اسلام اور حقوقِ نسواں

May 17, 2020

ویسے تومحسنِ انسانیت، نبی محترمﷺ کے احسانات پوری نوعِ انسانی ہی پر ہیں ، لیکن صنفِ نازک کو انہوں نے خاص طور پرایک نئی زندگی ، ایک اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا۔ یہ حقیقی مقام کیا ہے؟ آدم ؑ اور بی بی حواؑ کی تخلیق کے وقت ہی مرد اور عورت کی حیثیت کا تعیّن کر دیا گیا تھا کہ دونوں کی اصل اور بنیاد ایک ہی ہے ۔’’اے لوگو! اپنے ربّ سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں‘‘۔ (النساء، 1)یعنی اللہ پاک نے واضح کردیا کہ انسانیت کے شرف میں مرد اور عورت میں کوئی تخصیص نہیں ۔ ــــ’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے ،تاکہ تم ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزّت والا وہ ہے، جو زیادہ پرہیزگار ہےـ‘‘(سورۃ الحجرات، 13)۔جب کہ اس ہدایتِ ربّانی سے تحریف کرتے ہوئے یہودیت اور مسیحیت کے پیروکاروںنے عورت کو ازلی گناہ کا سرچشمہ، شیطان کا آلۂ کار اور معصیت کا دَر قرار دیا۔

دیگر مذاہب اور اقوام نے بھی اسے قابلِ فروخت اور کم تر ہی جانا اور بیش تر تمدّنی اور قانونی حقوق سے محروم رکھا۔ زمانۂ جاہلیت میں عورت کو حقیر ماناجاتا ، لڑکی کی پیدائش قابلِ تضحیک سمجھی جاتی۔ اُسے پیدا ہوتے ہی دفن کردیا جاتا تھا۔ لیکن حضور نبی کریم ﷺ نے اللہ کے حکم سے اُسے اس کی کھوئی ہوئی حیثیت ، مقام واپس دیا۔ باعزّت طور پر زندہ رہنا سکھایا۔اسلام نے تو عورت کا مقام بلند کرنے کے لیے، ماں کے قدموں تلے جنّت ہی رکھ دی کہ لوگ اسے عزّت و احترام کی نگاہ سے دیکھیں، اس کی دل آزاری نہ کریں۔مرد کو اس کا محافظ بنایا، پردے کی صُورت اسے عزّت عطا کی۔گلی گلی، مارا مارا پِھرنے والی نہیں، گھر کی ملکہ بن کے رہنے کا حکم دیا۔مگر افسوس کہ ہم نے مَردوں کی برابری کے چکّر میں عورتوں کو مرد کا حریف بنا دیا، بینرز پکڑواکر سڑکوں پر لا کھڑا کیا۔

آج صنفی مساوات کے نام پراسلام میں عورت کے تعیّن کردہ مقام کو نشانۂ تنقید بنایا جاتاہے۔ غیر تو غیر ،ہم کلمہ گو، آخرت پر ایمان رکھنے والے بھی اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ حضرت محمّد ﷺنے 7 ویں صدی عیسوی میں عورت کو وہ تمام معاشرتی و تمدّنی حقوق عطا کر دئیے تھے، جو مغرب کی عورت کو 18ویںصدی عیسوی میں انتہائی جد ّو جہد کے بعد بھی حاصل نہ ہو سکے۔ 14ویںصدی عیسوی میں مغرب میں عورت کو روح کے بغیر وجو د تصوّر کیا جاتا رہا۔ 1400ءسے 1700ء تک لاکھوں عورتوں کو چڑیل قرار دے کر زندہ جلایا جاتا تھا۔ جب کہ اس سے 800سال قبل رسالتِ مآب ﷺ نے اللہ پاک کے احکامات کی روشنی میں عورت کو کن رفعتوں سے ہم کنارفرمایا، یہ فرموداتِ رسول ﷺسے صاف عیاں ہے۔’’ آہستہ اونٹ دوڑائو،یہ نازک آب گینے ہیں‘‘ (بخاری شریف،کتاب المنا قب)۔ ’’لوگو! عورتوں کے حقوق کے بارے میں اللہ سے ڈرو‘‘ (بخاری شریف، خطبۂ جحتہ الوداع)۔’’لوگو ! اللہ نے تم پر حرام کی ہے مائوں کی نافرمانی اور لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا‘‘ (بخاری شریف، کتاب النکاح)۔بیوی کے وقار اور اس کی منزلت کو بامِ عروج تک پہنچانے کے لیے اس کے ساتھ حسنِ سلوک اور دل جوئی کو ایک شوہر کی خوبی اور شرافت کا معیار قرار دیا۔ آپ ﷺ نےفرمایا ’’تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے، جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اچھا ہے اور مَیں تم میں سے سب سے زیادہ اپنے اہلِ خانہ کے لیے اچھا ہوں‘‘ (ابنِ ماجہ) ایک اور جگہ فرمایا ’’دنیا ساری کی ساری متاع ہے اور اس کی سب سے بہتر متاع صالح عورت ہے‘‘۔ (مسلم، کتاب النکاح)۔

