کورونا اثر .... معیشت کیسے بچائیں؟

April 12, 2020

میزبان:محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ:طاہر حبیب

زبیر طفیل
سابق صدر،
ایف پی سی سی آئی

شرح سود پانچ فیصد ہونی چاہیے، پیٹرول کی قیمتوں میں بیس روپے فی لیٹر کمی کی جائے، ٹیکسٹائل کا شعبہ زیادہ متاثر ہوگا، چین سے درآمدات کم ہونے سے ہماری صنعتوں کو خام مال اور کیمیکلز نہیں ملے گا، مہنگائی بڑھے گی، کچھ صنعتیں بند بھی ہوسکتی ہیں، عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے، رمضان اور عید کے موقع پر ملازمت کی چھانٹی بند کی جائے، ٹارگیٹڈ سبسڈی کی بجائے معاشی پالیسی کے ذریعے ریلیف پیکیج زیادہ مؤثر ہوگا


ڈاکٹر ایوب مہر
ماہر معاشیات ،
ایشین ڈیولپمنٹ بینک

زبیر طفیل

پاکستان کی برآمدات گھٹ جائیں گی، تین بلین ڈالر کا نقصان صرف اس شعبے کو ہوگا، سپلائی چین متاثر ہوگی، ذخیرہ اندوزی ختم کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے جنرل سیلز ٹیکس ختم کیا جائے، برطانیہ نے سیلز ٹیکس زیرو فی صد کردیا ہے، کنزیومر لون ایک سال تک مؤخر کرنے سے فائدہ نہیں، نقصان ہوگا

ڈاکٹر ایوب مہر

شبیر احمد
سرپرست اعلیٰ، پاکستان بیڈویئر
ایکسپورٹر ایسوسی ایشن

پالیسی ساز ادارے بروقت درست فیصلے نہیں کررہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ستر فی صد کمی کی جائے، بے روزگاری، مہنگائی مزید بڑھ سکتی ہے، غریب اور کم آمدنی والے طبقے کے درست اعداد و شمار مرتب کرنے کے لئے نادرا اور ای او بی آئی سے ڈیٹا حاصل کیا جائے، امداد کی تقسیم میں بدعنوانیاں ہوں گی، مستحقین تک امداد نہیں پہنچے گی

شبیر احمد

کورونا وائرس کی عالم گیر وبا نہ صرف انسانیت کے لئے ایک سنگین خطرہ ہےبلکہ اس نے دنیا کے معاشی نظام کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ لاک ڈائون کی وجہ سے دنیا کے بیش تر ملکوں میں پچاس کروڑ سے زائد افراد اپنے گھروں تک محدود ہوگئے ہیں اور اس طرح معاشی سرگرمیوں کو سنگین نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ کورونا وائرس سے متاثرہ ملکوں اور افراد کی تعداد ہرروز بڑھ رہی ہے۔ پاکستان بھی اس وائرس سے متاثر ہوا ہے۔ کورونا وائرس نے تمام صوبوں میں آفت مچا دی ہے۔ اس سنگین خطرے سے نمٹنے کے لئے تمام حکومتیں تندہی سے کام کررہی ہیں خصوصاً شعبہ طب سے وابستہ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اس وبا کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لئے دن رات ایک کررہے ہیں۔ کورونا وائرس کب ختم ہوگا؟ کیسے ختم ہوگا؟ کیا اس کے تدارک کی ویکسین جلد تیار کرلی جائے گی؟

یہ سوالات اپنی جگہ اہم سہی، لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب ترقی یافتہ ملکوں کی معیشتیں بیٹھ چکی ہیں، پاکستانی معیشت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا معیشت نئی صورت حال میں سنبھل پائے گی؟ معاشرے میں بھوک، غربت اور بے روزگاری کا سلسلہ کہاں تک جائے گا؟ بڑی بڑی صنعتیں، ایئرلائنز، ٹرانسپورٹ،کاروبار وغیرہ بندش کا شکار ہیں۔ یہ معاشی تباہی کب تک جاری رہے گی اور اس کا سدباب کس طرح ہوگا۔ پاکستانی معیشت پر کورونا وائرس کے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے ٹیلی فونک جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں ایشین ڈیولپمنٹ بینک سے وابستہ ماہر معاشیات ڈاکٹر ایوب مہر، ایف پی سی سی آئی کے سابق صدر زبیر طفیل اور پاکستان بیڈویئر ایکسپورٹر ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ شبیر احمد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

