لاک ڈاؤن میں نرمی سے ناجائز فائدہ اٹھانے والے نتائج بھگتیں گے

April 23, 2020

کورونا وائرس سے دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتوں نے جس بڑے پیمانے پر انسانیت کو متاثر کیا ہے اس سے ایک غیر معمولی اضطراب اورہیجان ابھر کر سامنے آیا ہے۔ طاقت کا دعویٰ کرنے والی سپر پاور امریکہ سے لے کر آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر چلنے والے ممالک تک سب اس بھیانک وباء کے ہاتھوں بے بس اور بے کس دکھائی دے رہے ہیں۔ عالمی سطح کی معیشت کی زبوں حالی کا منظر بھی تاریخ کےریکارڈ میں شامل ہو رہا ہے اور بھوک و افلاس کے مارے ہوئے مجبور انسانوں کی آہ و فغاں کی آوازیں بھی پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہیں۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں بھی اس موذی وباء کی بڑھتی ہوئی صورتحال نے ایک کربناک اور تشویشناک ماحول طاری کر رکھا ہے۔

حکومت کے اقدامات اور دعوئوں کے باوجود عوامی سطح پر ابھی تک آزردگی اور شکستگی کے علاوہ تشنگی کو شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس ناقابل برداشت حالات میں بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذکورہ بحران سے نبرد آزما ہونے کے لئے یکسوئی اور اتفاق و اتحاد کی کوئی فضاء دکھائی نہیں دے رہی اور ایک دوسرے پر الزامات کے ذریعے عوامی خدمت جیسے فلاحی منصوبوں کو بھی مذاق کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ کورونا وائرس پر حکومت اور اپوزیشن کے رہنما سیاست کر رہے ہیں اور وفاقی سطح سے لے کر صوبائی حکومتوں تک صرف اس بات پر زور لگایا جا رہا ہے کہ ’’سیاسی سکورنگ‘‘کے معاملے میں کون آگے ہے؟ وفاقی دارالحکومت کے سیاسی حلقوں میں آٹا اور چینی سکینڈل کی تحقیقات کے حوالے سے ابھی تک کئی کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔

حکمران جماعت کے وفاقی وزراء کے درمیان اختلافات کے بارے میں کئی باتیں سننے میں آ رہی ہیں۔ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کپتان کے دو چہیتوں کے درمیان بھی ایک جھڑپ کی داستان سنانے والوں کا کہنا ہے کہ اس دوران ’’کپتان‘‘ کی مداخلت سے معاملے کو ٹھنڈاکیا گیا۔ دو وفاقی وزراء کے بارے میں تو یہ زبان زد عام ہے کہ وہ نجی محفلوں میں اس بات کا رونا روتے ہیں کہ کابینہ سے تعلق رکھنے والے غیر منتخب ارکان کو ان سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور عالمی اداروں کی طرف سے تعینات کروائے جانے والے مشیروں اور معاونین خصوصی کے اختیارات ان سے کئی گنا بڑھ کر ہیں اور حکومتی امور کو چلانے میں ان کا سب سے زیادہ عمل دخل ہے۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ پرائم منسٹر سیکرٹریٹ میں بھی ’’مخصوص لابیوں‘‘ نے سارے معاملات کو اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے اور مشیر کے عہدے سے فراغت سے واپس آنے والے ارباب شہزاد کو دوبارہ معاون خصوصی برائے اسٹیبلشمنٹ کے عہدہ پر تعینات کرنے سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پرنسپل سیکرٹری کے اثر و رسوخ کے سامنے کسی اور کا زور نہیں ہے۔

حالانکہ یار لوگوں کا کہنا ہے کہ بیشتر حکومتی عہدیداروں نے انہیں جہانگیرتیرین کی دوستی کی صف میں شامل کر رکھا تھا۔ وفاقی دارالحکومت کے باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے معاملہ میں مقتدر قوتوں نے بھی حکمران جماعت کی توجہ ان تحفظات کی طرف دلائی ہے جو نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والی گفتگو کے تناظر میں اختلافات کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ انہوں نے وفاق اور صوبوں میں ہم آہنگی کی فضاء کو قائم رکھنے کے سلسلے میں واضح ہدایات جاری کی ہیں۔ اس حوالہ سے دو وفاقی وزراء اور ایک صوبے کے بڑے عہدیدار کو بھی پیغام دیا گیا ہے کہ وہ ابتلاء اور آزمائش کے اس نازک مرحلے کے موقع پر اختلافات کو بھول کر اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کے ذریعے عوام کی تکالیف اور مشکلات کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