آج اسلام کے نظام وَراثت میں عورت کے لیے مقرّر کر دہ حصّے پر تنقید کرنے والوں کو شاید یہ یاد نہیں کہ 18ویں صدی تک مغربی دُنیا عورت کے حقِ ملکیت اور حقِ وَراثت سے ناآشنا تھی۔اسلام نے نہ صرف باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کو اس کی کفالت کا ذمّے دار ٹھہرایا، بلکہ اسے بھر پور عزّت و تکریم دینے کا بھی حکم دیا۔16 ویں اور 17ویںصدی عیسوی میں یورپ کی عورت ڈگری کے حصول کا حق طلب کر رہی تھی ، لیکن اس سے کئی سو سال پہلےآپ ﷺ کے وصال کے بعد آپ کی تعلیمات سے منوّر حضرتِ عائشہ صدّیقہؓ ،جلیل القدر صحابہ کرام ؓکو قرآن و حدیث کی تعلیمات دیا کرتی تھیں ۔ اس کے بعد آنے والے ادوار میں خواتین علماء مدینہ، عراق، کوفہ، بصرہ اور دیگر علاقوں میں قرآن اور حدیث کی تعلیمات سے ہزاروں افراد کے دل و دماغ منوّر کرتی رہیں۔آج 21ویں صدی میں’’ Girl Child ‘‘کے مفاد کو پہلے’’ Beijing plat form for action (BPA)‘‘پھر ’’Millennium Dev. Goals (MDGs) اور Sustainable Dev. Goals (SDGs) ‘‘میں اہم مقام دیا گیا، مگرآپ ﷺ نے تو کئی سو سال قبل فرمایا ’’جس شخص کی لڑکی ہو ، وہ اسے زندہ درگور نہ کرے، نہ اس سے حقارت آمیز سلوک کرے ،نہ اپنے لڑکے کو اس پر ترجیح دے،تواللہ اسے جنت میں داخل کرے گا‘‘(ابو دائود، کتاب الادب)۔

ایک اور جگہ فرمایا ’’جس شحص کی تین لڑکیاں ہوں اور وہ ان کو علم و ادب سکھائے ، ان کی پرورش کرے اور ان پرمہر بانی کرے، تو اس کے لیے ضرور جنّت واجب ہو جاتی ہے ‘‘ (صحیح بخاری)۔یہ اسلام ہی ہے، جس نےوالدین کو بحیثیت ولی لڑکیوں کے ہم پلّہ رشتوں کی تلاش کا ذمّے دار ٹھہرایا اور شادی میں لڑکی کی رضامندی کو نکاح کے انعقاد کی لازمی شرط قرار دیا۔ آپﷺ نے خود ایک ایسی لڑکی کو، جس کے والدین نے اُس کی رضا کے برخلاف نکاح کر دیا تھا، حق دیا کہ وہ چاہے تو اس نکاح کو منسوخ کروا دے۔

نیز ،ظالم ،ناکارہ، نا پسندیدہ شوہر کے مقابلے میں عورت کو خلع اور فسخِ نکاح کے وسیع اختیارت دئیے اور مطلقہ اور بیوہ کو دوسری شادی کی اجازت دی۔ معاشرے میں عورت کی جان، مال اور آبرو کو تحفّظ عطا کیا۔ عورت کے کردار پر بہتان لگانے والے کو قذف کا مرتکب ٹھہرایا۔ ریاست کے معاملات میں خواتین کی رائے، مشورے کو نہ صرف اہمیت دی ،بلکہ مر د کی طرح اسے معاشرتی تعمیر و ترقی کا ذمّے دار بھی ٹھہرایا ۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ اسی ذمّے داری کی تائید کرتاہے۔ خواتین کے حقوق کو متعین کر کے افراد اور ذمّے داران پر نہیں چھوڑ دیا گیا ، ان کے تحفّظ کی ضمانت کے لیے انہیں اللہ کی خوشنودی حلّت و حرمت، گناہوں کی مغفرت، جنّت کےحصول اور آتشِ دوزخ سے نجات کے ساتھ وابستہ کر دیا ، تاکہ اس کام میں کوئی کوتاہی نہ برتے۔