جنگ:کورونا وائرس نے عالمی معیشت بالخصوص پاکستانی معیشت کو کس طرح متاثر کیا ہے، کیا یہ معاشی بحران کا سبب بھی بنے گا؟

ڈاکٹر ایوب مہر:میرے خیال میں یہ بحران ایک بڑی تباہی ہے، ایک عالمی آفت ہے، اس طرح کی آفتوں سے نمٹنے کے لئے دنیا بھر میں ایک نظام تشکیل دیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں اسے قطعاً نظرانداز کردیا گیا ہے۔ یہ نظام تین مرحلوں میں کام کرتا ہے۔ پہلے مرحلے میں کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ انسانی جانوں کو بچایا جائے، ہیلتھ سسٹم کام کرتا ہے، امدادی ادارے کام کرتے ہیں یعنی ترجیح انسانی جان بچانے پر دی جاتی ہے ان کو خوراک کی فراہمی پر توجہ دی جاتی ہے۔

دوسرے مرحلے میں جب تباہی یا آفت آکر گزر جاتی ہے تو پھر معاشی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، مثلاً جی ڈی پی، ایکسپورٹ، انوسٹمنٹ، ٹیکس ریونیو، روزگار اور کاروباری اداروں کی بحالی، تیسرا مرحلہ تباہی اور آفت سے متاثر ہونے والوں کی ذہنی اور نفسیاتی بحالی کا ہوتا ہے۔ کیوں کہ جو لوگ معاشی طورپر برباد ہوچکے ہوتے ہیں اپنے رشتے داروں کو کھو چکے ہوتے ہیں ان کو نفسیاتی بحالی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔ اس موقع پر ماہرین نفسیات اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں ہوکیا رہا ہے ہم نے پہلے مرحلے کو نظرانداز کردیا ہے اور بات کررہے ہیں دوسرے مرحلے کی، پہلے انسانی جانیں بچائیں، اپنا ہیلتھ سسٹم مضبوط کریں لیکن اب ہمارے سامنے دوسرے مرحلے کی تجاویز آرہی ہیں، معیشت کے حوالے سے وہی گھسی پٹی باتیں ہورہی ہیں جنہیں ہم بیس تیس برسوں سے سنتے آرہے ہیں مثلاً انٹرسٹ ریٹ کم کردیں، ٹیکس چھوٹ دے دیں، ری فنڈ کردیں یا زیرو ریٹنگ کردیں، قرضے معاف کردیں۔ ان چیزوں کا بحران سے کوئی تعلق ہی نہیں۔

جنگ:آپ کے خیال میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

ڈاکٹر ایوب مہر:دیکھیں جناب اصل تباہی کیا ہوتی ہے، جب کوئی آفت یا تباہی کسی ملک پر آتی ہے تو اس کے نتیجے میں بڑے صنعت کار، سرمایہ کار، کاروباری کا منافع کم ہوجاتا ہے جب نفع کم ہوتا ہے تو اس کے پہلے اثرات ورکرز اور ملازمین پر ہوتے ہیں کسی صنعت میں دو سو ورکرز کام کررہے تھے، صنعت کار ان میں بیس پچیس یا زیادہ کی چھانٹی کردیتا ہے۔ دکان پر اگر دو ملازمین تھے تو ایک کو نکال دیتا ہے۔ ورکرز کے بعد یہ اثرات عام آدمی تک پہنچتے ہیں اور پھر ہوتے ہوتے پورے معاشرے میں پھیل جاتے ہیں، اصل نقصان کس کا ہوتا ہے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا۔

