کورونا اور ٹرمپ سے جان کب چھوٹے گی؟

June 06, 2020

ریاست ہائے متحدہ امریکا کو بوجوہ پوری دنیا کا ہمسایہ قرار دیا جاتا ہے اس پس منظر میں امریکی صدر کی عالمی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بلاشبہ اس امریکی عہدہ جلیلہ پر جارج واشنگٹن، ابراہم لنکن، تھامس جیفرسن، ریگن اور جمی کارٹر جیسی عظیم الشان شخصیات فائز رہی ہیں اور حال ہی میں کلنٹن اور باراک اوباما کی قومی و انسانی خدمات سے بھی کسی کو انکار نہیں لیکن موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب سے اس ذمہ داری پر فائز ہوئے ہیں نہ صرف خود اپنے لئے بلکہ اپنے منتخب کرنے والوں کے لئے بھی جگ ہنسائی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اتنی بڑی ذمہ داری پر اتنا غیر ذمہ دار شخص قابل حیرت ہے۔

ان دنوں کورونا نے عالمی آفت بن کر جس طرح پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اس میں امریکا جیسی سپر پاور کا عالمی کردار تو رہا ایک طرف متذبذب قیادت کی وجہ سے قومی کردار بھی قابل افسوس ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ کبھی امریکا چین جیسے اہم بڑے ملک کے خلاف بے سروپا الزامات قطعی بودے اور بھونڈے انداز میں عائد کر رہا ہوتا ہے۔ چین پر تنقید کرنا کوئی جرم نہیں ہے آپ چینیوں کے غلط اقدامات پر عالمی سطح پر آواز اٹھائیں لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ چینیوں نے اپنی لیبارٹریوں میں کورونا خود تشکیل دے کر پوری دنیا میں پھیلایا؟ خود امریکا کے اندر کورونا نے جو تباہی مسلط کر رکھی ہے آپ اس کا تدارک کرنے کیلئے اتنے فکر مند نہیں ہیں جتنے غیر سنجیدہ گفتگو کے ذریعے خود امریکیوں کو ہی مطعون کرنے پر بضد ہیں۔ ویسے تو امریکا ہر چیز میں ہی نمبر ون رہتا ہے، آپ کسی اچھائی میں اپنے ملک کو نمبر ون پر لے کر گئے ہیں یا نہیں لیکن انسانی ہلاکتوں میں آپ نے اسے بلند ترین سطح پر لے جانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اپنے عوام کو مزید اپنے تئیں ’’خوشخبریاں‘‘ سنانے کی فکر میں رہتے ہیں کہ ہلاکتوں کی شرح ابھی تو خاصی نیچے ہے، ’’ٹرمپ جمع تفریق‘‘ کے مطابق تو یہ کہیں اوپر دکھتی ہے۔ حفاظتی اقدامات ہوں یا ویکسین کی تیاری کے مراحل آپ اور آپ جیسے دیگر ٹرمپوں کا رویہ ایک مسخرے جیسا غیر سنجیدہ دکھائی دیتا ہے۔

کورونا پر تو آپ کا غیر ذمہ دارانہ رویہ جو تھا سو تھا ہی اب 25؍مئی کو ایک 46سالہ سیاہ فام امریکی باشندے جارج فلائیڈ کو جس بے دردی اور سفاکیت کے ساتھ مارا گیا ہے اس پر بھی آپ کے اندر کا انسان زندہ دکھائی نہیں دیا۔ احتجاج تو زندگی کی علامت ہے۔ زیادتی کے خلاف احتجاج زندہ ضمیر لوگ کرتے ہیں، مردہ افراد ہوں یا سماج‘ ان سے ایسی توقع قطعی نہیں کی جا سکتی۔ امریکی سماج ہنوز ایک زندہ سماج ہے وہ جارج فلائیڈ پر ہونے والے بہیمانہ ظلم کے خلاف اٹھا ہے اور برہنہ نسلی امتیاز کے خلاف چلّا رہا ہے۔ احتجاج میں بلاشبہ تشدد کی آمیزش نہیں ہونی چاہئے۔دنیا کا کوئی بھی مہذب انسان تشدد کی حمایت نہیں کر سکتا۔ تہذیب جلد سے جڑی کوئی چیز نہیں ہے نہ ہی سارے کالے‘ کرتوتوں کے بھی کالے ہیں اور نہ تمام گورے تہذیبی حوالے سے بھی اجلے ہیں۔ جس وحشی گورے نے جارج فلائیڈ کو بے دردی سے مارا ہے اگر اس کے اندر کی گندگی بھی دھلی ہوئی ہوتی تو اس کی نوبت ہی کیوں آتی۔ کسی بھی کمیونٹی کی حمایت یا مخالفت میں لوگوں کو اکیسویں صدی میں اس نوع کی تمام تر تنگنائوں سے اوپر اٹھ کر سوچنا چاہئے۔ ہر کمیونٹی میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور بُرے شیاطین کی بھی کمی نہیں ہوتی۔ ہمیں عصر حاضر اور اس کی جدید ٹیکنالوجی کو قدر اور عزت و احترام کی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ جس کی بدولت بہت سے مظالم کھل کر عوام الناس کے سامنے آ جاتے ہیں ورنہ اس سے پیشتر بھی اس نوع کی سفاکیت کے مظاہر رو پذیر ہوتے تھے مگر وہ دب کر رہ جاتے تھے۔ پولیس کی منفی ذہنیت صرف پاکستان میں ہی نہیں بشمول امریکا پوری دنیا میں ہے، اب سارے پولیس والے ایسےنہیں ہوتے لیکن اگر کسی ادارے میں منفی ذہنیت وافر پائی جاتی ہو تو اس کے تدارک کا اہتمام کیا جانا چاہئے۔ درویش کو افسوس ہے کہ اس المناک سانحہ پر احتجاج میں تشدد کو بھی جواز بخشا جا رہا ہے اسی روا روی میں عدم تشدد کے عظیم پرچارک مہاتما گاندھی کے امریکا میں نصب مجسمے کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے جس پر امریکی سفارت کاروں نے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے بھی تشدد کی مذمت کرتے ہوئے مظاہرین کو اس سے باز رہنے کی جو تلقین کی ہے یہ بالکل نیلسن منڈیلا والا رول ہے، البتہ ساتھ ہی انہوں نے یہ امید بھی ظاہر کی ہے کہ عوامی احتجاج سے امریکی قوم غیر ذمہ دار غیر سیاسی و لاابالی قیادت سے جان چھڑا لیں گے۔