ذراغور توکیجیے ،کیا قانونی گواہی ، جہاد اور قتال فی سبیل اللہ سے رخصت، عورت کے خلاف امتیازات ہیںیا احسانات…؟؟آج حضور ﷺ کی تعلیمات کی یاددہانی کے موقعے پر یہ غور کرنا بھی ضروری ہے کہ کیا ازواجِ مطہرات ،جو تمام اُمّت کی مائیں قرار پائیں اور بناتِ رسولﷺ ،جنہوں نے آپ ﷺ کی آغوش میں تربیت پائی۔ ہمارے لیے نمونۂ عمل نہیں ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہمارے اعمال ظاہروباطن، فکروں،آرزئوں، چاہتوں میںامہات المومنین اور بنات رسولﷺ کی ذرا بھی مماثلت ہے؟ آئیے، آج ہم غور کریں کہ وہ اسوہ کیا ہے؟ ازواجِ رسولﷺ اور بنات ِرسولﷺ کا نمونۂ عبدیت کیا تھا؟ انفاق فی سبیل اللہ میں ان کا طرز ِعمل کیسا تھا؟

دین کے احکام سمجھنے اور سکھانے کے لیے ان کی جدّ و جہد کیا تھی؟ اپنے شوہر سے محبت، وابستگی اور ایثار و قربانی کے جذبات کیسے تھے؟ حیا اور اخلاقِ فاضلہ میں ان کے کردار کیسے رچے بسے تھے؟ تربیتِ اولاد میں امام حسینؓ اور امام حسن ؓکے سانچے کیسے ڈھلے تھے۔ آج اگر پاکستان میں یا کسی اسلامی معاشرے میں عورت کو وہ حقوق حاصل نہیں ،جو نبی مہربان ﷺنے متعین کیے ،تو اس کے لیے قصور وار اسلام اور اس کی تعلیمات نہیں،یہ قصور بھی ہمارا ہے اور ان حقوق کے تحفّظ کی ذمّے داری بھی ہماری ہی ہے۔ حضرت محمّدﷺ قیامت تک کے لیےہدایت اور روشنی کا منبع ہیں۔ آپﷺ کی تعلیمات کسی خاص وقت، ماحول اور علاقے کے لیے مخصوص نہیں تھیں۔ اس لیے زندگی کے ہر میدان کی طرح خواتین کا مقام ومرتبہ، ان کے حقوق کی فراہمی، فرائض کی ادائیگی اور تعلقات کی بنیادیں، تعلیماتِ قرآنی اور اسوہ نبویؐ کی روشنی میں وہی رہیں گی،جو ان کے دَور میں تھیں۔

ہر دَور میں ہمیں اپنے رویّوں اور کردار کو اپنی ا س کسوٹی پر پرکھنا ہو گا۔ آج ہمیں مغرب کی تقلیدِ محض سے بچنا ہے، تو دَورِ جا ہلیت کی خُوبُو کو بھی خود سے دُور کرنا ہو گا۔ حقِ زندگی کے ساتھ معاشرے کی ہر سطح پر اس کی عزت و ناموس کو تحفّظ عطا کرنا ہو گا۔ فریضۂ تعلیم کے حصول میں اس کی مدد کرنا ہو گی۔ اس کے حقِ کفالت کو حد درجہ یقینی بنانا ہو گا۔ شادی میں اس کی رضامندی کا حق اس کو لوٹانا ہو گا۔ وَراثت کا حصّہ اسے بخوشی ، از خود دینے کا حوصلہ پیدا کرنا ہو گا۔ اس پر ہر قسم کے گھریلو اور معاشرتی تشدّد کی روک تھام کرنا ہو گی۔ اس کے گھر کی نگہبانی کے کردار کو اہم گرداننا ہو گا اور اسے یہ قابل ِفخر احساس دینا ہو گا کہ وہ اپنی ذہنی، علمی اور معاشرتی سرگرمیوں کے باعث اپنے گھر اور معاشرے کا اہم فرد ہے ،جس کی بقا اور ترقّی ہی میں گھر اور معاشرے کا استحکام مضمر ہے۔

دوسری طرف خواتین کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے گھروں، شوہروں کے مال، اپنی عزّت کی حفاظت کریں۔ بچّوں کی تربیت کے لیے احساسِ جواب دہی اور ذمّے داری سے کام لینا ہو گا۔ صفت ِحیا کو مقدّم رکھتے ہوئے لباس و انداز میں شائستگی اختیار کرنا ہو گی۔ اپنے گھروں کے گرد،اپنی دینی اقدار کی حفاظت کاحصار باندھنا ہو گا۔ باطل مغر بی افکار اور اطوار کو رَ د کرتے ہوئے اپنی مسلم شناخت پر احساسِ تفاخر پیدا کرنا ہو گا۔ دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے سے بہتر اور انسانیت کے لیے نفع بخش انسان معاشرے کو دے کر جانا ہوںگے۔تو آئیے، ا پنے لیے دُعا کریں کہ جب حضرت ِفاطمہ الزہرہؓ اہلِ جنّت کی عورتوں کی قیادت کرتے ہوئے جنّت میں داخل ہوں، تو ہم بھی ان کے قافلے میں آگے نہ سہی، پیچھے تو موجود ہی ہوں۔آمین۔

(مضمون نگار دعوہ مرکز برائے خواتین، دعوہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونی وَرسٹی،اسلام آباد کی سربراہ ہیں)