آپ کا صفحہ: مطالعاتی ذوق میں رس....

May 24, 2020

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

اتنی قیمتی زمین

میرا ایک خط آپ نے غائب کردیا۔ کیوں…؟ ’’میرا میگزین، میری مرضی۔‘‘ تو ٹھیک ہے پھر، میرا خط، میرا مرضی۔ میرے خیال میں کوئی بھی تحریر پڑھنے کے دوران یا پڑھنے کے بعد اس کے بارے میں جو پہلی رائے قائم ہوتی ہے، وہی حقیقی تبصرہ، دل کی آواز ہوتی ہے۔ لہٰذا ہمارے تبصروں پر سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہاں، ایک گزارش ہے کہ اگر ہم کورونا وائرس کی نذر ہوگئے، تو ہر ہفتے ہماری قبر پر ایک میگزین ضرور رکھوادیا کیجیے گا۔ ناول عبداللہ کا نوٹ کسی اور جگہ بھی تو لگ سکتا تھا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی اتنی قیمتی زمین پر کیوں لگایا۔ ناحق کسی غریب کا خط شایع ہونے کی خوشی کے دو پَل چھین لیے۔ ’’نقدی شاور‘‘ میں ڈاکٹر میمونہ کی معصومانہ خواہش کا احوال پڑھ کر محظوظ ہوئے۔ ڈاکٹر امتیاز اطہر کا سفرنامہ بھی مزے کا تھا۔ اور ’’خیال کہاں سے آتا ہے؟‘‘ تو بھئی ہمارے تو سارے خیالات اسی میگزین کے مرہونِ منّت ہے۔ کمشنر، کراچی، میٹرو پولیٹن کا انٹرویو لاجواب تھا۔ وقتی طور پر ہی سہی، اُن کی باتیں پڑھ کر دل خوش ہوگیا۔ اور ایک آخری بات، یقیناً بہت دُکھ، تکلیف ہوئی ہوگی آپ کو… مَیں بھی آپ کے غم میں برابر کا شریک ہوں کہ یہ وقت بھی دیکھنا تھا، ’’اسٹائل‘‘ کے صفحات سے بھی اشتہار غائب ہوگیا۔ بس، اللہ آپ کو صبرِجمیل عطا فرمائے۔ کیا کہہ سکتے ہیں سوائے اس کے کہ ’’عمران کی حکومت، اُس کی مرضی۔‘‘ (عبدالسلام صدیقی بن عبیداللہ تائب، نارتھ کراچی، کراچی)

ج: ایک تو ہمیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ یہاں جس کے دوچار خطوط (بھرپور ایڈیٹنگ یا ری رائٹنگ کے بعد) شایع ہوجاتے ہیں اور اس پر دوچار لوگ پسندیدگی کا اظہار کردیتے ہیں، وہ خود کو دنیا کا سب سے بڑا دانش وَر، بقراط کیوں سمجھنے لگتا ہے۔ آپ کے پچھلے خطوط پھر قابلِ برداشت رہے، اس خط سے خود ساختہ دانش مندی کی ایسی بُو آرہی تھی کہ باقاعدہ ڈیٹول، کلورین کا اسپرے (80فی صد ایڈیٹنگ) کرنا پڑا۔ اور اپنی، وصیتیں بھی اہلِ خانہ کو لکھوائیے۔ ہم فضولیات ایڈٹ کرکے اپنی قیمتی زمین بچالیتے ہیں، یہی بہت ہے۔

جو کہا گیا، اُس پر عمل بھی ہو

اس مرتبہ منور مرزا نے ’’حالات و واقعات‘‘ میں امن یا خانہ جنگی پر بہت عُمدہ مضمون لکھا۔ واقعی اب افغان قیادت کا امتحان شروع ہوگیا ہے۔ کمشنر کراچی میٹرو پولیٹن، ڈاکٹر سیّد سیف الرحمن کا انٹرویو پڑھ کر دل خوش ہوگیا کہ اب کراچی میں بھی نئے پارکس، سڑکیں اور انڈر پاسز وغیرہ بنیں گے۔ اے کاش، جو کچھ کہا گیا، اُس پر عمل بھی ہوجائے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر امتیاز اطہر صدیقی نے ہمیں انڈونیشیا کے جزیرے، بالی کی خوب سیر کروائی، بڑی مہربانی۔ ’’متفرق‘‘ میں اضاخیل ڈرائی پورٹ کے قیام سے متعلق رپورٹ معلوماتی تھی۔ پیارا گھر میں مغلیہ پکوان بےحد پسند آئے۔ اور ڈائجسٹ کی کہانی ’’نقدی شاور‘‘ کا جواب نہ تھا۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: اللہ آپ کی زبان مبارک کرے، وگرنہ اس متعفّن کراچی نے تو جیسے خوش رنگ تصوّرات، خیالات تک کو گہن لگا کے رکھ دیا ہے۔