بحران کے نتیجے میں متاثر ہونے والے بھی تین ہی طبقے ہوتے ہیں پہلا طبقہ زیادہ آمدنی والا ہے جس کا منافع کم ہوتا ہے، لیکن نقصان نہیں ہوتا، گویا منافع میں نقصان ہوتا ہے۔ لہٰذا اسے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اور اس کے مصارف زندگی جاری رہتے ہیں۔ آفت یا بحران سے متاثر ہونے والا درمیانی طبقہ ہے اس کا نقصان یہ ہے کہ اس نے جوڑ جوڑ کر جو تھوڑی بہت بچت کی ہوتی ہے وہ آفت کے دنوں میں مختلف خرچوں میں ختم ہوجاتی ہے۔ تیسرا بالکل ہی نچلا طبقہ ہے جس کی مستقل آمدنی بھی نہیں ہوتی اگر ہوتی بھی ہے تو اتنی کہ جسم اور جان کا رشتہ برقرار رہے۔

اس کی بچت بالکل بھی نہیں ہوتی کہ وہ کچھ روز گھر میں بیٹھ کر کھالے، لہٰذا جب معاشی بحران آتا ہےتووہ اپنے خرچے کم کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کی نظر میں غیر ضروری ہوتے ہیں مثلاً اگر کوئی بچہ اسکول جارہا ہے تو اسے اسکول سے اٹھا لیتے ہیں اور کسی چھوٹے موٹے دھندے پر لگا دیتے ہیں جہاں سے وہ کچھ روپے کما سکے، ٹائر پنکچر کی دکان پر کام کرنے والے ’’چھوٹے‘‘ دراصل وہی بچے ہوتے ہیں جن کے والدین انہیں کھلانے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ پھر اگر ان کے پاس کوئی کچا پکا مکان یا جھگی ہوتی ہے تو وہ اسے فروخت کرکے کسی کرائے کی جگہ پر چلے جاتے ہیں۔ میری نظر میں یہ نچلا طبقہ ہی زیادہ امداد کا مستحق ہے لہٰذا حکومت جو بھی نظام بنائے اس میں تیسرے طبقے کو ترجیح دی جائے۔

جنگ:کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان کو سرسری اندازے کے مطابق کتنا نقصان ہوسکتا ہے؟

ڈاکٹر ایوب مہر:ایشین ڈیولپمنٹ بینک نے تخمینہ لگایا ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کو پانچ بلین ڈالر کا نقصان ہوگا۔

جنگ:یہ نقصان کن صورتوں میں ہوگا؟

ڈاکٹر ایوب مہر:اس تخمینے کے مطابق تین بلین ڈالر کا نقصان برآمدات کے شعبے میں ہوگا، پاکستان کی برآمدات گھٹ جائیں گی، دوسرا بڑا نقصان ٹیکس ریونیو میں شارٹ فال کی صورت میں ہوگا جو تقریباً دو بلین ڈالر تک جاسکتا ہے۔ یہ ہمارے ملک کی جی ڈی پی کا ڈیڑھ فیصد ہے۔

جنگ:کچھ بین الاقوامی اداروں نے پاکستان کو امداد دینے کی بات بھی کی ہے؟

ڈاکٹر ایوب مہر:ایشین ڈیولپمنٹ اور ورلڈ بینک ہمیں پانچ سو ملین ڈالر کی امداد دے رہے ہیں یہ ہمارے نقصان کا صرف دس فیصد ہے۔ بقیہ نوے فیصد نقصان ہمیں برداشت کرنا ہوگا۔

جنگ:اس کے علاوہ اور کیا کیا نقصانات ہوسکتے ہیں؟

ڈاکٹر ایوب مہر:ہماری سپلائی چین متاثر ہوگی صرف چین سے ہماری سالانہ15بلین ڈالر کی درآمدات ہیںان درآمدات کا نوے فیصد کا تعلق درمیانی اور نچلے طبقے سے ہے جو یہ مال استعمال کرتے ہیں اور فروخت بھی کرتے ہیں، جب مال ہی نہیں آئے گا تو بسوں اور بازاروں میں چینی اشیاء فروخت کرنے والے کیا کریں گے ظاہر ہے ان کا روزگار متاثر ہوگا، اسی طرح جو بڑے امپورٹرز ہیں، انہیں بھی نقصان ہی ہوگا۔

