توکل کی حقیقت اور اُس کے تقاضے

March 13, 2020

اسلام میں تلاشِ روزگار اور کسبِ حلال کے لیے محنت کی عظمت مُسلّم ہے۔ہمارے معاشرے میں عموماً محنت اور توکل کے فرق کو نہیں سمجھا جاتا،اسے سمجھناضروری ہے۔شریعت اسلامی میںتوکل کے بارے میں جو تعلیمات ملتی ہیں،ان کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا دارالاسباب ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر کام کے ذرائع اور اسباب اس دنیا میں عام فرما رکھے ہیں۔ ان ذرائع واسباب میں مختلف تاثیرات رکھی ہیں اور اپنے کام کو انجام دینے کے لیے ان اسباب کو اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے، لیکن ان تاثیرات کے ظاہر ہونے یا نہ ہونے کو اپنے حکم سے وابستہ فرما رکھا ہے، گویا کہ اسباب اختیار کر نے کے حکم کو پورا کرنے کے باوجود مطلوبہ نتائج کا حاصل ہونایا نہ ہونا اللہ تعالیٰ کے حکم پر موقوف ہے جس میں تین باتوں میں سے کوئی ایک بات ہو سکتی ہے: ٭…ہو سکتا ہے مطلوبہ نتائج ہی حاصل ہوں۔٭…ہو سکتا ہے مطلوبہ نتائج کی بجائے اس کا الٹ ظاہر ہو جائے۔٭…ہو سکتا ہے کوئی بھی نتیجہ نہ نکلے۔

لہٰذا بندے کو اسباب اختیار کرنے کا حکم پورا کرنا چاہیے، لیکن نتائج کے لیے اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسا رکھنا چاہیے، یعنی نتائج اللہ تعالیٰ ہی کے حوالے کر دینے چاہییں۔جو انسان اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے،توحید کا قائل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت پر اسے کامل یقین ہوتا ہے، وہی شخص توکل کے اعلیٰ مقامات حاصل کر سکتاہے توکل کے ثمرات وفوائد بے شمار ہیں جن میں سے چند یہاں ذکر کیے جاتے ہیں:

٭…اللہ تعالیٰ کی محبوبیت۔٭…درجات کا بلند ہونا۔٭…گناہوں کا معاف ہونا۔٭…عزت کی روزی کا وعدہ۔٭…توکل کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ کا کافی ہونا۔٭…ہر تنگی سے بہ آسانی نکل جانا ۔٭…بے گمان روزی کا ملنا۔٭…توکل کرنے والے کے تمام کاموں میں آسانیوں کا پیدا ہوتے رہنا۔

توکل اختیار کرنے کا حکم قرآن مقدس میں ایمان والوں کو متعدد مقامات پر مختلف انداز سے دیا گیا ہے۔چناںچہ کہیں ارشاد فرمایا: ’’آپ اللہ ہی پر توکل کیجیے ،وہ کارساز ہونے کے لیے کافی ہے۔‘‘ کہیں ارشاد فرمایا:’’اور مومنوں کو صرف اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔‘‘ کہیں ارشاد فرمایا:’’اور اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسا کیجیے۔‘‘ کہیں ارشاد فرمایا:’’اور زبردست مہربان پر بھروسا کیجیے۔‘‘ کہیں ارشاد فرمایا:’’اوراس پاک ذات پر بھروسا کیجیے جو زندہ ہے،اسے کبھی موت نہیں آئے گی‘‘۔

نبی اکرم ﷺ نے بھی اپنے ارشاداتِ مبارکہ کے ذریعے بھرپور پیار بھرے انداز میں اپنی امت کو توکل اختیار کرنے کی ترغیب فرمائی ہے۔ چناںچہ ارشاد نبویؐ ہے ، اگر تم لوگ اللہ تعالیٰ پر ایسا توکل کرو، جیسا توکل کرنا چاہیے تو اللہ تعالیٰ تمہیں ایسے روزی دے گا، جیسے پرندوں کو روزی دیتا ہے کہ وہ صبح بھوکے پیٹ جاتے ہیں اور شام کو بھرے پیٹ واپس ہوتے ہیں۔