غیر معمولی بات

تازہ شمارہ موصول ہوا۔ سرِورق پر ماڈل براجمان تھی اور بس۔ ’’حالات واقعات‘‘ میں منور مرزا کورونا وبا پھیلنے کی دل دوز داستان بیان کررہے تھے، تو ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں منصور آفاق نے برصغیر کی قدیم درس گاہ پنجاب یونی ورسٹی کے ماضی و حال سے روشناس کروایا۔ افسوس کا مقام ہے کہ عالمی رینکنگ میں ہم اب بھی بہت پیچھے ہیں۔ ’’رپورٹ‘‘ میں رئوف ظفر ایک 73 سالہ باہمّت خاتون کی بیٹے کے ساتھ سیّاحت کا احوال لائے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ کے ذریعے ڈاکٹر اقبال پیرزادہ نے متعدی بیماری تپِ دق کے صبرآزما علاج اور احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا۔ ’’عجائب خانہ‘‘ میں عرفان جاوید ’’خیال کہاں سے آتا ہے؟‘‘ کے تحت دل چسپ معلوماتی واقعات قلم بند ہیں۔ ویسے انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ڈارون کے ذہن میں یہ خیال کیسے آیا کہ انسان، بندر کی اولاد ہے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ پر ایک اچٹتی نگاہ ڈال کر آگے بڑھ گئے۔ ’’لازم ملزوم‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس نے اکبر بادشاہ کے نورتنوں میں سے ایک، بیربل کی رام کہانی تفصیل سے گوش گزار کی۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں بلقیس متین نے بتایا کہ بچّوں کو سختی سے نہیں، نرمی سے سمجھانے کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ عبدالحکیم ناصف کی نظم، ’’میرا باپ‘‘ بھی پُرتاثیر تھی اور ناقابلِ فراموش کی تو تینوں ہی کہانیاں فکر انگیز لگیں۔ اور اب آخر میں بات ہمارے اپنے صفحے کی، اس ہفتے اعزازی چِٹھی آصف حسن جاوی کی قرار پائی اور بالکل ٹھیک پائی کہ بغیر نقطوں کے الفاظ سے خط لکھنا کوئی معمولی بات نہیں۔ (شہزادہ بشیر احمد نقش بندی، میرپورخاص)

ج: ویسے ہر ہفتے یہ دس دس صفحات کے خطوط لکھنا بھی کوئی کم غیر معمولی بات نہیں۔

دُکھ بھری زندگی کا احوال

سنڈے میگزین کی بہتری کے واسطے آپ کی اَن تھک کوششیں دیکھ کر مَیں کافی عرصے سے آپ کے مدّاحوں کی طویل فہرست میں شامل ہوں۔ پہلی بار خط لکھ رہا ہوں اور پہلے تو آپ کو داد دیتا ہوں کہ آپ نے ہر ہفتے ایک لاجواب میگزین پیش کرکے جنگ کی مقبولیت میں روز بروز اضافے کی بھی خوب ٹھانی ہوئی ہے۔ شاباش بہت شاباش۔؎ اب خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے۔ آپ ویسے تو ’’حقوقِ نسواں‘‘ کی بڑی علم بردار بنتی ہیں، تو ایک خاتون نے آپ کو اپنی دُکھ بھری زندگی کا پورا احول مع ثبوت روانہ کیا تھا، مگر آپ نے ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ کے موقعے پر بھی اُسے درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ کیا اُس کا حق نہیں تھا کہ اُس کی پوری داستان منظر عام پر لائی جائے۔ (یونس بلال، یونی ورسٹی روڈ، کراچی)

