کھانے کا ضیاع اور ماحولیاتی تبدیلی

March 01, 2020

آپ کو یہ جان کر انتہائی حیرانی ہوگی کہ ہم جو کھانا روزانہ پھینک دیتے ہیں، اس سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسز کئی ملکوں کے مجموعی کاربن اخراج سے زیادہ ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیارے میں غذائی اجناس کی پیداوار کا ایک تہائی حصہ کبھی بھی کھانے کی میز تک نہیں پہنچ پاتا۔ ان میں پھل، سبزیاں، گوشت، ڈیری مصنوعات، سمندری خوراک، اناج وغیرہ شامل ہیں۔

وہ یا تو کھیتوں سے باہر ہی نہیں آپاتیں یا آمدورفت کے مختلف مراحل طے کرنے کے دوران گل سڑ جاتی ہیں، یا پھر ہوٹلوں، ریستورانوں، گراسری اسٹوروں، اسکولوں اور گھروں کے باورچی خانوں میں لانے کے بعد پھینک دی جاتی ہیں اور انھیں کبھی استعمال ہی نہیں کیا جاتا۔ مزید برآں، اس میں ایسے پکے ہوئے کھانوں کا بھی بڑا حصہ ہے، جو اضافی ہونے کی وجہ سے پھینکنا پڑتا ہے۔

ضائع ہونے والی تمام غذائی اشیا کے وزن کا اندازہ 1.3ارب ٹن سالانہ لگایا گیا ہے جبکہ اس کی خوردہ قیمت ایک ٹریلین ڈالر تک جاپہنچتی ہے۔ اگر ضائع ہونے والی تمام غذائی اجناس اور خوراک کو انسان کے استعمال میں لایا جائے تو دنیا میںایک شخص بھی بھوکا نہ سوئے ( اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ روزانہ تقریباً 80کروڑ 50لاکھ افراد بھوکے پیٹ سونے پر مجبور ہوتے ہیں) اور کوئی بچہ غذائی قلت کا شکار نہ ہو۔

جیسا کہ ابتدا میں ذکر کیا گیا کہ ضائع ہونے والا کھانا صرف سماجی یا انسانی مسئلہ نہیںہے، یہ ایک سنگین ماحولیاتی مسئلہ بھی ہے۔ ہم صرف کھانا ہی ضائع نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ ہم اس کے اُگانے، کاٹنے، منڈی تک لانے اور پیکیجنگ پر خرچ ہونے والی تمام توانائی اور پانی کو بھی ضائع کردیتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹکے مطابق، ضائع ہونے والا یہ پانی یورپ کے سب سے بڑے دریا ’’وولگا‘‘ کے سالانہ پانی کے بہاؤ کے مساوی ہے، جبکہ اس پر صرف ہونے والی توانائی 3.3ارب میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتی ہے۔

مزید برآں، جب یہ کھانا بدقسمتی سے کوڑے دانوں میں پہنچنے کے بعد گلنا اور سڑنا شروع ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں میتھین گیس پیدا ہوتی ہے، جو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے زیادہ خطرناک ہے۔ اگر ہم کھانے کا ضیاع روک دیںتو ’فوڈ سسٹم‘ سے پیدا ہونے والی تقریباً 11فیصد گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو روکا یا بڑی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ صرف امریکا میں، ضائع شدہ کھانوں سے 3کروڑ 70لاکھ کاروں کے مساوی گرین ہاؤس گیس خارج ہوتی ہے۔ اگر ضائع ہونے والا کھاناکوئی ’ملک‘ ہوتا تو امریکا اور چین کے بعد وہ گرین ہاؤس گیسز خارج کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہوتا۔

دنیا کی آبادی میں جیسے جیسے اضافہ ہورہا ہے، ہمارا چیلنج یا توجہ غذا کی پیداوار میں اضافہ کرنے کے بجائے پہلے سے دستیاب غذا کے ضیاع کو کم کرتے ہوئے اس کی زیادہ سے زیادہ افراد تک فراہمی ہونا چاہیے۔ جلد خراب ہونے والی غذائی اشیا کو کھیت سے منڈی تک پہنچانے کے عمل کے دوران انہیں خرابی سے بچانے کے لیے اسٹوریج اور ٹرانسپورٹ میں ٹھنڈا رکھنے کی سہولت فراہم کرکے اس ضیاع کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ مزید برآں، ہم بطور صارف ایسے کئی اقدام لے سکتے ہیں، جن سے قابلِ ذکر فرق پڑسکتا ہے مثلاً، بچا ہوا کھانا ضرورت مند افراد تک پہنچانے سے لے کر کھانے کو فریز کرنا، خریداری کرتے وقت محتاط رہنا اور گل سڑ جانے والے کھانے کو کوڑے دان میںپھینکنے کے بجائے اسے کھاد کے طور پر استعمال کرناوغیرہ۔

پیشگی منصوبہ بندی کریں اور ضرورت کی چیزیں خریدیں: کسی پیشگی منصوبہ بندی کے بغیر یا بھوک کی حالت میں کسی سپر اسٹور کا رُخ کرنے سے آپ یقینی طور پر ضرورت سے زیادہ چیزیں ہی خریدیں گے۔ اس کے علاوہ، ہفتہ وار اشیا کی خریداری کرتے وقت اس بات کو بھی ذہن نشین رکھا کریں کہ اس ہفتے کے دوران کسی دن آپ نے گھر سے باہر تو کھانا کھانے نہیں جانا۔

فریزر استعمال کریں: ہرچندکہ تازہ کھانے کے بے شمار فوائد ہیں، تاہم فروزن غذائیںبھی غذائیت سے بھرپور ہوتی ہیں۔ فروزن غذائیں عمومی سے زائد عرصے تک کھانے کے قابل رہتی ہیں۔ مچھلی اور دیگر سمندری غذائیں، سپرمارکیٹ تک پہنچانے سے پہلے برف میں جماکر رکھی جاتی ہیں۔

بچ جانے والی غذاؤں کا استعمال: اگر آپ اخبارات اور جرائد کے ریسیپی صفحات پر جائیںگے تو وہاں متعدد ایسی ریسیپیز مل جائیں گی، جن پر عمل کرتے ہوئے بچ جانے والی غذاؤں سے مزیدار کھانے بنائے جاسکتے ہیں۔

آگاہی ضروری ہے: کھانوں کو ضائع ہونے سے محفوظ رکھنا ہی سیارہ زمین پر اس کے منفی اثرات کو کم سے کم رکھنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔اگر ہم ایسی غذاؤں کی پیداوار ترک کر دیں جو ہمارے استعمال میں نہیں آتیں تو ہم اس کی پیداوار میںاستعمال ہونے والی زمین، پانی اور توانائی کو بچا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں عوام میں آگہی پید اکرنا ایک اچھا اقدام ہوسکتا ہے۔