جنگ:اس کا حل کیا ہے، ہمیں کیا حکمت عملی اختیار کرنا چاہئے؟

ڈاکٹر ایوب مہر:نہایت سادہ حل ہے،برطانیہ نے فوری طورپر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) زیرو کردیا ہے۔ اس طرح چیزوں کی قیمت خود بہ خود کم ہوجائے گی۔ پاکستان میں جی ایس ٹی سترہ اور اٹھارہ فیصد ہے مکمل نہ سہی ، دس فیصد تو کم کیا جاسکتا ہے۔ اس کا ایک فوری فائدہ یہ ہوگا کہ ذخیرہ اندوزی ختم ہوجائے گی۔ ذخیرہ اندوز فوری طورپر اپنا تمام اسٹاک بازار میں لے آئیں گے اور عوام کو سستی اور وافر اشیاء ملنا شروع ہوجائیں گی۔

جنگ:حکومت کو اس کے علاوہ اور کیا قدم اٹھانا چاہئے؟

ڈاکٹر ایوب مہر:دنیا کے مختلف ملکوں نے اپنے اپنے طورپر کچھ اقدام کئے ہیں، ہمیں بھی ان ہی ماڈل کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ جیسے حکومت برطانیہ نے اعلان کیا ہے کہ تمام نجی کمپنیوں اور اداروں کے ملازمین کی اسی فیصد تنخواہ حکومت ادا کرے گی اور آجر تنخواہ کا بیس فی صد خود دیں گے۔ اس طرح اب کوئی آجر کسی ملازم کو نہیں نکالے گا۔اسی طرح فرانس نے فی گھرانہ تین سو یورو ماہانہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب کہ چین اور اسپین کی حکومت تمام یوٹیلیٹی بلز خود ادا کرے گی۔

جنگ:ہماری حکومت نے بھی 1200 بلین روپے کا فنڈ قائم کیا ہے؟

ڈاکٹر ایوب مہر:یہ بارہ سو بلین روپے کہاں سے آئیں گے۔ چندے سے؟ چندہ اب مل نہیں سکتا، عوام ڈیم فنڈ کو بھگت چکے ہیں، حکومت کے پاس ایک ہی راستہ ہے ٹیکسز بڑھا دیں، نوٹ زیادہ چھاپ دیں، جی ایس ٹی ڈبل کردیں۔ ہم کنزیومر لون ایک سال کے لئے موخر کررہے ہیں، اس کا فائدے کے بجائے نقصان ہی ہوگا۔ جب قرض میں دیا گیا پیسہ واپس آتا ہے تو وہ دوسری جگہ استعمال بھی ہوگا، جب آئے گا ہی نہیں تو استعمال کدھر ہوگا، پھر جو لوگ ادا کرنے کی سکت رکھتے ہیں وہ بھی ادا نہیں کریں تو مالیاتی ادارے دبائو میں آجائیں گے۔ بینک اپنا نقصان صارفین کو منتقل کریں گویا عوام ہی گھاٹے میں رہیں گے۔ پھر یہ بھی ہوسکتا ہے عوام اپنی بچتیں بینکوں سے نکلوا لیں یا قرضے واپس ہی نہ کریں۔

جنگ:جب کوئی بحران آتا ہے تو ڈیولپمنٹ اکنامکس پر اثرات کیا ہوتے ہیں؟

ڈاکٹر ایوب مہر:جب کوئی بڑی تباہی، بحران یا آفت آتی ہے تو فنانشل مارکیٹ اور دیگر مالیاتی اداروں پر تین طرح کے اثرات ہوتے ہیں ، انگریزی حرف ’’V‘‘ شیپ میں، ’’U‘‘شیپ میں اور ’’L‘‘شیپ میں۔ ’’V‘‘ میں تیزی سے چیزیں نیچے آتی ہیں اور جیسے ہی بحران ختم ہوتا ہے وہ اسی تیزی سے اوپر چلی جاتی ہیں، ’’U‘‘میں گراوٹ کچھ عرصے کے لئے ٹھہرتی ہے پھر رفتہ رفتہ اوپر ہوجاتی ہے۔ ’’L‘‘ میں نیچے آنے کے بعد بہتری یا ٹھہرائو نہیں آتا۔ نیچے ہی نیچے رہتی ہے۔ موجودہ بحران ’’U‘‘شیپ کا ہے۔ سال دو سال برقرار رہ سکتا ہے، کورونا وائرس بھی دنیا سے سو فی صد ختم نہیں ہوگا۔ اکادکا کیسز نمودار ہوتے رہیں گے۔

