مستقبل کی زمین کیسی ہوگی؟

May 11, 2020

حذیقہ احمد

سائنس داں دنیا بھرمیں بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ اور درجہ ٔ حرارت کے حوالےسے ماضی میں متعدد انکشافات کر چکے ہیں اور ابھی بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق 2016ء میں دنیا بھر کا وسط درجۂ حرارت صنعتی عہد سے پہلے کے درجۂ حرارت کے مقابلے میں 1.2 ڈگری زیادہ رہا ہے اوراسی وجہ سے ہم بہت تیزی سے 1.5 ڈگری درجۂ حرارت کے اس ہدف کے قریب پہنچ گئے، جہاں پہنچنے کی اُمید 21ویں صدی کے آخری میں تھی،تا کہ گلوبل وارمنگ کے اثرات کو کم کیا جاسکے۔ناسا کے اسپیس اسٹیڈیز کے ڈائریکٹر گیون اسکمیڈٹ کے مطابق عالمی سطح پر گرمی میں اضافہ کم ہی نہیں ہورہا جب کہ لگتا ہے کہ ہر چیز نظام کو بھوننے میں لگی ہوئی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے وقتو ں میںکسی طرح زہریلی گیسوں کا اخراج صفر تک پہنچ جائے تو بھی انسانوں کے باعث آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں کا عمل صدیوں تک جاری رہے گا اور ہم یہ جانتے ہیں کہ زہریلی گیسوں کا اخراج کبھی بھی رک نہیں سکتا۔سائنس دانوں کے مطابق ہماری کوشش ہے کہ ان حالات کو سست کرکے کسی حد تک ان مشکلات کو کم کرلیں ۔

شاید ان سب حالات کو تسلیم کرنا ہم سب کےلیے تھوڑا مشکل ہو لیکن اگر اس طرح کے حالات بر قرار رہے تواگلے 100 سالوں میں دنیا کا جو حال ہو گا ،ہم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ماہرین کے مطابق طویل المعیاد مقصد کے طور پر درجۂ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنا ناممکن ہے اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس بات کا یقین ہے کہ 2030 ءتک ہم اس طے کردہ ہدف کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جائیں گے،تاہم ماہرین اس حوالے سے پراُمید ہیں کہ صنعتی عہد سے قبل کے مقابلے میں اب 2 ڈگری سینٹی گریڈ درجۂ حرارت میں اضافے پر پہنچنے کے بعد اسے وہاں روکا جاسکتا ہے، مگر یہ وہ ہدف ہے، جس کے بارے میں اقوام متحدہ کو توقع ہے کہ ایسا نہیں ہوگااور اگر ہم اس وقت ان دونوں اہداف کے درمیان کہیں رک جاتے ہیں، تو اس صدی کے اختتام پر اس بات کا یقین ہے کہ دنیا کا اوسط درجہ حرارت موجودہ دور کے مقابلے میں 3 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جائے گا،مگر صرف درجۂ حرارت میں اضافہ ہی موسمیاتی تبدیلیوں کا صحیح منظر پیش نہیں کرتا، بلکہ کسی علاقے میں معمول کا درجۂ حرارت بہت تیزی سے اوپر نیچے ہوکر وہاں کے ماحول کی تباہی کا باعث بن جائے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات کے نتیجے میں سمندروں میں برف کی تہہ کم ہونا معمول بن جائے گا، 2050 تک موسم گرما میں گرین لینڈ سے برف کا صفایا ہونا بھی عام ہوجائے گا، جب گرین لینڈ کی 97 فی صد برف کی تہہ گرمیوں میں پگھل گئی تھی، ایسا عام طور پر ایک صدی میں ایک بار ہوتا ہے، مگر اس صدی کے اختتام پر ہم اس قسم کے واقعات ہر 6 سال میں ایک بار دیکھ رہے ہوں گے۔مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ انٹارکٹکا کی برف کافی حد تک مستحکم رہے گی اور سمندر کی بلند ہوتی سطح پر کچھ زیادہ اثرات مرتب نہیں کرے گی۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ایک اور بڑا مسئلہ سمندروں کی سطح میں اضافہ ہے اور سب سے اچھی صورت حال میں بھی 2100 تک سمندروں کی سطح میں اوسطاً 2 سے 3 فیٹ اضافے کا امکان ہے، جو تباہ کن ثابت ہوگا۔سمندروں کو قطبوں میں کم برف کے مسئلے کا ہی سامنا نہیں ہوگا بلکہ ان کے پانیوں میں تیزابیت کابھی اضافہ ہو جائےگا۔ دنیا بھر کے سمندر اپنی سطح پر ایک تہائی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیںاور اسی وجہ سے وہ زیادہ گرم اور تیزابی ہورہے ہیں ۔

ماہرین کے مطابق اگر موسمیاتی تبدیلیوں میں اضافے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو سمندروں کے اندر موجود مونگوں کی تمام چٹانیں ختم ہوجائیں گی، اگر اس حوالے سے زیادہ اُمیدیں بھی رکھی جائیں تو بھی 50 فی صد ایسی چٹانیں تاحال خطرے کی زد میں نظر آتی ہیں،مگر سمندر کے بڑھتے ہوئے درجہ ٔحرارت سے سمندر ہی نہیں اُبل رہے، اگر ہم زہریلی گیسوں کے اخراج کو بھی کم کر لیں تو بھی 2050 تک دن کے اوقات میں مرطوب علاقوں میں گرمی کی شدت میں 50 فی صد تک اضافہ ہوجائےگااور شمال کی جانب کے دن 10 سے 20فی صد زیادہ گرم ہوجائیں گے ۔یہ تو زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کی صورت میں ہے، اگر موجودہ صورتحال ہی برقرار رہی ہے تو دنیا بھر میں موسم گرما کے دوران درجۂ حرارت ناقابل برداشت حد تک بڑھ جائے گا۔

درجہ حرارت میں معمولی اضافہ بھی پانی کے ذرائع کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ ایک تحقیق کے مطابق جلد دنیا کو شدید قحط سالی کے ایام کا سامنا کرنا پڑے گااور اگر یہی حالات جوں کے توں رہے تو دنیا بھر میں شدید قحط سالی کی شرح 40 فی صد تک بڑھ جائے گی جو آج کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوگی۔علاوہ ازیں موسم کے مسائل الگ ہوں گے، 2015-2016 میں ایل نینو کی لہر وں سے یہ ظاہر ہوتاہےکہ ہمیں مستقبل میں ڈرامائی قدرتی آفات کا زیادہ سامنا ہوگا، زیادہ تباہ کن طوفان سامنے آئیں گے، جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات بڑھیں گے جب کہ 2070 ءتک ہیٹ ویو معمول بن جائیں گی۔

اس وقت انسانیت ایک چٹان پر کھڑی ہے، ہم انتباہی علامات اور آلودگی کو ایک حد تک نظرانداز کرسکتے ہیں ،مگر یہ جان لیں کہ ایسا کرنے کی صورت میں آئندہ چند دہائیوں کے بعد ہم کسی بہت مختلف سیارےمیں رہنے پر مجبور ہوجائیں گے، یعنی موجودہ دور کے موسم سے بالکل مختلف زمین ہمارا مقدر ہوگی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر حال میں 2100ءتک ہم ایسی زمین پر ہوں گے جو آج کے مقابلے میں بہت زیادہ گرم ہوگی اور یہی فرق کروڑوں زندگیوں کوبچانے یا خاتمے کا پیمانہ طے کر ے گا۔