ترکی اور یونان کی سرحدی کشیدگی

March 11, 2020

ترکی اور یونان کے مابین شامی پناہ گزینوں کے مسئلے پر ایک بار پھر شدید کشیدگی بڑھ رہی ہے خدشہ ہے کہ اگر معاملات کو سنبھالا نہ گیا تو دونوں پرانے حلیف آپس میں لڑ پڑیں گے۔ شام کی شمالی سرحد کے قریب واقع شہر ادلیب میں سرکاری فوجوں اور باغیوں کے بیچ گھمسان کا رن پڑا ہے جبکہ ترکی اس لڑائی میں پوری طرح ملوث ہے۔ ادلیب کے اطراف کے بڑے علاقے پر شامی کردوں کے گائوں اور قصبات ہیں جو صدر بشارالاسد کی حمایت کررہے اور باغیوں سے لڑ رہے ہیں ،کیونکہ چند ماہ قبل امریکا نے شامی کردوں کو ہتھیار فراہم کئے تھے کہ داعش سے جنگ کریں۔ کردوں نے اس علاقے میں داعش کے دہشت پسندوں کو خاصا نقصان پہنچایا دوسری طرف سے شام کی سرکاری فوج بھی داعش کا مقابلہ کر رہی تھی ؟؟ میں داعش نے یہ علاقہ خالی کرلیا، مگر شام کے صدر اسد کردوں پر بھروسہ نہیں کرسکتے انہوں نے اپنی فوجوں کو آگے بڑھایا کہ وہ علاقہ خالی کرنے لگے ،تب ترکی نے اچانک امریکی فوجیوں اور داعش کے خالی کردہ علاقوں میں اپنی فوج روانہ کردی، جو ادلیب پر قبضہ کے لئے آگے بڑھنے لگی ۔

ترکوں کے ساتھ کچھ شامی مخالف دھڑے بھی شریک تھے جو شامی فوجیوں کو ادلیب پر قبضہ کرنے سے روکنا چاہتے تھے۔ اس طرح جنگ و جدل میں روسی طیاروں نے بمباری شروع کردی تاکہ شامی باغی علاقہ خالی کردیں۔ اس بمباری اور جنگ کے نتیجے میں ادلیب شہر کو خاصا نقصان ہوا ۔ہزاروں شامی خاندان بے گھر ہوگئے اور پناہ لینے کے لئے ترکی کی سرحد کے قریب پہنچ گئے۔ اس طرح پھر ایک بار پناہ گزینوں کے ریلے ترکی اور یونان کی طرف جاکر جمع ہونے لگے جس پر ترکی کے صدر طیب اردگان نے دھمکی دی کہ پہلے ہی ترکی نے بیس لاکھ پناہ گزینوں کو کیمپوں میں پناہ دے رکھی ہے اب مزید آرہے ہیں ۔ایسے میں سرحد کھول دیں گے اور پناہ گزینوں کو یونان میں دھکیل دیں گے۔

ترکی کے صدر طیب اردگان نے یورپی یونین کو 2016کا معاہدہ یاد دلایا جس میں یورپی یونین نے ترکی سے درخواست کی تھی کہ پناہ گزینوں کو ترکی کی سرحد پر روکا جائے ،انہیں کیمپوں میں رکھا جائے ،اس کے لئے یونین ترکی کو امداد فراہم کرے گی ،مگر صدر طیب اردگان کہتے ہیں کہ ترکی نے اپنا وعدہ نبھایا اور بیس لاکھ سے زائد پناہ گزیں اس کی سرحد کے ساتھ کیمپوں میں رہ رہے ہیں مگر یورپی یونین نے جس امداد کا وعدہ کیا تھا وہ بہت کم ملی ،ترکی کو زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑا اور اب پھر وہی صورت حال ہے۔ اس حوالے سے ترکی نے شام کے شمال مشرقی علاقے میں اپنے فوجی اور بھاری اسلحہ روانہ کردیاتاکہ شام کے اندر سرحد کے ساتھ ساتھ بیس مربع میل کے علاقے پر قبضہ کرکے وہاں شامی پناہ گزینوں کو بسایا جائے ،مگر آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ محض ترکی کا بیانیہ ہے، اصل میں وہ فوجی یلغار کے ذریعے شامی کردوں کو ان کے علاقے سے دور کردینا چاہتا ہے کیونکہ وہ اس وقت ہتھیار بند ہیں اور خدشہ ہے کہ شامی کرد ترکی میں موجود کردوں کی مدد نہ کرسکیں گے جو پہلے ہی سے ترکی سے آزاد ہونے کی جدوجہد کررہے ہیں۔

حال ہی میں ترکی صدر روس کے صدر کی آپس میں بات چیت ہوئی ہے اور ادلیب میں کچھ عرصے کے لئے فائر بندی کا اعلان بھی کیا گیا ہے جس پر عمل ہورہا ہے،مگر جو ہزاروں پناہ گزیں ترکی کی سرحد پر جمع ہوچکے ہیں وہ ترکی کے لئے نیا درد سر ہیں۔ ترکی ایک عرصے سے شام میں جاری خانہ جنگی اور اس کے نتیجے میں ترکی آنے والے پناہ گزینوں سے پریشان ہے۔ یونان یوگوسلاویہ ہنگری اور دیگر یورپی ممالک بھی پریشان ہیں۔