جنگ: پاکستان کی معیشت پر کورونا کے اثرات کیا ہوں گے؟

شبیر احمد: اس وقت صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں معاشی صورتحال بڑی گھمبیر ہے، اکثر ملکوں میں لاک ڈائون ہے اور کہیں کرفیو لگا کر صورتحال پر قابو پانے کی کوشش ہورہی ہے، ہمارے بہت سے برآمدی آرڈر منسو،خ ہوئے ہیں زیادہ تر آرڈر موخر کردیئے گئے ہیں اس بنا پر میں کہہ سکتا ہوں پاکستان پر کورونا کےا ثرات بہت برے ہوں گے اور ہم جلد سنبھل نہیں سکیں گے۔

جنگ: اس صورتحال میں صنعت کاروں کے مطالبات کیا ہیں؟

شبیراحمد: ہم چاہتے ہیں کہ حکومت فوری طور ر صنعتوں کو کھولنے کی اجازت دے، اس وقت صنعتوں میں تیار مال موجود ہے لیکن لیبرنہ ہو نے کیوجہ سے پیکنگ وغیرہ نہیں ہورہی ہے، اگر ہمیں اجازت مل جائے تو کچھ مال برآمد کیا جاسکتا ہےکیوں کہ دنیا میں اس وقت آن لائن فروخت کا سسٹم کام کررہاہے، ڈیمانڈ موجود ہے۔

جنگ: تو کیا آن لائن سسٹم کو مزید فروغ ملے گا؟

شبیر احمد: دنیا کی بڑی آن لائن کمپنیز علی بابا اور ایمازون کے علاوہ دنیا بھر میں بڑے بڑے شاپنگ سینٹر بھی آن لائن سسٹم پر کام کررہے ہیں اور لوگوں میں بھی گھر بیٹھے خریداری کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

جنگ: ہمارے صنعتی شعبے کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟

شبیر احمد: ہر جگہ کام بند ہے، صنعت کار اپنے کارکنوں کو تنخواہیں دینے سے قاصر ہیں جب تک ہمارا مال آگے نہیں جائے گا پیمنٹ بھی نہیںآئے گی، جب پیمنٹ نہیں ہوگی تو تنخواہیں کہاں سے دی جائیں گی۔

جنگ: کورونا کے خطرات کےساتھ صنعت کاری اور تجارت کی شکل کیا ہوگی؟

شبیر احمد:حفاظتی اقدامات (SOP'S)کے ساتھ صنعتوں میں کام کرنے کی بڑی گنجائش موجود ہے ہم ویسے بھی بین الاقوامی ہدایات کے مطابق کام کرتے ہیں اور ہمارے لئے اس قسم کی پابندیاں نئی نہیں ہیں۔ ہم صحت کے بنیادی اصولوں کی پابندی کے ساتھ کام کرتے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ موجودہ حالات کے تحت ہم مزید اس میں سختی لائیں گے۔

جنگ: اس وقت برآمدات کی کیا صورتحال ہے؟

شبیر احمد: ہماری برآمدات مکمل طور پر ٹھپ ہیں، امپورٹ بھی بند ہے، اس طرح حکومتی ریونیو بھی کم ہوگا۔

جنگ: حکومت نے جس ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے آپ اس سے مطمئن ہیں؟

شبیراحمد:یہ پیکیج نہیں ہے، یہ ہمارا اپنا پیسہ ہے جو واپس ہمیں ملا ہے۔ اس میں حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے یہ رکا ہوا پیسہ ہے جو بہت تاخیر سے واپس آیا ہے اور پورا واپس نہیں دیا گیا ہے۔ اس پیکیج کی مزید وضاحت کی ضرورت ہے۔ ہمارا جو پیسہ سیلز ٹیکس کی مد میں لے رہی ہے اسے فوری طور پر واپس کیا جائے۔

