ضلعی کونسلر کا قتل

March 22, 2020

ضلع گھوٹکی کو ایک مرتبہ پھر امن و امان کا مسئلہ درپیش ہے۔چند روز قبل ضلع کونسل کے رکن ممتاز چھجن کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا، جس کے بعد علاقے میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ صوبائی دارالحکومت کراچی سے 500 کلو میٹر دور سندھ ،پنجاب کے سنگم پرواقع ضلع گھوٹکی پانچ تحصیلوں پر مشتمل ضلع ہےجس کی آبادی 17 لاکھ نفوس سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ یہ ضلع زرعی اور صنعتی اعتبار سے ملک کے لیےانتہائی پرکشش ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی کے بعد سب سے زیادہ یونیودینے والا ضلع گھوٹکی ہے۔ اس کا ضلعی ہیڈ کوارٹر میرپورماتھیلو ہے اسی لئے اسے ضلع گھوٹکی ایٹ میرپورماتھیلو کہاجاتا ہے۔ اس کی سرحدیںپنجاب اوربلوچستان کے صوبوں سے ملتی ہیں لی۔ جس کی وجہ سے اس کا شمار انتہائی حساس ضلع میں ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچے اور ریگستان کا وسیع وعریض علاقہ قریب ہونے کی وجہ سے یہاں امن و امان کی صورتحال ہمیشہ دگرگوں رہتی ہے۔ سابقہ حکومتوں کی کوششوں، نیشنل ایکشن پلان اور فوج و رینجرز کی قربانیوں کی وجہ سے یہاں امن و امان کی فضا بحال ہوگئی تھی اور لوگ امن و شانتی کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ لیکن کچھ عرصے سے اسے دوبارہ بدامنی اور لاقانونیت کا سامنا ہے۔

قاتلوں کی گرفتاری کی بجائے مقتول کے ورثاء کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ

گزشتہ دنوں میرپورماتھیلو میں عید گاہ روڈ پر دن دیہاڑے بیچ بازار اپنی دوکان پر بیٹھے ضلع کونسل کے ممبر ممتاز چھجن پر تین مسلح موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے شدید زخمی کردیا جنہیں ڈی ایچ کیواسپتال میرپورماتھیلو لے جایا گیا جہاں وہ. زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسے۔پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق مقتول کو چھ سے سات گولیاں لگیں۔ممتاز چھجن سیاسی طور پرمہر گروپ سے وابستہ تھے۔ . واقعہ کے بعد ورثا اور چھجن برادری کی جانب سے ایس ایس پی آفس کے سامنے قومی شاہراہ پر دھرنا دیا گیا۔ . ورثاء کا کہنا تھا کہ دن دھاڑے شہر میں کونسلر کا قتل پولیس کی نااہلی کا ثبوت ہے، قاتل واردات کے بعد با آسانی فرار ہوگئے.۔ دوسری جانب ڈی ایس پی میرپور ماتھیلو لیاقت عباسی کا کہنا تھا کہ واقعہ کے بعد ضلع بھر کی ناکہ بندی کردی گئی ہے اور بہت جلد قاتلوں کو گرفتار کرلیا جائےگا۔

چھجن برادری کے دھرنے کی وجہ سےسندھ اور پنجاب جانے والی ٹریفک معطل ہوگئی اورگاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں۔ اس موقع پر دھرنے کے شرکاء ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کرتے رہے ۔کئی گھنٹے جاری رہنے والے احتجاج کے دوران جی ڈی اے کے رہنما سردار علی گوہر مہر کے فرزند حاجی خان مہر وہاں پہنچے اور مظاہرین سے اظہارہمدردی ،یکجہتی اور قاتلوں کی گرفتاری اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانےکے عزم کا اعادہ کیا۔ اگلے روز مقتول کی تجیہز و تکفین کی گئی جس میں معززین سمیت لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ چھجن برادری کی جانب سے مظاہرہ ، برادری کے افراد کے لیے مہنگا پڑگیا ۔ میرپورماتھیلو تھانے پر مقتول کے ورثاء کے خلاف پردہشت گردی کا مقدمہ درج کرلیا گیا جس میں دو سؤ سے زائدافراد کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔ پولیس ترجمان کا کہنا تھا کہ قانون ہاتھ میں لینے اور قومی شاہراہ کوبلاک کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کےاحکامات اعلی حکام نے دیئے تھے۔

چیئرمین ضلع کونسل حاجی خان مہر نے مقتول کے ورثاء کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قتل کے واقعے کے بعد پولیس غائب ہوگئی تھی ۔پولیس کے روئیے کےخلاف ورثاء کا احتجاج فطری عمل تھا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس مبینہ طور پر ملزمان کی گرفتاری میں سستی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔دوسری جانب پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ مقتول کے قتل کا مقدمہ پانچ افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے جن میں سے تین نامزد اور دو نامعلوم ملزمان شامل ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کا یہ واقعہ پرانی دشمنی کا شاخسانہ ہے۔ مقتول چھجن پر کچھ عرصے قبل شر قبیلے کے ایک شخص کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ضلع کونسل کے ممبرکے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے پولیس کی بھاری نفری نے کچے کے علاقے میں چھاپے مارے ہیں تاہم مطلوبہ ملزمان ابھی تک گرفتار نہیں ہوسکے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری کے لئےہر ممکن کوشش جاری ہے اور جلد ہی ان کی گرفتاری میں کامیاب ہوں گے۔