نے اس سلسلے میں بدھ کو ایک بیان جاری کیا۔ ہوم سیکرٹری پریتی پٹیل نے اس سکیم کا باقاعدہ اجرا کیا اور ایک بیان میں کہا کہ اس سکیم کے تحت صرف ان لوگوں کو ہی ویزے جاری کئے جائیں گے جو اپنے مخصوص سکلز، تعلمی قابلیت، تنخواہوں اور پروفیشنز کے مطابق درکار پوائنٹس حاصل کریں گے۔ اس نئی سکیم سے یورپی اور نان یورپی کا فرق ختم ہو جائے گا۔ پریتی پٹیل نے کہا کہ حکومت نے 2016 کے ریفرنڈم اور 2019 کے عام انتخابات کے پیغامات واضح طور پر سنے ہیں۔ اس سسٹم سے ملک میں آنے والی سستی لو سکلڈ لیبر پر انحصار ختم ہو جائے گا۔ سخت سیکورٹی کے نتیجے میں اوورآل مائیگریشن میں بھی کمی آئے گی اور برطانیہ آنے والوں کیلئے خوش گوار اور اچھا تجربہ ہوگا۔ اس سسٹم میں یوررپی اور نان یورپی کے ساتھ مساویانہ برتائو ہوگا۔ ہم یورپی اور نان یورپی سے کسی امتیاز کے بغیر تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کیلئے پر عزم اور مخلص ہیں۔ اس سسٹم میں ان کو ٹاپ ترجیح دی جائےگی جو انتہائی اعلیٰ سکلز رکھتے ہوں گے۔ سائنس دانوں، انجینئرز، اکیڈمکس سمیت انتہائی باصلاحیت افراد بھی ترجیح کے حامل ہوں گے۔ پریتی پٹیل نے کہا کہ گلوبل ٹیلنٹ سکیم یورپی یونین کے شہریوں کیلئے بھی اوپن ہوگی، جس کے تحت انتہائی سکلڈ سائنس دانوں اور ریسرچرز کو کسی جاب آفر کے بغیر برطانیہ میں آنے کی اجازت ہوگی۔ ہوم سیکرٹری نے کہا کہ یہ پورے ملک کیلئے تاریخی لمحہ ہے، ہم فری موومنٹ کا خاتمہ کر کے اپنے بارڈرز کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں واپس لے رہے ہیں اور عوام کی ترجیحات کو ڈلیور کرنے کیلئے نئے پوائنٹس بیسڈ امیگریشن سسٹم کو متعارف کروا رہے ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ اس سسٹم کی وجہ سے دنیا کے انتہائی باصلاحیت افراد برطانیہ کی جانب راغب ہوں گے۔ معیشت اور کمیونٹیز کو فروغ حاصل ہوگا۔ ملک اپنی پوری استعداد کے ساتھ آگے بڑھے گا۔ برطانیہ کی ضروریات کے مطابق ٹیلنٹ کو راغب کرنے کیلئے یہ پوائنٹس سسٹم احتیاط کے ساتھ تیار کیا گیا ہے۔ اس نظام کے تحت سکلڈ ورکرز کو مخصوص سکلز، انگلش بولنے کی صلاحیت، برطانیہ میں جاب کی آفر سمیت متعلقہ معیار پر پورا اترنا ہوگا ۔ تمام درخواست دہندگان کیلئے ضوری ہوگا کہ ان کے پاس جاب آفر ہو اور وہ مائیگریشن ایڈوائزری کونسل میں سفارشات سے مطابقت رکھتی ہو۔ اجرت کی کم سے کم حد 25600 پونڈ مقرر کی جائے گی۔ نیا پوائنٹس بیسڈ سسٹم سکلڈ ورکرز کیلئے سکلز کی حد کو بھی وسعت دے گا۔ برطانیہ میں رہائش اور ملازمت کے خواہاں افراد کو موجودہ نظام کے تحت ڈگری سطح کے بجائے نئے سسٹم میں اے لیول یا اس کے برابر کی اہلیت کی ضرورت ہوگی۔ اس سے زیادہ لچک ملے گی اور اس بات کا یقین ہوگا کہ برطانیہ کے بزنسز میں سکلڈ ورکرز کو بڑے پول تک رسائی ہے۔ ہوم آفس کے بیان میں واضح کیا گیا کہ یہ اقدامات حکومت کے منشور میں کئے گئے وعدے کے مطابق کئے گئے ہیں، جہاں لو سکلڈ ورکرز کیلئے کوئی خاص راستہ نہیں ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق یورپی یونین سے تعلق رکھنے والی موجودہ 70 فیصد ورک فورس سکلڈ ورکر روٹ کی اہلیت پر پورا نہیں اترتی۔ اس سسٹم سے مستقبل میں امیگریشن کی مجموعی تعداد کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اس نئے نظام کا مقصد دنیا کو یہ متعارف کروانا ہے کہ برطانوی سائنس گلوبل ہے۔ نیا پوسٹ سٹڈی ورک اور گلوبل ٹیلنٹ ویزے کی وجہ سے دنیا بھر کے بہترین اور ذہین ترین طالب علموں اور ریسرچرز کو برطانیہ کی جانب راغب کرنے میں مدد ملے گی۔ سٹوڈنٹ ویزا روٹ بھی پوائنٹس بیسڈ ہوگا اور یورپی یونین کے شہریوں کیلئے اوپن ہوگا، جس کے تحت یہ یقینی بنایا جائے گا کہ برطانیہ کی ورلڈ کلاس یونیورسٹیز میں دنیا بھر کے ٹیلنٹ کی رسائی ہو۔ جو افراد برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہاں ہوں گے، ان کے لئے ضروری ہوگا کہ ان کے پاس منظور شدہ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن کی آفر ہو تاکہ وہ مالی طور پر خود کو سپورٹ کر سکیں اور وہ انگلش بولنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ علاوہ ازیں مخصوص زرعی شعبے کی عارضی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے 2020 کاشت کاری کے سیزنل ورکرز پائلٹ کی تعداد میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے اور اس کی تعداد 2500 سے بڑھا کر 10000 اسامیاں کر دی گئی ہیں۔ چھ ماہ کیلئے برطانیہ کا وزٹ کرنے والے یورپی یونین اور دیگر نان ویزا نیشنلز کیلئے برطانیہ میں داخلے کیلئے ویزا کی ضرورت نہیں ہوگی، تاہم برطانیہ کے سفر کیلئے قومی شناختی کارڈ کے استعمال کو مرحلہ وار ختم کردیا جائے گا اور ہوم آفس مقررہ وقت پر منصوبے مرتب کرے گا۔ 31 دسمبر 2020 تک برطانیہ میں مقیم یورپی یونین کے شہری جون 2021 تک یورپی یونین سیٹلمنٹ سکیم کے ذریعے برطانیہ میں آباد ہونے کیلئے درخواست دے سکتے ہیں۔ نئے پوائنٹس بیسڈ سسٹم کے تحت حکومت نے آجروں پر زور دیا ہے کہ وہ یورپی یونین سے سستی لیبر پر انحصار ختم کریں اور آٹو میشن ٹیکنالوجی کی تیاری اور سٹاف کی تربیت پر سرمایہ کاری کریں۔ ہوم آفس نے کہا کہ 31 دسمبر کو فری موومنٹ کے خاتمے کے بعد برطانیہ آنے والے یورپی یونین اور غیر یورپی شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے گا۔ اپوزیشن لیبر پارٹی کا کہنا ہے کہ جارحانہ ماحول ورکرز کو ملک میں راغب کرنے کو مشکل بنا دے گا لیکن ہوم سیکرٹری پریتی پٹیل نے بی بی سی کے پروگرام بریک فاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت درست اور اچھی صلاحیتیں رکھنے والے افراد کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہے اور برطانیہ آنے والے لو سکلڈ ورکرز کی تعداد میں کمی لانا چاہتی ہے۔ پریتی پٹیل نے کہا کہ بزنسز برطانیہ میں معاشی طور پر غیر متحرک 8 ملین ورکرز میں سے بھرتیاں کر سکیں گے لیکن سکاٹش نیشنل پارٹی (ایس این پی) نے حکومت کے اس استدلال کو مضحکہ خیز یا خطرناک آئیڈیا قرار دیا ہے، کیونکہ اس گروپ میں بہت سے لوگ خراب صحت یا انجریز کے شکار ہیں۔ نئے پوائنٹس بیسڈ سسٹم کے تحت سکلڈ ورکرز کی تعریف کو وسعت دی جائے گی اور اس میں تعلیم یافتہ افراد کو صرف ایک گریجویٹ سطح نہیں بلکہ اے لیول/سکاٹش ہائر ایکویلنٹ سٹینڈرڈ کے مساوی کیا جائے گا۔ نئی سکلڈ کیٹیگری سے ویٹنگ ٹیبلز اور ایگریکلچر ورکرز کی مختلف اقسام کو ریموو کر دیا جائے گا۔ تاہم اس میں نئی کیٹیگری کارپینٹری، پلاسٹرنگ اور چائلڈ مائنڈنگ کو شامل کیا جائے گا۔ یہ نیا سسٹم کنزرویٹو پارٹی کے انتخابی منشور میں وعدہ کے مطابق ہے۔ اس کے نئے امیگریشن سسٹم کے مطابق غیر برطانوی سکلڈ ورکرز کو برطانیہ میں کام کرنے کے سلسلے میں ویزے کیلئے 70 پوائنٹس حاصل کرنا ہوں گے۔ انگلش بولنے کی صلاحیت کے ساتھ مصدقہ سپانسر کے ساتھ سکلڈ جاب آفر ہونی چاہئے۔ اس سے درخواست گزار کو 50 پوائنٹس ملیں گے۔ مزید پوائنٹس کوالیفکیشن تنخواہ کی آفر اور قلت کے شکار سیکٹر میں کام کی بنیاد پر ملیں گے۔ برطانیہ آنے کے خواہاں سکلڈ ورکرز کیلئے تنخواہ کی 30000 پونڈ سے کم کر کے 25600 پونڈ کر دی گئی ہے تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ سٹاف کی کمی کے شکار مخصوص سیکٹرز میں کام کرنے والوں کیلئے تنخواہ کی حد کم کر کے 20480 پونڈ کر دی جائے گی، جن میں فی الوقت نرسنگ، سول انجینئرنگ، سائیکالوجی اور کلاسیکل بیلے ڈانسنگ یا پی ایچ ڈی سے متعلق مخصوص جابس شامل ہیں۔ تاہم اب برطانیہ آنے والے سکلڈ ورکر کی تعداد پر کوئی کیپ نہیں ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ لو سکلڈ یا کم تنحواہ والے ورکرز کیلئے کوئی روٹ متعارف نہیں کروائے گی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ 3.2ملین یورپی شہریوں نے برطانیہ میں قیام کیلئے اپلائی کیا ہے، ان میں سے لیبر کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ تاہم فارمنگ، کیٹرنگ اور نرسنگ کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ نئے سسٹم کے تحت سٹاف کی ریکروٹمنٹ مشکل ہو جائے گی۔ رائل کالج آف نرسنگ نے کہا کہ یہ تجاویز آبادی کی ہیلتھ اینڈ کیئر ضروریات کو پورا نہیں کر سکیں گی۔ نیشنل فارمرز یونین کے صدر مینٹی بیٹرز نے نئے منصوبے میں برٹش فوڈ اینڈ فارمنگ ضروریات کو تسلیم کرنے میں ناکامی پر تشویش کا اظہار کیا۔ فوڈ اینڈ ڈرنک فیڈریشن نے بیکرز، میٹ پروسیسرز، چیز اینڈ پاستہ بنانے والے ورکرز کے حوالے سے تشویش ظاہر کی جو کہ نئے سسٹم کی کوالی فکیشن پر پورے نہیں اترتے۔ دوسری جانب حکومت نے زراعت کے شعبے میں سیزنل ورکرز کی تعداد کو چار گنا کرنے کے ساتھ یوتھ موبیلٹی ارینجمنٹس کا بھی اشارہ دیا ہے، جس کے تحت 20000 نوجوانوں کو ہر سال برطانیہ آنے کی اجازت ہوگی۔ لیبر شیڈو ہوم سیکرٹری ڈیان ایبٹ نے کہا کہ حکومت نے اس کا ادراک ہی نہیں کیا کہ ان کی اس نئی پالیسی کے معیشت پر کیا مجموعی اثرات مرتب ہوں گے اور یہ کہ اس کے ذریعے برطانیہ میں پہلے سے مقیم اور کام کرنے والے مائیگرنٹس کو کیا پیخام دیا گیا ہے۔ لبرل ڈیموکریٹس ہوم افیئرز ترجمان کرسٹین جارڈین نے کہا کہ حکومت کی یہ تجاویز زینوفوبیا کی بنیاد پر ہیں۔ سکاٹش فرسٹ سیکرٹری اور ایس این پی لیڈر نکولا سٹرجن نے کہا کہ حکومت کا یہ پلان سکاٹش معیشت کیلئے تباہ کن ہوگا۔