گزشتہ سال جولائی میں حکومت ایک نیا نظام لائی تھی جس کے تحت بہتر گھنٹے میں ری فنڈ دینے کی بات کی گئی تھی لیکن یہ نظام مزید نہیں چل سکا۔ کبھی یہ نظام بند ہوجاتا ہے تو تاخیر ہوتی ہے۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ پرانا نظام زیرو ریٹنگ کا واپس آجائے موجودہ نظام سے معاشی صورتحال کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

جنگ: یورپ اور امریکا میں ٹیکسٹائل کی برآمدات بڑھنے کا کیاامکان ہے؟

شبیراحمد:یورپ اور امریکا میں ٹیکسٹائل کی برآمدات آئندہ دنوں میں بڑھ سکتی ہیں وہ اپنے معاشی نظام کے تحت بہت جلد مسائل پر قابو پالیں گے لیکن ہم جتنی تاخیر کریں گے ہمیں نقصان ہوگا۔ موجودہ حالات میں فیکٹریوں اور صنعتوں میں کام کرنے والے کارکن اپنے اپنے آبائی علاقوں میں واپس چلے گئے ہیں ان کی فوری واپسی کا فی الحال کوئی امکان نظر نہیں آتا چنانچہ خدشہ ہے کہ ہم مستقبل میں برآمدی آرڈرز کا ہدف پورا نہیں کرسکیں۔

جنگ: ملک میں نئی سرمایہ کاری کے کیا امکانات ہیں اور یہ کن شعبوں میں وہ؟

شبیراحمد: موجودہ حالات میں نئی سرمایہ کاری کا کوئی امکان نظر نہیںآتا۔ کورونا کےساتھ ساتھ ہمارے معاشی حالات شروع ہی سے صحیح نہیں تھے اگر ہم اپنے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھالیتے تو کچھ اچھا ہوسکتا تھا۔ ہمارے پالیسی ساز ابھی بھی بروقت درست فیصلے نہیں کررہے ہیں۔

جنگ: صنعت کاروں کو مزید کسی ریلیف کی ضرورت ہے؟

شبیراحمد: صنعت کاروں کو مزید ریلیف دینے کے لئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی کرنا ہوگی اس کے علاوہ پٹرول کی قیمت ستر فیصد تک کم ہونی چاہئے اس کے علاوہ ری فنڈ کی مد میں باقی ماندہ رقم بھی دی جائے موجودہ ری فنڈ تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔

جنگ:کرونا وائرس دنیا بھر کی معیشت کو متاثر کررہا ہے ، پاکستان بھی عالمی معیشتوں سے جڑا ہوا ہے۔ ہماری معیشت پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

زبیر طفیل:پاکستان بنیادی طور پر ایک درآمدی ملک ہے، عالمی تجارت میں ہماری برآمدات کے مقابلے میں درآمدات زیادہ ہیں جس کے سبب ہمارا تجارتی خسارہ کم یا زیادہ منفی ہی رہتا ہے۔ کرونا کے سبب ہماری گرتی ہوئی برآمدات مزید گریں گی۔ کرونا وائرس کی وبا کے سبب دنیا بھر کی معیشتوں کے ساتھ ان ممالک کی معیشت بھی متاثر ہورہی ہے جن سے ہم ٹریڈ کرتے ہیں۔ مثلاً یورپ اور امریکا دونوں وائرس کا شکار ہیں اور ہماری گرمیوں کے آرڈرز منسوخ ہوگئے ہیں۔ جس کے سبب برآمد کرنے والوں کو کیش فلو میں کمی کا سامنا ہے اور ان کا بڑا نقصان ہورہا ہے۔

