صحیح راستہ

May 10, 2020

خدیجہ بنتِ عزمی

رمیز اور اس کے ساتھیوں نے اس دفعہ رمضان کی تیاریوں میں بھرپور حصہ لینے کا عزم کیا۔ کوئی کچھ کہہ رہا تھا، تو کوئی کچھ، اسی اثناء میں اشعر یک دم جوش میں آکر بولا۔

’’میں اس دفعہ سب کی اپنے گھر پر دعوت کروں‘‘۔

’’ تم! سب کی دعوت کیسے کرو گے؟؟ کیا قارون کا خزانہ تمہارے ہاتھ لگ گیا ہے؟ اپنے کھانے کے لیے تو تمہارے پاس کچھ ہوتا نہیں ہے‘۔‘ معیز جو اس جماعت کا شرارتی بچہ تھا بولا۔معیز کی بات پر رمیزکے علاوہ سب نے قہقہہ لگایا۔اشعر معیز کی بات پر دل مسوس کر رہ گیا۔

گھر آکر اشعر نے اپنی امی کے پوچھنے پر جب اپنی پریشانی بتائی تو انہوں نے اسے صبر کرنے اور دوسروں کو معاف کردینے کی تلقین کی۔ اس کے والد کا انتقال ہوچکا تھا۔ اشعر اس مہنگے اسکول میں کچھ اپنی ذہانت اور پرنسپل کے تعاون کے باعث پڑھ رہا تھا۔ ورنہ اس کی والدہ کے پاس اتنے وسائل نہ تھے کہ وہ اسے اتنے مہنگے اسکول میں پڑھا پاتیں۔

رمیز عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر اپنی دادی کے بستر پر ہی نیم دراز ہوگیا کیونکہ وہ آج اپنی دادی سے اہم موضوع پر بات کرنا چاہتا تھا۔’’دادی جان! ہر کوئی رمضان کی تیاریوں میں مصروف ہے، ہم سب دوستوں نے سوچا ہےکہ کیوں نہ اس دفعہ ہم بھی رمضان کی تیاریوں میں حصہ لیں۔ لیکن ہمیں سمجھ نہیں آرہا ہم کیا تیاری کریں‘‘۔ اس نے اپنا مدعا بیان کیا۔

’’ارے بس! اتنی سی با ت ،میں بتاتی ہوں آپ لوگوں کو اس رمضان میں کیا کرنا چاہیے‘‘۔ دادی بولیں۔تمہیں اور تمہارے دوستوں کو چاہیے کہ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل پیرا ہوں۔ یہی سب سے بڑا کام ہے‘‘۔

’’وہ کیسے دادی جان! رمیزجلدی سے بولا۔

’’مثلاً آپ لوگوں کو چاہیے کہ اس رمضان میں خود سے عہد کرو کہ پانچ وقت کی نماز پڑھو گے، جھوٹ نہیں بولو گے، کسی کا دل نہیں دکھائو گے، والدین کا حکم مانو گے، اور کسی کی بھی غیبت اور چغلی سے پرہیز کرو گےاور سب سے اہم بات حقوق اللہ اور حقوق العباد کو احسن طریقے سے پورا کرو گےاور جانتے ہو اللہ نے اپنے حقوق سے زیادہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے پر زور دیا ہے‘‘۔ دادی نے رمیز کو گہری سوچ میں ڈوبا پایا تو پوچھا ’’کیا ہوا بیٹا…؟؟؟‘‘

رمیز نے صبح اشعر کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے رویے کو بیان کیا۔ جس پر دادی بہت ناراض ہوئیں اور کہا،’’جانتے ہو بیٹا غلط بات پر خاموش رہنے والا خود بہت بڑا گناہ گار ہوتا ہے، تمہیں سب کو منع کرنا چاہیے تھا اور جو میں نے تمہیں حقوق العباد بتائے ہیں، ان میں یہ بھی ہے کہ کسی کا دل نہ دکھایا جائے‘‘۔

جی دادی جان میں شرمندہ ہوں اور اب اس کی تلافی کرنا چاہتا ہوں۔

میرے پاس اشعر کو منانے کا بہترین آئیڈیا ہے‘‘۔ وہ بولیں۔

’’سچ دادی جان! وہ خوش ہوگیا‘‘۔

ان سب دوستوں نے دادی کے ساتھ ان کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کا عہد کیا اور ان کے آئیڈیا پر بھی عمل کیا۔

سب نے اپنی اپنی پسند کے کھانے بنوائے اور اپنی ڈشز لے کر اشعر کے گھر کے باہر کھڑے ہوگئے۔ رمیز نے دروازہ کھٹکھٹایا۔

اشعر نے دروازہ کھولا اور اپنے تمام دوستوں کو گھر کے باہر دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ تب ہی معیز نے بات شروع کی،’’اشعر ہمیں معاف کردو‘ ہم بہت شرمندہ ہیں، اس لیے ہم نے سوچا آج افطاری تمہارے ساتھ کی جائے‘‘۔

’’کوئی بات نہیں، میں آپ لوگوں سے ناراض نہیں ہوں‘‘ وہ خوش ہو کر بولا۔’’لیکن میں نے اس دعوت کے لیے کوئی تیاری نہیں کی‘‘۔اس نے پریشان ہوکر کہا۔

’’ارے ہم کھجور اور شربت لانا تو بھول ہی گئے‘‘، رمیزیک دم یاد آنے پر بولا۔ ان سب دوستوں نے سوچا تھا کہ وہ اشعر کو زیادہ پریشان نہیں کریں گے، اس لیے دو چیزیں اس کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

’’ارے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، امی نے بہت مزے کا شربت بنایا ہے اور کھجور بھی ہیں، آئو سب مل کر روزہ افطار کریں‘‘۔ اشعر بہت خوش تھا کہ اس کے پاس بھی اس دعوت کے لیے کچھ ہے۔

اشعر کی امی بچوں کی آمد پر بہت خوش ہوئیں۔ سب نے اپنی اپنی ڈشز دستر خوان پر سجائی اور اللہ سے اپنے اچھے اور نیک عمل کرنے کی دعا کی اور مل کر روزہ افطار کیا۔ سب نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے برے وقت ان سب کو صحیح راستہ دکھادیا اور خود سے وعدہ کیا کہ وہ اپنی وجہ سے کبھی کسی کو پریشان نہیں کریں گے۔