عبادت گاہیں اس لئے آباد نہیں کہ!

April 27, 2020

کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں جس طرح ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر ہیلتھ ورکر اگلی صفوں میں آکر لڑ رہے ہیں، انہیں پوری انسانیت خراجِ تحسین پیش کر رہی ہے۔ بھارت کے ممتاز اداکار امیتابھ بچن نے انہیں جس طرح خراج تحسین پیش کیا، اس سے بہتر شاید کوئی نہیں کر سکتا۔ سوشل میڈیا پر امیتابھ بچن سے منسوب یہ جملہ وائرل ہوا ہے کہ ’’مندر اس لئے بند ہے کہ بھگوان سفید کوٹ پہن کر اسپتال میں کام کر رہا ہے‘‘۔ ڈاکٹر، نرسوں اور ہیلتھ ورکر یقیناً ایسے ہی خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔

آج انسان ایک ایسی جنگ لڑ رہا ہے، جس میں اس کا دشمن دوسرا انسان نہیں بلکہ وائرس یعنی جرثومہ ہے۔ اس جنگ میں مختصر عرصے میں جو تباہ کاریاں ہوئی ہیں، وہ اتنے ہی عرصے کے دوران جنگ عظیم میں بھی شاید نہ ہوئی ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ جانی نقصان دوسری جنگ عظیم کے کسی عروج والے دورانیے کے برابر ہو لیکن پوری دنیا میں نہ تو اس طرح لاک ڈاؤن تھا، نہ ہی انسانوں کی نقل و حرکت اور میل جول پر پابندی تھی۔ نہ سرحدیں اور ہوائی اڈے بند تھے، نہ ہی معاشی سرگرمیاں ختم ہوئی تھیں اور نہ ہی مذہبی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں پر پابندی تھی۔ کورونا وائرس کی انسان کے خلاف جنگ نتائج کے اعتبار سے انتہائی خطرناک اور تباہ کن ہے اور اس کے اثرات اسلحہ و بارود والی جنگوں سے زیادہ خوفناک اور غیر متوقع ہیں۔