یہ پورا سیزن خراب جائے گا جس کے سبب پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی متاثر ہوں گے۔ جو پہلے ہی دبائو کا شکار ہیں۔ کراچی میں زیادہ صنعتیں ہیں اور یہاں لاک ڈائون کے سبب صنعت کاری متاثر ہورہی ہے۔ بے روزگاری کے بھی خدشات ہیں۔ کیوں کہ صنعت کار زیادہ مدت تک انڈسٹری بند کرکے تن خواہیں ادا نہیں کرسکیں گے۔ بعض جگہوں سے ڈیلی ویجز کو فارغ بھی کیا گیا ہے اور سندھ حکومت نے ایکشن بھی لیا ہے لیکن حکومت اور صنعت کاروں کو مل بیٹھ کر کوئی پالیسی تیار کرنی چاہیے۔ صنعت کاروں کو چاہیے کہ عید تک اگر لاک ڈائون رہتاہے تو اس عرصے میں لوگوں کو تن خواہیں ادا کریں اور بے روزگار نہ کریں۔ اس دوران سندھ حکومت کے ساتھ ورکنگ ایس او پیز تیار کیے جائیں جس کے تحت فیکٹری میں کام بحال ہو۔

کرونا وائرس کے سبب تمام حفاظتی اقدامات اب سب کو لینے ہوں گے۔ ملازمین کی ٹرانسپورٹ ، فیکٹری میں ورکنگ کنڈیشنز، کھانا پینا، دفاتر میں حاضری سب کرونا پروٹوکول کو مدنظر رھتے ہوئے تیار کرنی ہوں گی۔ ہم نے تجویز دی ہے کہ جو بھی ملازم تیس ہزار سے کم سیلری لے رہا ہے اس کی تن خواہ نہ کاٹی جائے نہ اسے نکالا جائے۔ حکومت برآمد کنندگان کے لیے مزید مراعات کا اعلان کرے۔ بنگلہ دیش نے اپنے ایکسپورٹرز کے لیے تین بلین ڈالرز کا پیکیج رہا ہے ایسا ہی پیکیج پاکستان میں بھی آنا چاہیے۔

جنگ:حکومت نے انڈسٹری اور برآمدی سیکٹر کے لیے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے آپ سمجھتے ہیں کہ وہ ناکافی ہے؟

زبیر طفیل:حکومت نے اپنے طور پر ایک معاشی ریلیف پیکیج دیا ہے لیکن ہماری ہمیشہ سے شکایت ہے کہ حکومت بزنس مینوں یا اسٹک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر فیصلہ نہیں کرتی۔ اسد عمر، وزیراعظم اور منسٹری آف فنانس نے پیکیج میں بزنس کمیونٹی کو شامل نہیں کیا۔ کچھ اقدامات بہتر ہیں لیکن انہیں مزید بہتر اور موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے برآمدی سیکٹر کے ایک کھرب کے ریفنڈز دینے کا اعلان کیا ہے۔ اچھی بات ہے لیکن یہ رقم بہت عرصے سے حکومت نے روکی ہوئی تھی جس سے صنعت کار مشکلات کا شکار تھا۔ یہ ریلیف تو نہیں کہلائے گا کیوں کہ یہ رقم صنعت کار کی ہی ہے جسے حکومت ادا نہیں کررہی تھی۔

اب اس وقت کچھ کیش فلو کا مسئلہ اس سے حل ہوگا لیکن یہ بہت چھوٹا امائونٹ ہے۔ تاہم صنعت کار اس دوران موسم سرما کے لیے برآمدی اشیاء کی تیاری کریں گے جس میں یہ رقم کام آسکتی ہے۔ حکومت نے شرح سود میں بہت مایوس کیا ہے۔ گو کہ مخصوص برآمدی سیکٹرز کو اسٹیٹ بنک نے رعایتی شرح سود دینے کا اعلان کیا ہے لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ جیسا کہ دنیا بھر میں شرح سود میں کمی کی گئی ہے پاکستان میں بھی اس میں نمایاں کمی کی جائے اور اسے پانچ فی صد تک لایا جائے۔