صوبائی دارالحکومت میں ’’لاک ڈائون‘‘ ہونے کے باوجود عوام اپنی ضروریات کے سلسلہ میں کئی مقامات پر حکومتی پابندیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ حالانکہ اس غیر ذمہ داری سے لوگوں کو خطرناک نتائج بھی بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے تعمیراتی سرگرمیوں کی اجازت ملنے کے بعد یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ بے روزگاروں کو روزگار فراہم ہونے کے مواقع ملیں گے تاہم حکومت کی طرف سے اس سے ملحقہ انڈسٹری کے لوگوں نے ان ’’ایس اوپیز‘‘ پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے کہ جن پر عملدرآمد کرنے میں ان کو ابھی تک کئی دشواریوں کا سامنا ہے۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے تاجروں کے نمائندوں نے بھی اپنی ’’کسمپرسی‘‘ کے بارے حکومتی ٹیم کو آگاہ کیا ہے کہ ان کے روزگار کو کھولنے کے سلسلہ میں بھی اقدامات کئے جائیں اور ان کے کاروبار میں استحکام لانے کے لئے مراعات کا بھی بندوبست کیا جائے۔

صوبائی دارالحکومت میں سیاسی سرگرمیاں بھی کورونا وائرس کے باوجود دکھائی دے رہی ہیں۔آٹا اور چینی بحران میں حکومتی عہدیداروں کے علاوہ پارٹی کے اہم رہنما جہانگیر ترین کا نام آنے کے بعد یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ حکومتی پارٹی میں اختلافات کی دراڑیں کھل کر سامنے آئیں گی لیکن پارٹی قیادت نے سابق صوبائی وزیر علیم خان کو صوبائی حکومت میں سینئر وزیر کے طور پر شامل کرکے ان فاصلوں کو طے کرنے کی کوشش کی ہے جو دن بدن پارٹی رہنمائوں کے درمیان بڑھتے جا رہے تھے۔ اور پھر ان کو وہ محکمہ دیا گیا ہے جس کے ’’متنازعہ فیصلوں‘‘کے سلسلہ میں حکمران جماعت کو ایک ’’سیاسی بحران‘‘ سے دو چار ہونا پڑا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت بھی کورونا وائرس کے معاملہ میں خاصی متحرک دکھائی دے رہی ہے اور میاں شہباز شریف کی وطن واپسی سے بھی ’’سیاسی منظر‘‘ میں کئی امکانات کو محسوس کیا جارہا ہے۔ لیکن اپوزیشن کے رہنمائوں نے واشگاف طور پر حکومت کو مورد الزام بھی ٹھہرایا ہے کہ ان کے بعض وزراء اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کو دوبارہ حکومتی عتاب کے حصار میں لینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد تو کورونا وائرس کی فضا میں بھی اپنی ’’سیاسی پٹاری‘‘ کھولنے کےلئے صوبائی دارالحکومت میں آ کر دھواں دار پریس کانفرنس کردیتے ہیں۔ وہ صرف اپوزیشن کو ہی ’’ٹارگٹ‘‘ نہیں کرتے بلکہ حکومت کے کئی عہدیداروں کو بھی باور کراتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں منی لانڈرنگ، پاور سیکٹر اور قرضوں کے حوالہ سے آنے والی ’’تحقیقاتی رپورٹوں‘‘ میں بلاتفریق سب کا احتساب ہوگا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے رمضان المبارک میں عوام کے لئے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال اور اعلیٰ حکام کو ذخیرہ اندوزوں کے خلاف ہنگامی بنیادوں پر کریک ڈائون کی بھی ہدایات جاری کی ہیں۔

صوبائی حکومت کی طرف سے کورونا وائرس کے سلسلہ میں کئے جانے والے اقدامات کے باوجود عوام ان کو ناکافی اور غیرتسلی بخش قرار دے رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کا شعبہ ’’الخدمت‘‘ بھی اس مصیبت میں مجبور عوام کے لئے ترجیحی بنیادوں پر امداد فراہم کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ کئی رفاعی تنظیموں اور مخیر حضرات کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