کورونا کے دوران حکومت اور اپوزیشن مل کر حکمت عملی بنائیں

May 07, 2020

کورونا وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ عالمی معیشت کساد بازاری کا شکار ہو گئی ہے۔ دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 35 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ اموات اڑھائی لاکھ سے زیادہ ہوگئی ہیں۔ پاکستان میں کیسز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں یہ تعداد 22ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

اموات تقریباً500 ہو گئی ہیں۔ یہ ایک عالمی بحران ہے جس نے پاکستان کو بھی اسی طرح متاثر کیا ہے جس طرح دنیا کے دیگر ممالک کو مگر فرق صرف یہ ہے کہ اتنے بڑے بحران کے باوجود بدقسمتی سے جس قومی اتحاد، یکجہتی اور مفاہمت وہم آہنگی کا تقاضا تھا وہ دور دور تک نظر نہیں آرہا بلکہ اس کی بجائے قومی سیاست وہی روایتی الزام تراشی اور بیان بازی کی زد میں ہے۔ اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ ہم 73سال میں بھی ایسی سیاسی قیادت تیار نہیں کرسکے جو ذاتی اور جماعتی مفادات پر ملکی اور قومی مفادات کو ترجیح دے۔

جو بالغ نظر اور بصیرت افروز ہو۔ بحران میں ایک جگہ بیٹھ کر ورکنگ ریلیشن شپ کا راستہ نکال سکے اور ملک وقوم کو بحران سے نکالنے کیلئے مشترکہ حل تجویز کرسکے۔ وقتی طور پر تیر اور کمان کو بغل میں واپس لے جائے۔ اگرچہ ملک میں قومی مفاہمت اور یکجہتی کی فضا قائم کرنے کیلئے پہل کرنا حکومت کی زیادہ ذمہ داری ہے لیکن اگر حکومت اس میںپہلو تہی کرے بھی تو اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ اعلیٰ ظرفی اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرلے۔ یہاں تو عوام پریشان ہیں کہ ایک جانب کورونا وائرس کا اتنا بڑا بحران ہے کہ جس نے زندگی مفلوج کرکے رکھ دی ہے۔ معیشت دبائو کا شکار ہے۔ لاکھوںلوگ بیروزگار ہو گئے ہیں۔

لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ کاروبار ٹھپ ہو گئے ہیں۔ گھروں سے جنازے اٹھ رہے ہیں۔ بیماری روز بروز پھیل رہی ہے مگر دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن پریس کانفرنسوں، بیانات اور ٹویٹ اور سوشل میڈیا مہم کے ذریعے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں۔ الزام تراشی کر رہے ہیں۔ کردار کشی کر رہے ہیں۔ یہ مایوس کن صورتحال ہے جو اس اعتبار سے مایوس کن اور خطرناک ہے کہ اس سے عوام کا سیاسی قیادت اور جمہوری اداروں سے اعتماد اٹھ جاتا ہے اور دوسری قوتوں کو مداخلت کیلئے سازگار ماحول مل جاتا ہے۔

جب بحران آیا تھا تو پہلی ذمہ داری وزیر اعظم عمرانخان کی بنتی تھی کہ وہ فوری طور پر آل پارٹیز کانفرنس بلاتے اور قومی سیاسی اور پارلیمانی قیادت کو اعتماد میںلیتے۔ ان کی مشاورت سے قومی لائحہ عمل یا حکمت عملی وضع کرتے بلکہ بنیادی نکات پر سب کے دستخط کراتے جس طرح صدر مملکت نے علمائے کرام کے ساتھ مشاورت سے 20نکاتی اعلامیہ تیار کرایا۔ یہ ذمہ داری بھی آئین کے تحت صدر مملکت کی نہیں بلکہ وزیر اعظم کی بنتی تھی مگر اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ اگر حکومت آگے بڑھ کر مشاورت کیلئے بلائے تو اس کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان ایک تو خود بنیادی طور پر کرکٹر ہیں۔ پھر وہ سماجی ورکر کے طور پر سامنے آئے اور 24سال پہلے وہ سیاست میں آگئے ۔