ج: پہلی بات تو یہ کہ ’’حقوقِ نسواں‘‘ کی علَم برداری تو دُور کی بات، ہمیں تو اس اصطلاح ہی سے سخت اختلاف اور چِڑ ہے۔ کون سے حقوقِ نسواں۔ اسلام نے عورت کو صدیوں پہلے جو حقوق عطا کردیئے تھے، اُن کے بعد کسی حق کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی۔ فرائض بحُسن و خوبی ادا ہوں، تو حقوق خود مل جاتے ہیں۔ بھلا آپ نے ہمیں اس ’’موم بتّی مافیا‘‘ کا حصّہ بنے کہاں دیکھ لیا، جو ہم پر حقوقِ نسواں کی علَم برداری کا الزام دھردیا۔ دوسری بات، خاتون کے خط کی آپ کو کیسے خبر ہوئی اور اس قدر فکر کیوں لاحق ہوگئی، آپ اُن کے پھُپھڑ ہیں یا اُس خط اور ان تمام ثبوتوں کے محرّک؟ ویسے آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے، ہمیں بلاوجہ ہی جیمز بانڈ بننے کا قطعاً کوئی شوق نہیں اور نہ یہ ہمارا منصب ہے۔ نام، جگہیں بدل بدل کر آپ دس خط لکھ بھیجیں، ہم وہی اور وہیں تک کریں گے، جتنا ہمارا کام اور دائرئہ عمل ہے۔

مطالعاتی ذوق میں رس

میگزین کی مہک، پھولوں کے رخساروں پر ٹھہری شبنم کی طرح روح کو تازہ دَم رکھتی ہے۔ تازہ شمارے کے گنگناتے مصرعے ’’پھولوں میں ڈھلی ہوئی یہ لڑکی…‘‘ نے سرِورق کی دل کشی بڑھا دی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے سلسلے کی آخری قسط بصیرت افروز تھی۔ شفق رفیع نے خواتین کے عالمی یوم کے حوالے سے خاص مضمون رقم کرکے پاکستانی عورت کا حقیقی معنوں میں اصل چہرہ دکھایا، جسے چند نام نہاد، روشن خیال عورتیں قطعاً داغ دار نہیں کرسکتیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں شگفتہ عُمر قیام پذیر نظر آئیں۔ اور خواتین کے حقِ وراثت پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دل جمعی سے قلم کشائی کی۔ ’’عجائب خانہ‘‘ میں خمارِ گندم کا اختتام سحرانگیز تھا۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں امجد صاحب کی خُوب صُورت غزل سے مرصّع مدیرہ کا بیٹیوں، مائوں سے متعلق خوش رنگ رائٹ اپ کمال تھا۔ ناقابلِ فراموش، ڈائجسٹ اور متفرق کی تحریرات بھی مطالعاتی ذوق میں رس گھول گئیں۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اس مرتبہ تختِ شاہی پر بندئہ خاکسار کا نام جگمگا رہا تھا، دلی مسّرت ہوئی۔ (ملک محمد رضوان، محلہ نشیمن اقبال واپڈا ٹائون، لاہور)

ج: آپ تشبیہات و استعارات کے استعمال کے بہت شوقین ہیں، لیکن کوشش کیا کریں کہ وہی لفظ استعمال کریں، جس کے معنی و مفہوم سے آگہی ہو، محض تحریر کو بھاری بھرکم ظاہر کرنے کے لیے ایسے الفاظ کا استعمال کہ جن کی کوئی تُک ہی نہ بنتی ہو، اچھی بھلی تحریر کا بھی اثر زائل کردیتا ہے۔ آپ پلیز، سادہ الفاظ میں تبصرہ لکھ بھیجا کریں، بخدا ہمیں آپ کی قابلیت پر کوئی شبہ نہیں۔

اب باز آجائیں گے

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں میں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے صفحات موجود تھے۔ ماشاء اللہ اب تو یہ متبرک صفحات مسلسل شایع ہو رہے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کی بقا کی جنگ اور مودی کا نیا قانون، احتجاج کرنے والوں کے راستے الگ، مگر منزل ایک ہے۔ ’’ایک تھا ریڈیو اور ایک ہے ایف ایم ریڈیو‘‘ بہترین مضمون تھا۔ نورمحل سے متعلق جانکاری نے بھی، محل کی سیر پر مائل کیا۔ کہی اَن کہی میں ماڈل، اداکارہ طوبیٰ صدیقی موجود تھیں۔ ’’خمارِ گندم‘‘ (عجائب خانہ) نے خوب معلومات دیں، عالیہ کاشف دونوں شماروں میں خوب صورت ماڈلز کے ساتھ آئیں۔ آئی جی، کے پی کے ثناء اللہ عباسی جیسا دیانت دار ہر صوبے میں ہونا چاہیے۔ اور دونوں ہی شماروں میں ناچیز کا خط پہلے نمبر پر شایع فرمانے کا بے حد شکریہ اور اس بار تو آپ نے پروفیسر مجیب کو فُل وارننگ دے دی کہ اگر روش نہ بدلی تو آئندہ الف لیلوی داستانیں منہ بند لفافوں سمیت ڈسٹ بن کی نذر کردی جائیں گی۔ امید ہے، پروفیسر صاحب اب باز آجائیں گے کہ آپ نے تو مانی بھائی جیسوں کو سدھار دیا ہے۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: نہیں بھئی، تین خط ڈسٹ بن کی نذر کروا کے بھی موصوف نہیں سُدھرے۔ اندازہ ہوا کہ مینوفیکچرنگ فالٹ کی درستی ناممکن ہے۔

فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

سالِ رواں کے ماہِ سوم کے لاسٹ اٹھواڑے کا دل آرا رسالہ ملا۔ اُودے اُودے، ہرے ہرے کلر سے مُرصّع مُکھڑا ہائے رسالہ (ٹائٹل) سے دلِ محروم کی دل داری ہوئی۔ دل سے رائٹ ٹو لاسٹ ہولے سے ٹٹولا، کھولا۔ ماہرِ احوالِ عالم کے ’’عالمی آکاس‘‘ سے ہلاکو وائرس کے عالمی حملے کا علم ہوا۔ اِس آرڈر آئوٹ وائرس کے کاری وار سے سارے عالم کے ساہوکار آئوٹ کلاس اور لوگ ڈر سے مکمل محصور ہوگئے۔ ہمارا دل ملکہ مکرّمہ سے کہے ہے کہ اِرمِ کوہ سار (ہماری مہارگ اور اٹوٹ حصّے) کے مسلسل آٹھ ماہی Lock Down (محاصرے) کی سارے عالم کو آہ لگی ہے۔ ’’اللہ کی لاٹھی کی صدا کہاں؟‘‘ سارے اللہ اللہ کرو اور اعمالِ سُوء سے دور ہوں۔ مالک المُلک رحم کرکے سماوی آلام دُور کرے!! اس سے آگےسلسلہ دوام ہے۔ وہاں لاہور کے احرار کے مہااکٹھ کا عُمدہ اور اہلِ داد احاطہ ہوا۔ واللہ، اس مُلکِ اللہ داد کی اساس کلمہ اوّل ہے اور عوام اس کے اصل مالک۔ ڈراما رائٹر (حاکم کے حامی اور سرکار کے سودائی) کے ’’روی وار کالم‘‘ سے معلوم ہوا کہ لاہور کی 138سالہ مادرِ علمی کو عالمی ادارے سے علمی کمال واسطے دادِ اوّل ملی ہے۔ آسماں والے کا رحم اور کامل معلّموں کا کرم ہے۔ عالی حوصلہ مادر اور ولد کے آٹو موٹر کے سہارے مَری سے آگے کوہ ساروں کے اوکھے ٹور کی ’’رُوداد‘‘ کا مطالعہ ہوا اور سادگی کا درس ملا۔ ’’الہام کہاں سے آئے؟‘‘ عام ڈگر سے ہٹ کر رائٹر کی اِک مساعی مسلّمہ اور سعی حاصل ہے۔ مولا علم ودھائے! ’’دل کو دل سے راہ ہے۔‘‘ اس کے آگے دل کڑا کرکے ’’اسٹائل‘‘ کی ڈال سے، ڈرے سہمے کاگل سے موٹی ڈور اٹکائی اور ہم کلام ہوئے۔ ’’ہوا ہوا مہک لُٹادے، آَدھ کِھلی کلی کِھلادے، دل دار ملا دے…‘‘ ’’علم کدے‘‘ سے دُلاری حِرا کا گولڈ کلام عُمدہ رہا۔ ’’وعدہ روح کی طرح ہے‘‘ اور ’’اردو علمی کسوٹی‘‘ سے رائی سا حصّہ ملا کہ داڑھ گِلّی ہوگئی، مگر کسوٹی واللہ کارِ دل گردہ ہے۔ ’’اردو اسٹال‘‘ کمال کا کہ ’’اِک دل کے دو ارماں‘‘ اور ڈاکٹری رائے دل موہ لے گئی۔ ’’لگے رہو کام سے، مگر دوا کھائو آرام سے۔‘‘ اور دوسری TiP لامحالہ سوا لاکھ کی ہے کہ ’’آرام دہ گدّا ہی آرام آور ہے۔‘‘ عوام کی COVID-19 سے لڑائی ہے، اللہ کا سہارا اور ڈاکٹروں کا آسرا ہے۔ سلام ڈاکٹر! (عوامی راکھوں کا اللہ راکھا) لو آگے اسٹڈی لاری کا لاسٹ اڈا (Your Page) ہے کہ کوئی آہ کرے ہے (ہائے) کوئی آہ لے (اوئی)، کوئی کدکڑے لگائے (آہا) کوئی گُدگُدائے (اوئے) اور کوئی گائے؎ ’’لاری اڈا لاری اڈا لائی رکھدا…‘‘ اوّلاً لال کوٹھی کا مراسلہ معرکہ آرا، ڈاکٹر ڈاھا، ملک لاہوری، لارڈ ملک، مسٹر مُرلی اور معلّم مُعمّر کی معرکہ آرائی کی داد ہے اور، مراسلہ وسط کی واہ وا کہ ملکہ مکرّمہ سے داد لی اور ہم کو مراسم کی اک راہِ علاحدہ دکھائی۔ دعائے الوداع ہے کہ ملک الملوک، اولادِ آدم سے آلام کا کوہِ گراں اُٹھائے اور آہوئے گُم راہ (مسلم امّہ) کو سوئے حرم لائے!!

