نئے عہد کی نوید

May 08, 2020

وزیراعظم عمران خان نے اچانک اپنی میڈیا ٹیم تبدیل کر دی ہے جس کا ان دنوں بڑا چرچا ہے اور اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے بھی نئی ٹیم کا بڑی فراخدلی سے خیرمقدم کیا ہے۔ وہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی جگہ سینیٹر شبلی فراز کو وزارت کے منصب پر لے آئے ہیں جو سینیٹ میں قائد ایوان ہیں اور پی ٹی آئی کے ایک ’مہذب چہرے‘ کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ وہ ہمارے عہد کے مایہ ناز شاعر جناب احمد فراز (مرحوم) کے ہونہار صاحبزادے ہیں اور اپنی شائستگی اور علمی وجاہت کی بدولت قومی حلقوں میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ انہی کے ساتھ جناب وزیراعظم نے اپنے اعزازی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات کے لیے لیفٹیننٹ جنرل (ر)سلیم عاصم باجوہ کا انتخاب کیا ہے جو سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین ہیں اور وہ اس عہدے پر بھی فائز رہیں گے۔ ان کی شخصیت اس زمانے میں پاکستانی اور غیرملکی میڈیا میں بڑی ہر دلعزیز تھی جب وہ چار سال فوجی تعلقاتِ عامہ کے ڈائریکٹر جنرل رہے اور انہوں نے اپنی بے مثال صلاحیتوں سے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں اپنے لیے ایک مقام بنا لیا تھا۔ وہ تعلقات آج بھی قائم ہیں۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آئی ایس پی آر جو پہلے چند فوجی بیرکوں میں قائم تھا، اسے ایک عظیم الشان ادارے میں تبدیل کر دیا اور اپنی غیر معمولی پیشہ ور ذہانت سے جنرل راحیل شریف کی شخصیت میں عظمت کا رنگ بھر دیا تھا۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ بلند قامت شخصیتیں قومی حالات کی بہتری میں نہایت اہم کردار ادا کریں گی۔

آج کے ملکی حالات غیر معمولی نوعیت کے ہیں کہ ایک طرف کورونا وائرس نے پورا نظام زندگی درہم برہم کر ڈالا ہے، دوسری طرف معاشی چیلنج ایک خطرناک شکل اختیار کرتا جا رہا ہے جبکہ تیسری طرف ہندوتوا کے زیراثر بھارتی قیادت مقبوضہ کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے اور پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرنے کے بہانے تلاش کر رہی ہے۔ ہماری بہادر اور ایمانی طاقت سے سرشار مسلح افواج اپنے شرپسند ہمسائے کو چھٹی کا دودھ یاد دلانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں اور وہ ہنگامی حالات میں اپنے سول اداروں کو امداد فراہم کرنے پر بھی مامور ہیں مگر سول حکومتوں کے معاملات خاصے دگرگوں ہیں جن میں فوری طور پر بہتری لانے اور عوام کے دلوں میں امید کے چراغ فروزاں رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ آج ایک طرف حکومت اور اپوزیشن کے درمیان شدید محاذ آرائی جاری ہے جس کے باعث ٹھوس اور مستحکم قومی پالیسیوں کی تشکیل میں دشواری پیش آ رہی ہے، دوسری طرف وفاق اور صوبوں کے مابین اختیارات اور وسائل کی تقسیم اور استعمال پر بیان بازی زوروں پر ہے اور وفاق اور صوبہ سندھ کے درمیان تعلقات ایک طرح سے دشمنی کا تاثر دے رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کا موقف یہ ہے کہ لاک ڈاؤن طویل عرصے تک نافذ نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے لاکھوں دہاڑی دار مزدور بھوک سے مر جائیں گے اور معیشت ڈوب جائے گی۔ ہمارے انتہائی زیرک وزیر منصوبہ بندی جناب اسد عمر نے یہ انکشاف بھی کیاہے کہ ایک ڈیڑھ ماہ کے لاک ڈاؤن میں ایک کروڑ 80 لاکھ خاندان روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔

وفاق کے مؤقف کے برعکس سندھ حکومت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ کورونا وائرس کے اثرات کو محدود رکھنے کے لیے لاک ڈاؤن ناگزیر ہے کیونکہ ڈاکٹرز کمیونٹی بھی اسی بات پر اصرار کر رہی ہے۔ چین اور جنوبی کوریا نے یہی طریقہ اختیار کرتے ہوئے وائرس پر قابو پایا ہے۔ لاک ڈاؤن کے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لیے تمام حکومتوں، محکموں اور اداروں کو یکساں پالیسی اختیار کرنا ہو گی۔ اب نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن کی سطح پر اس امر کا فیصلہ ہونے والا ہے کہ 9مئی کے بعد لاک ڈاؤن مزید سخت کیا جائے یا اس میں نرمی لائی جائے تاکہ زندگی معمول کی سطح پر آجائے۔ اس مرحلے پر اطلاعات و نشریات سے وابستہ شخصیتیں عوام کے اندر آگہی اور ڈسپلن کے پیدا کرنے میں قائدانہ رول ادا کر سکتی ہیں ۔ جناب شبلی فراز چونکہ پاکستان کے ترجمان کی حیثیت سے فرنٹ لائن پر ہوں گے، اس لئے ان پر لازم آتا ہےکہ وہ سیاسی مفاہمت اور مکالمے کے کلچر کو فروغ دینے اور باہمی اعتماد اور انسانی احترام کو پروان چڑھانے پر توجہ مرکوز رکھیں ورنہ غیرسیاسی طاقتوں کو اپنی بالادستی قائم کرنے کے مواقع میسر آتے رہیں گے۔

حالات کی سنگینی کے باوجود یہ اچھی خبریں بھی آ رہی ہیں کہ چینی سائنسدان کورونا وائرس کی ویکسین دریافت کرنے پر شب و روز کام کر رہے ہیں اور انہوں نے پاکستانی سائنسدانوں کو بھی اس عمل میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایک تحقیقی ادارے نے کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ میں نئی نئی اختراعات کی ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے انٹرنیشنل کیمسٹری انسٹیٹیوٹ میں وائرس کی ماہیت کا سراغ لگانے کے لئے قابل قدر تجربات ہو رہے ہیں۔ پاکستانی کمپنیوں نے ایسے آلات بھی بڑے پیمانے پر تیار کرلئے ہیں جو کورونا وائرس کے سدِباب میں بڑے معاون ہیں۔ مصدقہ خبریہ بھی آئی ہے کہ ہم سینی ٹائزر برآمد کرنے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں اور ٹیسٹنگ کٹس بھی پاکستان میں تیار ہونے لگی ہیں۔ حفاظتی ملبوسات اور آلات پر بھی تجربات ہو رہے ہیں۔ برطانیہ میں پاکستانی نوجوانوں کے ایک گروپ نے یہ مژدہ سنایا ہے کہ پاکستان وینٹی لیٹرز کی پروڈکشن میں بھی خود کفیل ہونے والا ہے جو چند ماہ میں برآمد بھی کیے جا سکیں گے۔ ہماری قوم اگر ڈسپلن میں ڈھل جائے اور ہماری سیاست میں حقیقی جمہوریت پائیدار بنیادوں پر قائم ہو جائے تو ہم فرسودہ سماجی اور معاشی نظام کے کھنڈرات پر ایک شاندار مستقبل تعمیر کر سکتے ہیں۔ فاضل چیف جسٹس جناب گلزار احمد کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے کورونا وائرس کے معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ جھوٹی انا کے باعث وفاق اور صوبائی حکومتوں میں عدم تعاون کی فضا قائم ہے جسے ہم آہنگی میں تبدیل کرنے کی حددرجہ ضرورت ہے اور اگر یکساں پالیسی نہ اپنائی گئی تو ہم عبوری حکم نامہ جاری کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس کی نوبت آنے سے پہلے ہی سیاسی زعما کو تدبر، بالغ نظری اور اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دینا ہوگا۔ کرونا وائرس کے خاتمے کے بعد ایک نئی دنیا وجود میں آئے گی جس میں سرمائے سے زیادہ انسان کو کلیدی حیثیت حاصل ہوگی۔