کائنات پھیلنے کی رفتار کے بارے میں جدید تحقیق

May 11, 2020

جدید طبیعیات کے اصولوں کے مطابق تو ہماری کائنات کو’’ہم اطرافی‘‘ ہونا چاہیے ،کیوں کہ چودہ ارب سال پہلے بگ بینگ کے عظیم دھماکہ کے بعد نوری سال کی پیمائش کے مطابق اپنی تمام اطراف میں ہموار اور یکساںہونا چاہیے۔ایک نوری سال وہ پیمانہ ہے، جس میں روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار سال فی سیکنڈ کی رفتارکے حساب سے ایک سال میں سفر کرتی ہے،کیوں کہ کائنات اس دھماکہ کے بعد مسلسل تمام اطراف میں پھیلتی رہی ہے۔ اس لیے اُمید کی جاتی ہے کہ اس کو اپنے تمام اطراف میں یکساں طور پر پھیلنا چاہیے۔ اوراگر دھماکے کے بعد ہونے والی افلاک کی چمک کو کا سمک مائیکرو ویو بیک گراؤنڈ میں دیکھا جائے تو یہ آ سمان میں ہر طرف یکساں اور ہموار ہی نظر آتی ہے۔

جو بظاہر سائنسی اصول کی مطابقت میں نظر آتی ہے۔ لیکن ایکسرے کے سروے میںجب دوردراز کہکشائوں کے جھرمٹوں کا جائزہ لیا گیا تو کسی جگہ پرتو وہ اندازہ سے زیادہ دور نظر آئی اور کسی مقام پر وہ اندازہ سے زیادہ قریب ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کے پھیلنے کی رفتار کسی مقام پر زیادہ تیز تھی اور کہیں پر یہ رفتار انتہائی کم تھی۔

کائنات کی اس ممکنہ غیر اطرافی کا ثبوت ایک انٹر نیشنل ٹیم نے حاصل کیا تھا ،جس کی قیادت یونیورسٹی آف بون کے ماہر فلکیات کونسٹنٹائن میکاس کر رہے تھے،جس کی بنیاد 850 کہکشائوںکا حاصل کردہ وہ ڈیٹا ہے جوناسا کی چندرا ایکسرےاوبزرویٹری اور یورپینXMM نیوٹن سیٹلائٹ کے علاوہ جاپان کے ایڈوانسڈ سیٹلائٹ فار کاسمولاجی اینڈ ایسٹرو فزکس کے ذریعہ حا صل کیا گیا تھا۔اس جائزہ میں کہکشائوں کے جھرمٹ کو ایک لائٹ ہائوس کی طرح سمجھاگیا ہے اور ان کی روشنی کی زیادہ چمک اور کمی سے ان کے درمیان فاصلوں کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ اور کسی جھرمٹ سے نکلنے والی گیس اور ایکسریز کی مقدار سے ان کا درجہ ٔ حرارت معلوم کیا سکتا ہے۔

اس طرح جھرمٹ کی ایکسریز کی چمک کی پیمائش سے سائنسداں اس کا فاصلہ معلوم کرنے کے قابل ہوگئے۔اس طرح وہ ہر ایک جھرمٹ کی چمک کیلکولیٹ کرکے ایک اور تیکنیک سے کائنات کے پھیلنے کی رفتار معلوم کرنے کے قابل ہوگئے ہیں۔پھر دو آزادجھرمٹوں کی چمک کی قدر(value) کے مقابلے سے میکاس اور ان کے ساتھی پورے آسمان میں مختلف جگہوں پر کائنات کے پھیلنے کی رفتار میں تفریق کا پتہ چلانے میں کامیاب ہوگئے۔ چناں چہ وہ دو جھرمٹ جو30 فی صد زیادہ چمکدار یا مدھم تھےوہ یا تو بہت زیادہ قریب تھے یا بہت زیادہ دورتھے ۔