اس طرح ان کی سیاسی گرومنگ وہ نہیں ہے جو ان پختہ کار سیاستدانوں کی ہوتی ہے جو زمانہ طالب علمی میں سیاست کرتے ہیں۔ بلدیاتی سیاست میں حصہ لیتے ہیں اور پھر بتدریج صوبائی اور قومی سیاست میں آتے ہیں۔ دوسرا ایشو ان کے مزاج کا ہے کہ وہ خود پسند ہیں۔ طبعاً ضدی اور بے لچک ہیں جب وہ کوئی فیصلہ کرلیں تو اس پر اڑ جاتے ہیں اور ان سے فیصلہ تبدیل کرانا کوئی آسان کام نہیں بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔ وزیر اعظم چونکہ سیاسی میدان کے پختہ کھلاڑی نہیں ہیں اسلئے وہ مشیروں پر انحصار کرتے ہیں اور بدقسمتی سے ان کے گرد مشیروں کی اکثریت غیر سیاسی اور غیر منتخب لوگوں کی ہے ۔

یہی وجہ سے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کا اپوزیشن سے وہی رویہ ہے جو پہلے دن تھا اور پونے دو سال گزرنے کے باوجود حکومتی رویے میں کوئی لچک سامنے نہیں آئے اور ان کا خیال یہ ہے کہ اپوزیشن کے تعاون کے بغیر بھی حکومت چلائی جاسکتی ہے۔ یہی وہ غلطی ہے جو وزیر اعظم کر رہے ہیں۔ بےشک اپوزیشن کے بغیر حکومت تو چلائی جا سکتی ہے لیکن احسن طریقے سے نہیں چلائی جاسکتی ۔ اپوزیشن کے تعاون کے بغیر پارلیمنٹ کو نہیں چلایا جاسکتا۔ بحران سے نہیں نکلا جا سکتا اسلئے کہ بہر حال اپوزیشن کی جڑیں بھی عوام میں ہی ہوتی ہیں۔ وہ سیاسی جماعتیں ہیں ان کا اپنا ووٹ بنک ہے۔ وہ بھی حکومتی ممبران کی طرح ہی منتخب عوامی نمائندے ہیں۔ ان کے مینڈیٹ کا احترام لازم ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کو 342کے ایوان سے محض 176ووٹ ملے تھے تو کیا باقی 156ووٹوں یا ممبران کی کوئی سیاسی و پارلیمانی اہمیت نہیں ہے۔ یہ نکتہ اگر وزیر اعظم کو سمجھ میں آجائے تو گتھی سلجھ سکتی ہے۔ بہر حال اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے جہاں دیگر کاروبار زندگی متاثر ہوا ہے وہاں پارلیمانی سرگرمیاں بھی معطل ہیں۔ سینٹ اور قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں ہو سکا۔ اپوزیشن مطالبہ کر رہی ہے کہ سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس بلائے جائیں۔ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ہال میںسماجی فاصلہ برقرار رکھنا ممکن نہیں ہو گا اسلئے وڈیو لنک پر اجلاس بلایا جائے۔ وڈیو لنک کی پریکٹس اب وفاقی کابینہ کے اجلاس کے علاوہ قومی رابطہ کمیٹی اور قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس میں کامیابی سے چل رہی ہے لیکن اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں فزیکل موجودگی ضروری ہے۔ سینٹ کے چیئرمین نے توا سپیکر قومی اسمبلی کو خط بھی لکھ دیا ہے اسمبلی ہال اگر سینٹ کے اجلاس کیلئے دیدیا جائے تو چونکہ سینٹ کے ممبران کی تعداد کم ہوتی ہے اسلئے قومی اسمبلی کے ہال میں سینٹ کے اجلاس کا انعقاد ممکن ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر خود بھی کورونا وائرس کا شکار ہو گئے ہیں اور ان دنوں سیلف قرنطینہ میں ہیں تا وقتیکہ ان کا رزلٹ نیگیٹو آجا ئے۔ ان حالات میں بھی وفاقی حکومت اور سندھ حکومت نے ایک دوسرے کے خلاف توپیں کھولی ہوئی ہیں جن سے الزامات کی گولہ باری جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے تو وزیراعظم عمران خان سے عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عمرانخان ابھی تک کنٹینر سے نیچے نہیں اترے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اس فن میں مہارت رکھتی تھیں لیکن اب وہ بھی الزامات کی زد میں ہیں اور انہیں حکومت کی ترجمانی سے ہٹا دیا گیا ہے۔ جس سطح پر جاکر وہ الزام تراشی کرتی تھیں وہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔

وزیراعظم نے اپنی میڈیا ٹیم تبدیل کی ہے۔ وہ سنیٹر شبلی فراز کی صورت میں ایک صلح جو اور دھیمے مزاج کے وزیر اطلاعات کو سامنے لائے ہیں۔ انہوں نے بلاول بھٹو کو جواب دینے کیلئے ہنگامی پریس کانفرنس بلا کر منسوخ کردی اور محض ایک بیان جاری کرنے پر اتفاق کیا البتہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی کسر ڈاکٹر شہباز گل پوری کر رہے ہیں یا پھر پی ٹی آئی کراچی کی قیادت پیپلز پارٹی کو آڑے ہاتھوں لے رہی ہے۔ اس لڑائی میں وفاقی حکومت نے دانستہ 18ویں ترمیم کی بحث بھی چھیڑ دی ہے۔

پی ٹی آئی کے راہنما یہ ثابت کرنے میں مصروف ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کی وجہ سے صوبوں نے وفاق سے زیادہ وسائل تو لے لیے لیکن دس سال گزرنے کے باوجود صوبے ابھی تک اپنی استعداد کار کو اس سطح تک نہیں لے جاسکے کہ تعلیم، صحت، امن وامان اور دیگر صوبائی سبجیکٹس جو اٹھارویں ترمیم کے تحت انہیں منتقل کئے گئے ان پر خود قابو پاسکیں بلکہ اب بھی وفاقی حکومت سے امداد کا مطالبہ کیا جا رہا ہے حالانکہ وفاقی حکومت کے پاس وسائل محدود ہیں۔

بہرحال وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ 18ویں ترمیم پر نظرثانی کی جائے جو ظاہر ہے کہ دو تہائی اکثریت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی، اے این پی اور مسلم لیگ ن سمیت اپوزیشن جماعتوں کا موقف ہے کہ ایک طےشدہ مسئلہ کو بلا وجہ چھیڑا جا رہا ہے۔ صوبائی خود مختاری جو دیدی گئی ہے اسے واپس نہیں لیا جا سکتا۔ البتہ ذرائع کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ ن کو یہ دانہ ڈالا ہے کہ اگر وہ اٹھارویں ترمیم پر نظرثانی کیلئے تعاون کرے تو حکومت نیب ایکٹ میں ایسی ترامیم پر راضی ہو سکتی ہے جن سے ن لیگ کی قیادت کو فائدہ ہو جائے۔ نیب ترمیمی آرڈی ننس کی معیاد ختم ہو چکی ہے۔ حکومت کے پاس ایک آپشن یہ ہے کہ دوبارہ صدارتی آرڈی ننس لے آئے یا پھر دوسرا آپشن یہ ہے کہ اپوزیشن کی مشاورت سے متفقہ بل لایا جائے۔

پی ٹی آئی کے اندر سے بھی ایک گروپ یہ سمجھتا ہے کہ نیب ایکٹ میں ترامیم کی ضرورت ہے بالخصوص 90دن کا جسمانی ریمانڈ بلا جواز ہے۔ گرفتاری کیلئے چیئرمین نیب کا صوابدیدی اختیار بھی انصاف کے منافی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نیب کیسز کی سماعت کے دوران کئی بار یہ ابزرویشن دے چکی ہیں کہ تفتیش کے مرحلہ میں ٹھوس ثبوت کے بغیر ایسی صورت میں گرفتاری کا کوئی جواز نہیں جب ملزم تعاون کر رہا ہو۔ اپوزیشن کامطالبہ یہ ہے کہ نیب آرڈی ننس میں ترامیم اسلئے ضرروی ہیں کہ اسے حکومت انتقامی کارروائیوں کیلئے استعمال کر رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اپوزیشن اور حکومت نیب آرڈی ننس میں ترامیم کیلئے کسی ڈرافٹ پر متفق ہو جائیں گی یانہیں۔ وقت اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس امتیازی قانون میں ترامیم کی جائیں جیسا کہ عدالت عظمیٰ بھی ہدایت کرچکی ہے۔