یہ جنگ جیتنے کیلئے انسان کو ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر ہیلتھ پروفیشنلز پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے، جو اس جنگ کی حقیقی فوج ہیں۔ کورونا سے بچاؤ کے لئے سب سے پہلی تاکید یہ کی جاتی ہے کہ ہر شخص ایک دوسرے سے دور رہے، نہ صرف کورونا سے متاثرہ شخص سے دور رہنے کی ہدایت کی جاتی ہے بلکہ صحتمند لوگوں کو بھی سماجی دوری اختیار کرنے کا کہا جاتا ہے لیکن ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر طبی عملہ ہر اس شخص کے قریب جاتا ہے، جو کورونا وائرس کا شکار ہو اور اس شخص کی جان بچانے کیلئے یہ مسیحا اپنی زندگی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں سینکڑوں ڈاکٹر، نرسیں اور طبی عملہ کورونا کے خلاف جنگ میں اپنی جانیں قربان کر چکا ہے۔ ہیلتھ ورکرز میں اسپتالوں میں صفائی کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں، جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی تھی کہ خبر آئی کہ پشاور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے پروفیسر ڈاکٹر محمد جاوید کورونا وائرس سے انتقال کر گئے۔ وہ ایک ہفتہ قبل کورونا کا شکار ہوئے تھے۔ یہ تشویشناک خبر بھی چل رہی تھی کہ گزشتہ 24گھنٹوں کے دوران 49ہیلتھ پروفیشنلز میں کورونا وائرس کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں۔ ان میں 16ڈاکٹر، 5نرسیں اور 18دیگر ہیلتھ ورکر شامل ہیں۔ اب تک پاکستان میں 345ہیلتھ پروفیشنلز اس جان لیوا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں اور ان میں سے 3ڈاکٹر اپنے فرائض کی انجام دہی میں موت کو گلے لگا چکے ہیں۔ یہی ڈاکٹر چیخ چیخ کر اور ہاتھ جوڑ جوڑ کر لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ یہی ڈاکٹر حکومتوں سے بھی درخواست کر رہے ہیں کہ لوگوں کو موت کے منہ میں جانے سے روکا جائے اور لاک ڈاؤن میں مزید سختی کی جائے اور لوگوں کو اس وائرس کے خطرناک اثرات سے خبردار کرنے کیساتھ ساتھ انہیں محتاط رہنے کی درخواست بھی کر رہے ہیں۔ کراچی میں تو سینئر خواتین ڈاکٹر اپنی پریس کانفرنس کے دوران رو پڑیں اور لوگوں کو خدا کا واسطہ دے کر کہا کہ وہ گھروں میں محدود رہیں کیونکہ صرف احتیاط کے ذریعے ہی اس مرض کا علاج ممکن ہے۔ خواتین ڈاکٹروں نے یہ بھی انتباہ کیا کہ معاملات تیزی سے ان کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں کیونکہ ہمارے پاس آئی سی یو اور وینٹی لیٹرز کی کمی ہے جبکہ اسپتالوں میں اتنی گنجائش نہیں ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگوں کا علاج سڑکوں پر کرنا پڑے۔ ایسا وقت آنے سے پہلے ڈاکٹروں کی باتوں پر عمل کر لینا چاہئے۔ انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ حلقے ڈاکٹروں کی باتوں کو نہ صرف سیاسی رنگ دے رہے ہیں بلکہ ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور یہ الزام لگا رہے ہیں کہ ڈاکٹر حکومت سندھ کی ایما پر میڈیا میں آکر ایسی باتیں کہہ رہے ہیں کیونکہ حکومت سندھ سخت لاک ڈاؤن چاہتی ہے۔ اور بھی بہت سی باتیں کی جا رہی ہیں، جو شرمناک ہیں۔

جیسے عرض کیا کہ پوری انسانیت حالت جنگ میں ہے اور اس جنگ میں ہماری دفاعی لائن ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر ہیلتھ ورکر ہیں۔ جنگوں میں افواج کی ہر بات کو مانا جاتا ہے۔ کبھی بلیک آؤٹ کیا جاتا ہے، کبھی کرفیو نافذ ہوتا ہے، کبھی ہنگامی حالات میں لوگوں کے نقل و حمل پر پابندی لگتی ہے اور کبھی بنیادی حقوق معطل ہو جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہمیں فرنٹ لائن پر لڑنے والے اپنے ڈاکٹروں اور ہیلتھ ورکروں کی باتوں کو ماننا چاہئے، انکے ہاتھ میں بندوق نہیں ہے، ان کا پیشہ انسانوں کو قتل کرنا نہیں بلکہ انہیں بچانا ہے۔ ان کی اپیلوں اور درخواستوں پر احترام کے ساتھ عمل کرنا چاہئے۔ خاص طور پر ہمارے علماء کرام کو چاہئے کہ وہ ڈاکٹروں کی اپیلوں پر عمل کرائیں۔ اگر مساجد میں اجتماعات پر پابندی ہے تو اس کا ایک سبب ہے۔ مذاہب میں انسان کی خدمت کا جو درس دیا جاتا ہے، اسکا بہترین نمونہ اس وقت ڈاکٹر اور ہیلتھ ورکر پیش کر رہے ہیں۔ اگر ہم ان کے لئے امیتابھ بچن والی بات نہیں کر سکتے تو کم از کم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہمارے ہیرو اور فرشتہ صفت لوگ ہیں۔ اگر آج ہماری مساجد مکمل طور پر آباد نہیں تو یہی ڈاکٹر، نرسیں اور ہیلتھ ورکر ہیں، جو ایسی احتیاطی تدابیر کی درخواست کر رہے ہیں، جن سے کورونا کو شکست دی جا سکے اور پھر سے مساجد مکمل طور پر آباد کی جا سکیں۔