اس سے انڈسٹری بحال ہوگی۔ نئی سرمایہ کاری کو ترغیب ملے گی، جس سے روزگار کے نئے ذرائع بھی پیدا ہوں گے جو کہ اس وقت سب سے ضروری کام ہے۔ حکومت کو بھی شرح سود میں کمی سے قرضوں میں ریلیف ملے گا۔ ایک فی صد شرح سود میں کمی سے حکومت کو تقریباً دو کھرب کا فائدہ ہوگا۔ جو وہ قرضوں کے سود میں ادا کرتی ہے۔ اس سے حکومت کو ریلیف دینے میں اسپیس ملے گی۔ ساتھ ہی صنعت کے لیے مشینری کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کی جائے جو اس وقت پانچ فی صد ہے۔ درآمدی سطح پر مشینری پر ڈیوٹی زیرو ہونی چاہیے۔ مشین چلے گی تو حکومت کو آمدنی دے گی۔ ایک بڑا ریلیف حکومت عوام اور انڈسٹری کو یہ دے سکتی ہے کہ پیٹرول کی نرخوں میں زیادہ کمی کرے۔ عالمی منڈی میں پیٹرول ستر ڈالر سے پچیس تک نیچے آیا ہے۔

حکومت اسے فوری طور پر پاس اون کرے۔ اور اس میں بیس روپے فی لیٹر کی مزید کمی کرے یہ ایک جانب مہنگائی میں کمی کا سبب بنے گا اور دوسری طرف معاشی پالیسی کے ذرائع عوام کو بڑا ریلیف دیا جاسکے گا۔ عوام اس وقت مشکلات کا شکار ہے۔ ٹارگیٹڈ سبسڈی درست ہے لیکن اگر معاشی پالیسی کے ذریعے ریلیف مہیا کیا جائے تو وہ اور بہتر ہوگا۔ اور جو بھی اقدامات کیے جائیں وہ صوبوں کو اعتماد میں لے کر ان کی مشاورت اور ان کے ذریعے کیے جائیں اس وقت کس سیاسی نفاق ملک کے حق میں نہیں ہے۔

جنگ:نیا بجٹ بھی آنے والا ہے۔ موجودہ کورونا وائرس اور معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو بجٹ میں کیا اہم اقدامات کرنے کا مشورہ دیں گے۔

زبیر طفیل:سب سے پہلے تو حکومت کو یہ مشورہ ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے دوبارہ مذاکرات کرے۔ حکومت نے پہلے ہی بہت سخت شرائط تسلیم کرلی تھیں اب کرونا کی وبا کے پیش نظر ان پر نظر ثانی کی جائے، آئندہ واجب قسط کو مؤخر کردیا جائے۔ شرح سود میں کمی پر تیار کیا جائے۔ ٹیکس ٹارگٹ میں کمی لائی جائے۔ موجودہ صورت حال کے پیش نظر آئی ایم ایف اس پر تیار بھی ہوگی۔ کورنا وائرس کے سبب صحت کے شعبے کے لیے زیادہ رقم مختص کی جائے، ملک میں صحت کے انفراسٹرکچر، اسپتالوں، ہیلتھ انجینئرنگ اور فارماسیوٹیکل کے لیے مراعات کا اعلان کیا جائے۔ دوائوں کی قیمتوں میں کمی کی پالیسی بنائی جائے۔ فوری طور پر ایمرجنسی عارضی ہسپتال قائم کیے جائیں۔ اور ڈاکٹروں، نرسوں اور میڈیکل اسٹاف کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر مسلسل دبائو بڑھ رہا ہے۔ برآمدات میں کمی کے بعد بیرون ملک پاکستانیوں کے ترسیلات زر میں بھی کمی واضح ہوگی۔

اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ پیٹرول اور کھانے کے تیل کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے جس سے ہمارے امپورٹ بل کو سہارا ملے گا۔ حکومت ڈالر کی شرح مبادلہ کو بھی قابو میں رکھنے کی کوشش کرے۔ کورنا کے سبب سماجی فاصلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آن لائن بزنس کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت سرمایہ کاروں کے لیے مواقع ہے کہ وہ ایمزون اور علی بابا کی طرز پر آن لائن انڈسٹری کا آغاز کریں۔ آخری بات یہ کہ حکومت لاک ڈائون کے پیش نظر یومیہ اجرت کے ملازمین کا پورا خیال رکھے اور اس حکمت عملی تیار کی جائے کہ ان تک ریلیف براہ راست پہنچ سکے جو کہ عام طور پر نہیں پہنچ پاتا ہے۔ نجی شعبہ بھی اس حوالے سے کام کررہا ہے لیکن ایک مؤثر اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ابھی بھی ہے۔