ایک حدیث میں ارشاد ہے: جو تھوڑے پر راضی ہو جائے اور قناعت اختیار کر لے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرے ،وہ کمانے کی محنت سے بے فکر ہو جاتا ہے۔ ایک حدیث میں ارشاد نبویؐ ہے کہ جو شخص یہ چاہے کہ سب سے زیادہ قوی (طاقت ور) ہو، وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے جو اللہ جلّ شانہ کی طرف پوری طرح متوجہ ہوجائے تو حق تعالیٰ شانہ اس کی ہر ضرورت کو پورا فرماتا ہےاور اس طرح روزی پہنچاتا ہے کہ جس کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ مجھ پر توکل کرو،میں تمہاری ضروریات کا کفیل بنوںگا۔ایک حدیثِ قدسی میں ہے کہ جب بندہ مجھ پر بھروسا کر لیتا ہے تو اگر آسمان وزمین سب کے سب مل کر اس کے ساتھ مکر کریں تو میں اس کے لیے راستہ نکال دوں گا۔

قرآن وحدیث کی توکل کے بارے میں ان تعلیمات کی روشنی میں اور انسانوں کے مزاج کے اختلاف کے تناظر میں علما نے امت کی رہنمائی فرمائی ہے، چناںچہ اس رہنمائی کے نتیجے میں توکل کے مختلف درجات ہیں۔

٭…ظاہری اسباب کا اختیار کرنا جسے تدبیر کہتے ہیں توکل کے خلاف نہیں ہے لیکن تدبیر پر اعتماد نہ ہو، بلکہ اعتماد اللہ تعالیٰ ہی پر ہونا چاہیے۔

٭…جس شخص کا یقین ایسا مضبوط ہو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے ہر قسم کے حالات کو برضا ورغبت ادنیٰ سی پریشانی کے بغیر برداشت کرلے اور استقامت میں فرق نہ آئے وہ ظاہری اسباب کو ترک کر سکتا ہے۔

٭…کھانا پینا بالکل چھوڑ دینا یا زہر اور ہلاکت کی تاثیر رکھنے والی کسی چیز کا استعمال کر لینایا اونچائی سے کود پڑنا توکل نہیں، ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے۔

توکل کے درجات:علمائے کرام نے توکل کے مندرجہ ذیل درجات بیان کیے ہیں:

٭…اپنے اختیار کے مطابق تدبیر اختیار کی جائے، لیکن بھروسا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر رکھا جائے۔ اس قسم کا توکل ہر مسلمان پر واجب ہے۔

٭…ایسا توکل اختیار کرنا جس میں تدبیر کو بالکل ہی چھوڑ دیا جائے۔ اس کی دوصورتیں ہیں۔(i) ایک یہ کہ اگر اس تدبیر کا تعلق دین کے امور سے ہے، مثلاً جہاد کے لیے جسمانی تیاری اور اسلحہ، بارود اور ہتھیار کا انتظام کرنا ‘ تو ایسی تدبیر کا ترک کرنا غلط ہے ۔ (ii)اگر وہ دنیاوی تدبیر ہے، اس کی بھی دو صورتیں ہیں: ٭وہ ایسی تدبیر ہے جس کا اثر اورفائدہ ظاہر ہے اور اسے اختیار نہ کرنے کی صورت میں نقصان کا یقین ہے تو اسے چھوڑنا جائز نہیں، مثلاً سردی کے نقصانات سے بچنے کے لیے گرم کپڑے اور لحاف وغیرہ استعمال کرنا۔٭ اگر اس تدبیر کے نتیجے میں فائدے اور اسے چھوڑنے کی صورت میں نقصان کایقین نہ ہو،بلکہ ذہن دونوں طرف جاتا ہو تو ذہن کے زیادہ رجحان کو دیکھا جائے گا، یعنی اگر اس بات کا گمان غالب ہے کہ تدبیر کو اختیار کرنے سے فائدہ ہو گا، مثلاً بیماری کو دور کرنے اوراس کا علاج کرنے کے سلسلے میں دوا کا استعمال وغیرہ توعلمائے کرام نے اس صورت میں اس بات کی گنجائش رکھی ہے کہ جس شخص کا اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل بھروسا ہو، وہ تدبیر کو ترک کرسکتا ہے تاہم عام لوگوں کے لیے تدبیر کو اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