بھائی کی عیدی

May 24, 2020

ابن ابی طلحہ

عید کی چاند رات تھی۔ ایک عورت کھلونوں کی دکان کے سامنے کھڑی تھی ۔دکان پہ کافی بھیڑ تھی ۔ سب اپنے بچوں کو کھلونےدیناچاہتے تھے۔یہ عورت بھی اپنے بچے کی ضد پر گھر سے کھلونا لینے کے لیے نکل کھڑی ہوئی تھی۔

اس کی نظر ایک کھلونے پر پڑی ،جسے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی،اس لیے نہیں کہ کھلونا بہت شاندار تھا؛بلکہ وہ اس کھلونے کو اپنے لختِ جگر کی نظر سے دیکھ رہی تھی ،جسے وہ گھر پر یہ کہہ کر چھوڑ آئی تھی کہ وہ اس کے لیے کھلونا لے کر آئے گی ،اس نے دکان دار سے کھلونے کی قیمت پوچھی تو ا ،جس کی ادائیگیاس کے بس سے باہر تھی ،اس نے بھاؤ کم کرنے کے لیے کہا تو دکان دار نے انکار کردیا۔عورت کو بڑی مایوسی ہوئی...کھلونا خریدنے کے لیےاس کے پاس پیسے نہیں تھےاور بنا کھلونے کے وہ گھر لوٹنا نہیں چاہتی تھی ۔

اس نے چپکے سے کھلونے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور احتیاط سے اپنی اوڑھنی میں چھپا کر گھر کے راستے کو ہولی۔

ایک ہی وقت میں اس کے دل میں دو مختلف دھڑکنوں نے ڈیرا ڈال دیا تھا...ایک دھڑکن چوری کے انجام کی تھی اور دوسری اس خوشی کی تھی جو تھوڑی ہی دیر بعد یہ کھلونا اپنے بچے کو دے کر اسے حاصل ہونے والی تھی۔

ادھر دکان کا مالک جو اپنی دکان کی ہر چیز پر گہری نظر رکھتا تھا، اس سے عورت کی یہ حرکت چھپی نہ رہ سکی,جیسے ہی وہ دکان سے ہٹی اس نے چھپ کر اس کا پیچھا کرنا شروع کردیا۔ایک گھر میں داخل ہوتے دیکھ جب اسے پتہ چل گیا کہ یہی عورت کا گھر ہے تو لوٹ آیا اورجاکر پولیس چوکی میں چوری کی شکایت درج کرائی اور دو پولیس والوں کو ساتھ لے کر اس کے گھر پہنچا،جب وہ گھر میں گھسا تو دیکھا بچہ اس کھلونے سے کھیل رہا ہےاور ماں اپنے بچے کو پیار بھری نظروں سے کھیلتے دیکھ رہی ہے۔

کھلونے والے نے عورت کی طرف اشارہ کیا اور دونوں پولیس والے اس کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں ڈالنے لگےاور جب بچے کے ہاتھ سے کھلونا چھینا تو وہ زار وقطار رونے لگا۔اس وجہ سے نہیں کہ اس کا پیارا کھلونا اس سے چھین لیا گیا تھا،بلکہ وہ اپنی ماں کو دیکھ کر رورہا تھا* جس کو دو آدمیوں نے پکڑ رکھا تھا اور وہ ان کے درمیان کھڑی کانپ رہی تھی ۔بچہ دکان مالک کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑا ہوگیا اور رو رو کر کہنے لگا....میری ماں کو چھوڑ دو...میری ماں کو چھوڑ دو...

کھلونے والا مبہوت ہوکر رہ گیا...سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے،اسی سوچ میں تھا کہ فجر کی اذان کی آواز اس کے کانوں میں پڑی ,یہ اذان جس کے بعد گھروں میں عید کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔

اس کے ضمیر نے اسے کچوکے لگانا شروع کردیا کہ آج کے دن لوگ خوشیاں بانٹتے ہیں اور تو ایک حقیر کھلونے کے لیے دو معصوم جانوں کی خوشیاں چھین لینا چاہتا ہے۔

وہ پولیس والوں کی طرف متوجہ ہوا اور ان سے کہا،’’معافی چاہتا ہوں،میں نے غلط فہمی میں ان خاتون کو چور سمجھ لیا تھا، اس قسم کا کھلونا میری دکان پر نہیں بکتا ہے...دور سے دیکھ کر میں غلط سمجھا۔‘‘

یہ سن کر پولیس والے بڑبڑاتے ہوئے لوٹ گئےاور دکان کا مالک بچے کی طرف بڑھا اور اس کے ہاتھ میں کھلونا پکڑاکر کہا،’’مجھے معاف کرنا بیٹا! یہ تمہارا ہی کھلونا ہے۔‘‘

پھر وہ عورت سے مخاطب ہوکر بولا،بہن میں نے تمہارا بہت دل دکھایا ہے...مجھے یقین ہے کہ تم عید کے دن کی ہی لاج رکھ کر میری زیادتی کو معاف کردوگی۔‘‘

عورت کی پیشانی چوری کی وجہ سے خجالت وشرمندگی سے عرق آلود تھی، اس نے بس اتنا کہا کہ میں اپنے فعل پر شرمندہ ہوں...ممتا سے مجبور تھی۔‘‘

کھلونے والے نے اپنےپرس چند سوروپے نکال کر عورت کے ہاتھ پر رکھ دیے اور اس کےمنع کرنے کے باوجود یہ کہہ کر کہ ایک بھائی کی طرف سے عیدی ہے، اس کے ہاتھوں پر رکھا اور یہ چلا گیا ۔