ماہرین کے مطابق ہم ایک ایسے پوائنٹ کی نشان دہی کرنے کے قابل ہوگئے تھے ،جس کے پھیلنے کی رفتار باقی کائنات کے مقابلے میںانتہائی سست تھی اور ایک ایسا مقام بھی دریافت ہوگیا تھاجہاںکائنات کے پھیلنے کی رفتار انتہائی سریع نظر آتی تھی۔ میکاس کے مطابق اسی طرح کے دوسرے جائزے بھی آپٹیکل سپر نووا،اور انفراریڈ کہکشائوں کے کئے گئے تھے جن میں ان ہی مقامات پر اسی طرح کی ناہمواری کی نشاندہی ہوئی تھی۔ جب کہ اسی طرح کے کچھ دوسرے جائزوں میں کسی ناہمواری کا پتہ نہیں چلتا ہے۔چناں چہ ابھی یہ معاملہ غیر واضح ہے ۔

لہٰذا ابھی اس کی بابت کوئی مباحثہ نہیں کرتے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں ۔حقیقت تو یہ ہے کہ کائنات کی ناہمواری طبیعیات کے ستونوں کو ہلادے گی، جس کا تقاضہ ہوگا کہ کائنات کے ارتقا کی بابت ہماری موجودہ فکر کو بدلا جائے۔مشیگن اسٹیٹ یونیورسٹی کی آسٹروفزسٹ میگن ڈونا کے مطابق اگرحقیقتاً کائنات کا پھیلائو مختلف اطراف میںمختلف ہے تو اس سے علم کائنات کا مجوزہ نظریہ کہ کائنات کے کافی بڑے علاقے میں اس کاپھیلائو یکساںتھا،اس تصور میں توایک شکن پیدا ہوجاتی ہے۔

ایک ناہموار کائنات تو حیرت انگیز افسردہ کرنے والی ہوگی، کیوں کہ یہ اس بات کااظہار ہوگا کہ در اصل کائنات کی ساخت اور ارتقا کی بابت ہمارا ادراک بڑے پیمانے پر مستقل طور پر نامکمل ہے۔اس چیز کو تسلیم کرنے کے لیےہمیں مکمل ہمواری کوکیوبک میٹر(حجم )میں سمجھنا ہوگا،جس کےلئے علم کائنات کے ماہرین کو ڈارک انرجی کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا۔ جو پر اسرارقوت کائنات کے پھیلائو کو تیز کرتی ہے۔ شاید کائنات کے پھیلائوکے کسی زما نہ کے درمیان کیوبک میٹر میںابتدائی کائنات کی تصویر اور بعدکی کائنات کی تصویر کے گزرے ہوئے چند اربوں سالوں کے درمیان ڈارک انرجی کے اثرات کے اضافے سے چنیدہ حصوں میںکائنات کے غیرہموار پھیلائو نے ناہموار کائنات تخلیق کردی ہے۔

بون یونیورسٹی کے تھامس ریپریش کا کہنا ہے کہ اگر کائنات کے مختلف حصوں میں ڈارک انرجی کی مختلف قوت دریافت ہوجائے۔تو اس کو رد کرنے کے لیےبہت سی دوسری توجیہات پیش کرنی پڑے گی، تا کہ بادی النظر میں معقول کیس نظر آئے۔اس کے متبادل کے طور پر یہ بھی ممکن ہے کہ کائنات بالکل بھی ناہموار نہ ہو ،کیوں کہ کہکشائوںکے جھرمٹ کی غیر واضح تصاویرکشش ثقل کےبڑے بہائوکی گرفت میں آکر اپنی اصل جگہ سے ہٹ کر بہت دور اور بہت بڑی کہکشائوں کے جھرمٹ میں نظر آتی ہوں، جس طرح کشتیاں دریائوں کے تیز دھاروں کے درمیان تیزی سے بہتی ہیں۔ لیکن علم کائنات کے ماہرین کی اکثریت بہت بڑی پیمائش میں آسمان کے بڑے حصے پرجائزے میں بڑے بہائو کی اُمید نہیں کرتے جو پیمائش پانچ سال کے برابر بنتی ہے ۔گو کہ ایسا بڑے بہائو کی وجہ سے بھی ممکن ہے اور پھر تو یہ بہت ضروری ہوگا ،کیوں کہ زیادہ تر جائزوں میںاس کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔جان ہاپکن یونیورسٹی کے ماہر فلکیات آدم ریس کے مطابق کہکشائوں کے جھرمٹ کے جائزوں کے نتائج قابل قبول نہیں ہیں ۔مختلف تحقیق کاروں نے مختلف تیکنیک استعمال کرتے ہوئے الگ الگ پیمائش اور نتائج حاصل کیے ہیں۔ان تفریقات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہکشائوں کے جھرمٹ کے ایکسرے درجہ ٔ حرارت اور ان کی چمک اتنی واضح نہیں جتنی ہونی چاہیے ۔

ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ اس کے مقابلے میںہماری اپنی کہکشاں (ملکی وے )میں بھری ہوئی گیس اور غبار ماہرین کائنات کے مناظر افلاکو مدھم اور غیر واضح کردیتے ہیں ۔علاوہ ازیں میکاس اور ان کی ٹیم نے جس فلکیاتی ناہمواری کی نشان دہی کی ہے وہ ملکی وے کی سر حد ہے ۔جہاں جہاںکہکشاں کی ایکسریز کوجذب کرنے والی گیس اور غبار سب سے زیادہ گاڑھا ہے۔ریس کا کہنا ہے کہ وہ کائنات کی عجیب طرف کی بابت بتارہے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے وہ ہمارا بلائنڈ اسپاٹ ہے جو اس کو مشکوک کرتی ہے۔پرنسٹن یونیورسٹی کے کاسمولوجسٹ اور نیو یارک سٹی کے فلیٹرون انسٹیٹیوٹ کے ڈیوڈا سپیگل کے مطابق ہوسکتا ہے کہ جھرمٹوں کی پیمائش میںکچھ خامیاں ہوں، کیونکہ بہت سی دوسری پیمائشیں بنیادی طور پر مختلف نتائج ظاہر کرتی ہیں، کیوں کہ ہمارے دوسرے بہت سے ہم اطرافی ٹیسٹ ہیں جو انتہائی درست ہیں اور جو کیوبک میٹر اور بہت بڑی پیمائش کے اسٹرکچر کے جائزوں میں نظر آتے ہیں۔ یہ جائزے آسان اور سادہ ہیں جو کئی طرح سے عمل میں لائے گئے ہیں

ماہرین کے مطابق اس نئے جائزے میں اتنی بڑی پیمائش میں ہم اطرافی بتائی گئی ہے کہ کیوبک میٹر میں اتنا اتار چڑھائو پیدا کرے گا جو ایک ہزار گنا زیادہ اس سے چمکدار ہوگا جو ماہرین فلکیات مطالعہ کریں گے۔

ناہموار کائنات کے حتمی فیصلہ کے لیے مزید شہادتیں درکار ہیں جو زیادہ بڑ ی پیمائش اور بڑے پیمانہ پر تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آئیں۔ اب وہ اپنی کہکشائوں کے جھرمٹ کی ایکسریز کی بنیاد پرناہموار کائنات کے جائزےکوا نفرا ریڈ کے مطالعہ سےماہرین اپنی تحقیق کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ حتمی نتائج تو نئی خلائی دوربینوں سے حاصل ہوں گے۔ جن میں جرمنی اور روس کی مشترکہ روزیٹا ایکسریز آبیزر ویٹری اوریورپی اسپیس ایجنسی کا مشن اقلیدس شامل ہیں۔ یہ دونوں بڑے پیمانے پر اور زیادہ گہرائی میں جاکرتمام آسمان میں بکھرے جھرمٹوں کاسروے کریں گے جو فیصلہ کن ہوں گے۔