(نوٹ: بندے نے بھی یہ خط بغیر نقطے کے حروف سے لکھ ڈالا ہے، اب آپ کی داد کا انتظار ہے)۔(محمد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: ہماری تو زیادہ سے زیادہ داد اس ہفتے کی چِٹھی کا اعزاز ہی ہوسکتی ہے۔ اور یہ اعزاز جتنی بار آپ کے حصّے آیا، آج تک سنڈے میگزین کے کسی قاری کے حصّے نہیں آیا، تو آپ نے ناحق ہی اس قدر زحمت اٹھائی اور ہمیں بھی اُٹھوائی، مگر فارغ پاکستانی قوم کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی تو ہے کہ آخروہ ’’لاک ڈائون‘‘ میں کرے بھی تو کیا کرے۔ لوگوں نے تو اپنے گھروں کی ٹائلز، سوئچ بٹنز، حتیٰ کہ پہناووں کی سلائیاں تک گن ڈالی ہیں۔

گوشہ برقی خُطوط

ج: اگر ہر روز ایک ساتھ 10، 10ای میلز کرو گی تو اُن کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ای میلز باری آنے پر شایع ہوتی ہیں۔ اور جریدے کے مندرجات سے متعلق تم نے ایک لفظ نہیں لکھا۔ بس، یہی لکھ لکھ کے بھیجے جارہی ہو کہ میری ای میلز مل رہی ہیں؟ میری ای میل کب شایع ہوگی؟ بھلا ایسی ای میل شایع کروانے کا بھی کیا فائدہ۔

ج:قراۃ العین !تمہارا افسوس، غصّہ بالکل بجا ہے۔ سہواً تمہارا نام پرنٹ ہونے سے رہ گیا۔ دراصل اِن دنوں ہم جن حالات میں کام کر رہے ہیں، تو اس طرح کی غلطیوں کے امکانات ہو سکتے ہیں۔ ہم تم سے دلی طور پر معذرت خواہ ہیں، ان شااللہ آئندہ مزید خیال رکھیں گے۔

ج:نامعلوم، ناگزیر وجوہ۔

ج: ہم ہیں ناں۔ آپ تحریریں بھیجیں، قابلِ اشاعت ہوں گی تو بغیر آپ کے کہے، باری آنے پر شایع کر دی جائیں گی۔ بصورتِ دیگر ناقابلِ اشاعت کی فہرست میں نام شایع کر کے بھی آپ کو مطلع کیاجاسکتا ہے۔

ج: گرچہ ہم اپنی قوم کے مزاج سے بخوبی واقف ہیں کہ یہاں کسی کو انگلی پکڑائو، وہ پائنچہ پکڑ لیتا ہے، مگر پھر بھی ہم سے ایک، دو قارئین کو کچھ اقساط ای میل کرنے کی غلطی سرزد ہوگئی اور یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ باقاعدہ فرمائشی پروگرام شروع ہوچکا ہے۔ او بھائی! سنڈے میگزین میں شایع شدہ اقساط ہی سے لُطف اندوز ہوں۔ یہ ذاتی طور پر ای میلز کا سردرد ہمارے بس کا روگ نہیں۔

قارئینِ کرام!

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazinejanggroup.com.pk