ایرانی ادیب ’’ھوشنگ مرادی کرمانی‘‘

March 25, 2020

ایران کے عصری ادبی منظرنامے میں ’’ھوشنگ مرادی کرمانی‘‘ کا نام بہت نمایاں اور مقبول ہے، ان کی شہرت نہ صرف ایران بلکہ عالمی سطح پر بھی ہے۔ وہ بیک وقت ایرانی ادب، ڈراما نگاری اور فلم نویسی کے شعبے میں سند سمجھے جاتے ہیں۔ بچوں کے ادب کے لیے ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے اور یہی ان کا سب سے مرکزی اور بنیادی حوالہ بھی ہے۔ وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے قلم کی روشنی سے ایرانی قارئین کے ذہنوں کو منور کر رہے ہیں، جن میں اکثریت اطفال کی ہے، جنہیں اپنے تصور کے سارے کردار اور یقین کی منزل ان کی لکھی ہوئی کہانیوں میں ملتی محسوس ہوتی ہے۔ان کی تخلیقی خدمات کااعتراف کرتے ہوئے 2017 میں کیمرج یونیورسٹی، برطانیہ نے انہیں’’لائف اچیومنٹ ایوارڈ‘‘ سے نوازا، ’’ھوشنگ مرادی کرمانی‘‘ ایران کے صوبہ کرمان کے ایک چھوٹے سے گائوں میں 7 ستمبر 1944 کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے دیہی علاقے سے حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم تہران کی جامعہ سے حاصل کی۔

ابتدائی زندگی میں ان کوبہت ساری مشکلات جھیلناپڑیں۔ بچپن میں ماں سے بچھڑنے کا غم سہنا پڑا، والد ذہنی عارضے میں مبتلا تھے، جس کی وجہ سے کمسنی میں ہی حالات نے ان کو جلدی باشعور اور حساس بنا دیا۔ جن دنوں میں بے فکری بچوں کی میراث ہوتی ہے، یہ ان دنوں کی گھٹن دل میں لیے پروان چڑھے، شاید یہی وجہ ہے، جب ان کوتخلیقی اظہار کا راستہ ملا، تو انہوں نے اپنی تخلیقی منزل’’بچوں کے ادب‘‘ کو بنایا۔ ایسے بچوں کے لیے کہانیاں لکھیں، جنہیں والدین کے علاوہ فکری تربیت ، رہنمائی اور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، اپنی زندگی کے خلا سے دوسرے بچوں کے زندگیوں کی کمی کو پورا کیا، کیونکہ یہی کہانیاں اور کردار تھے، جنہوں نے بچپن کی مشکل زندگی میں ان کوراحت مہیا کی، اب کئی دہائیوں سے وہ یہ ذہنی آسودگی اپنی قوم کے بچوں میں تقسیم کر رہے ہیں۔

’’ھوشنگ مرادی کرمانی‘‘ کی کہانیوں کے متعدد مجموعے اور ناول شائع ہوچکے ہیں۔ ان کی شائع ہونے والی کہانیوں کی کتب میںقصّہ ہائے مجید، چکمہ، نخل، داستان آن خمرہ، تنور، کوزہ ہیں۔ خودنوشت کا عنوان’’شماکہ غریبہ نیستید‘‘ہے جبکہ ان کے تین ناول مھمان مامان، مشت برپوست اور مربائے شیریں ہیں، جن پر فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ ان کی تمام کتابیں فارسی زبان میں لکھی گئی ہیں، جن کے تراجم دنیا کی کئی بڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں، ان میں انگریزی ، جرمن، فرانسیسی، ہسپانوی، ڈچ، آرمینائن ، اطالوی اور عربی سمیت دیگر زبانیں شامل ہیں۔ انگریزی میں معروف امریکی مترجم’’کرولین کروسکری‘‘ نے ان کی خودنوشت سمیت متعدد تخلیقی کہانیوں کے مجموعوں سمیت ایک ناول کو فارسی سے انگریزی میں براہ راست ترجمہ کیا ہے۔

ایران کے ٹیلی وژن پر ان کی کہانیوں پر مبنی ڈراما سیریز’’قصّہ ہائے مجید‘‘ بہت مشہور ہوئی، چاہے کوئی ایرانی ادب سے شغف نہ بھی رکھتا ہو، لیکن وہ اس ڈراما سیریز اور اس کے کرداروں سے مانوس ہے، کیونکہ یہ وہ قصے اور کہانیاں ہیں، جس میں ایک عام ایرانی کی زندگی کو بیان کیا گیا ہے۔ ایران کی ایک پوری نسل ان کہانیوں سے جڑی ہوئی ہے، جنہوں نے پرورش پاتے ہوئے یہ قصے اپنی آنکھوں سے ٹیلی وژن کی اسکرین پر دیکھے۔’’ھوشنگ مرادی کرمانی‘‘ کی ایک معروف کہانی، پھر جس کو انہوں نے ناول کی شکل دی اور بعدازاں سینما کی اسکرین کے لیے اسکرپٹ کی شکل میں بھی ڈھالا، اس کا عنوان’’مھمان مامان‘‘ ہے۔

ان کی کہانیوں میں’’شرم‘‘ وہ کہانی ہے، جس کو فلم کے پردے پر فلمایا گیا، یہ فلم 1992 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ باقی تین فلمیں جو بنیں، وہ تینوں ان کے ناول تھے، جن میں’’مھمان مامان‘‘ کے علاوہ’’مربائے شیریں‘‘ اور’’مشت برپوست‘‘ ہیں۔ یہ دونوں فلمیں بالترتیب 2001 اور 2004 میں ریلیز ہوئیں پھر’’مھمان مامان‘‘ کی نمائش کا سال بھی 2004 ہے اور مقبولیت میں ’’مھمان مامان‘‘ہی سب سے مقبول ایسی کہانی ہے، جو ڈرامے اور ناول میں بھی ڈھل چکی، اس کو ایرانی ٹیلی وژن اور سینماپر یکے بعد دیگرے فلمایا گیا۔ ’’مھمان مامان‘‘ سے مراد ’’ماں کے مہمان‘‘ہیں۔ اس فلم کی ہدایات معروف ایرانی فلم ساز’’داریویش مھرجویی‘‘ نے دیں، یہ فلم ساز خود ایرانی سینما کا ایک بہت بڑا نام ہیں، جنہوں نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے اس کہانی کو ایرانی سینما بینی میں امر کر دیا۔ 2004 میں یہ فلم ایران میں ریلیز ہوئی اور باکس آفس پر کامیابی بھی حاصل کی۔

ایران کے مقبول ترین’’فجر عالمی فلم فیسٹیول‘‘ میں اس کو بہترین فلم کا اعزاز بھی دیا گیا، جبکہ دیگر آٹھ شعبوں میں بھی اس کی نامزدگی ہوئی۔ ایرانی سینما کی دس بہترین فلموں میں سے ایک اس فلم کو بھی شمار کیا جاتا ہے، جبکہ اس کہانی کو مغربی ادبی مدیروں کی طرف سے ایرانی بچوں کی سات مشہور کتابوں میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ ساری مقبولیت ’’ھوشنگ مرادی کرمانی‘‘ کی ادبی بلندی کو بیان کرتی ہے۔ 76 سالہ یہ بزرگ اب بھی اپنی قوم کے بچوں کے لیے کہانیاں تخلیق کرنے کو پُر عزم ہے ، یہی ایک سچے اور حب الوطن ادیب کی نشانی ہے، ایرانی ادبیات کی تاریخ میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