وزیراعظم کی سیاسی اہلیت کا امتحان!

April 26, 2020

کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے پاکستان میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ وزیر اعظم کی سیاسی اہلیت کے لئے کڑے امتحان کی شکل اختیار کرتی نظر آرہی ہے۔

اس صورتحال کو اب تک وزیر اعظم نے جس طرح ہینڈل کرنے کی کوشش کی ،اس کے نتیجے میں ان کی سیاسی اہلیت کے بارے میں کئی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔

ایک مثال تو یہ ہے کہ جب پاکستان کے مختلف علاقوں میں کورونا کے کیس ہونے لگے تو اس سلسلے میں سب سے پہلے وزیر اعلیٰ سندھ نے کورونا وائرس کے پھیلنے کو روکنے کے لئے صوبے بھر میں سخت لاک ڈائون کرکے لوگوں کی سرگرمیوں اور میل ملاپ کو روکنے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے فاصلے پر رہنے کی تلقین کی۔ بجائے اس کے کہ وزیر اعظم سندھ کے وزیر اعلیٰ کی اس پہل کی حمایت کرتے، الٹا ان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔کچھ دن پہلے بھی وزیر اعظم ایک ایسا قدم اٹھا چکے تھے جس کی وجہ سے وہ ملک بھر میں تنقید کا نشانہ بنے ۔

واضح رہے کہ ابھی ملک میں کورونا پھیلنا شروع ہوا تھا تو پاکستان کے اکثر سیاسی رہنمائوں نے جن میں خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما شہباز شریف اور پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پیش پیش تھے ،نے یہ تجویز دی کہ ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے جس میں اس وبا کا اجتماعی مقابلہ کرنے کی حکمت عملی تیار کی جائے۔یہ تجویز بھی دی گئی کہ یہ کانفرنس وزیر اعظم طلب کریں جس میں اپوزیشن کی بھی ساری جماعتوں کو مدعو کیا جائے۔ لوگ وزیر اعظم کی طرف دیکھ رہے تھے کہ وہ اس سلسلے میں آگے بڑھیں ،مگر ان کی طرف سے تو کوئی اعلان نہ ہوا، البتہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کی طرف سے آل پارٹیز کانفرنس ویڈیو لنک کے ذریعے منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا۔

جب یہ کانفرنس منعقد ہوئی تو اسپیکر قومی اسمبلی کے ساتھ وزیر اعظم بھی موجود تھے۔ انہوں نے کانفرنس سے خطاب بھی کیا حالانکہ ان کی اس تقریر میں کورونا سے مقابلے کے لئے کوئی قابل عمل تجویز تو پیش نہیں کی گئی مگر اس کے باوجود نہ فقط اس کانفرنس میں شریک اپوزیشن رہنمائوں کا مثبت ردعمل سامنے آیا بلکہ ٹی وی پر اس کانفرنس کا جائزہ لینے والے عوام میں بھی خوشی کی ایک لہر ابھرتی ہوئی محسوس ہوئی لیکن اس وقت ہر طرف مایوسی پھیل گئی جب تقریر ختم کرنے کے بعد اپوزیشن کی تجاویز کی روشنی میں کورونا کا اجتماعی مقابلہ کرنے کے لئے اجتماعی حکمت عملی بنانے کے بجائے وزیر اعظم کانفرنس سے اٹھ کر چلے گئے۔

اس کے ردعمل میں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری بھی احتجاجی طور پر کانفرنس سے اٹھ کر چلے گئے۔اس طرح اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے منعقد کی جانے والی یہ کانفرنس بحث و مباحثہ شروع ہونے سے پہلے ہی سبوتاژ ہوگئی۔

اب وزیر اعلیٰ سندھ کی طرف سے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لئے سندھ بھر میں سخت لاک ڈائون کرنے کے اعلان کی نہ وزیر اعظم نے حمایت کی بلکہ وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ سندھ کے اس اعلان کا مذاق اڑایا۔ کئی ’’وزرا ‘‘ کو ہدایات جاری کی گئیں کہ ایسا اعلان کرنے پر وزیر اعلیٰ سندھ کا مذاق اڑایا جائے۔

ان میں سب سے پہلے جس نے بیان جاری کیاوہ وفاقی وزیر فیصل واوڈا تھے جو ماضی میں اپنے کچھ متنازع بیانات کے بعد سے خاموش تھے، وفاقی وزیر علی زیدی نے بھی اسی قسم کا رویہ اختیار کیا، سب سے دلچسپ رویہ گورنر سندھ عمران اسماعیل کا تھا۔

انہوں نے نہ فقط بیان دے کر حکومت سندھ پر تنقید کی بلکہ ایسے وقت میں جب کم سے کم لوگوں کو جمع کرنے کی اپیلیں کی جارہی تھیں، کئی گاڑیوں پر مشتمل شاہی سواری کی قیادت کرتے ہوئے ٹھٹھہ اور بدین کے احساس سینٹرز کا دورہ کیا جہاں غریب لوگوں اور خاص طور پر خواتین کو احساس پروگرام کے تحت 12000 روپے دیے جارہے تھے۔

اس مرحلے پر ایک دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ ٹھٹھہ کے احساس سینٹر پر گورنر نے جب ایک خاتون سے پوچھا کہ تمہیں یہ 12 ہزار روپے کس سے ملے ہیں تو اس نے زوردار انداز میں کہا ’’بینظیر بھٹو‘‘سے، یہ سن کر گورنر سندھ غصے میں آگئے اور اس عورت کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تمہیں یہ 12 ہزار روپے بینظیر نہیں عمران خان نے دیے ہیں۔ یہ سب کچھ سن کر وہاں موجود لوگوں کو بہت دکھ ہوا۔ لوگ کہنے لگے کہ اول تو جب بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ایسا اچھا کام ہورہا تھا تو اس پروگرام کا نام تبدیل کرکے ’’احساس پروگرام‘‘ رکھنے کی کیا ضرورت تھی اور اگر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام نہ ہوتا تو ان کو یہ ڈیٹا کہاں سے ملتا اور کسی کو اتنی جلدی ایک ٹکا بھی نہیں ملتا۔اب تو ملک بھر کی غریب خواتین کے نام اور کوائف ان کے پاس آگئے۔ وزیر اعظم کی کابینہ میں شامل اور ان کی اطلاعات کی مشیر فردوس عاشق اعوان کا ذکربھی یہاں ضروری ہے۔ کوئی دن خالی نہیں جاتا جب ان کی طرف سے بھی حکومت سندھ اور وزیر اعلیٰ سندھ کے خلاف زہر افشانی نہ کی جاتی ہو ۔ یہی کچھ وزیر اعظم کے ایک اور مشیر شہباز گل بھی کرتے رہتے ہیں۔

بہرحال اس سلسلے کا اہم ڈراپ سین یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم کی طرف سے وزیر اعلیٰ سندھ کی لاک ڈائون والی تجویز کی مخالفت کے باوجود ایک دو دنوں کے اندر پنجاب، بلوچستان، کے پی، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں وہاں کی حکومتوں نے کورونا کا مقابلہ کرنے کے لئے سندھ کی طرز پر لاک ڈائون کردیا۔ یہاں پھر وزیر اعظم نے یوٹرن لیا اور لاک ڈائون کرنے کے بارے میں وزیر اعلیٰ سندھ کی تجویز کی حمایت کردی۔یہ سب کچھ دیکھ کر اکثر حلقوں میں یہ بحث ہورہی ہے کہ کیا ہمارے وزیر اعظم حکومت کا کاروبار چلانے کے اہل ہیں؟