خواتین کو قوانین کا علم ہونا چاہیے

June 19, 2020

قراۃ العین زینب، ایڈووکیٹ

انتہائی افسوس کی بات ہے کہ پڑھے لکھے طبقے میں بھی بہت کم ایسے افراد ہیں جو کہ قوانین کے بارے میں کچھ جانتے ہیں ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم کسی مسئلہ کے بارے میں اس وقت تک معلومات اکٹھی نہیں کرتے جب تک کہ ہمیں اس کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ حالاں کہ قانون کبھی بھی سوئے ہوئے بے خبر لوگوں کی مدد نہیں کرتا آج کل خواتین اس حوالے سے انتہائی لاپرواہی کا مظاہرہ کرتی ہیں اور صاف کہتی ہیں کہ ہم قانون کے بارے میں جان کر کیا کریں گے اگر وہ خود لاعلم اور بے شعور رہیں گی تو ان کی نسلیں بھی اسی طرح سے ہوگی اگر آپ کو کسی معاملے کے بارے میں علم رکھنے کی ضرورت نہیں تو پھر بھی سیکھنا ضروری ہے، کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ آپ کسی ایسے کو فائدہ پہنچا دیں، جس کو اس کی ضرورت ہو اور اس کی مدد ہوجائے سب سے پہلے جس کے بارے میں جاننا ضروری ہے وہ گھریلو خواتین سے تعلق رکھتا ہے یہ قانون 2016 میں نافذ العمل ہوا اور اس کا نام ہے گھریلو تشدد سے روک تھام سے متعلق قانون، اگر آپ یا آپ کے سامنے کسی اور پر گھریلو تشدد ہورہا ہے تواس قانون کو حرکت میں لایا جا سکتا ہے ۔اس کے بعد دوسرا قانون جس کے بارے میں ایک عورت کو آگاہی ہونی چاہیے وہ خواتین دشمن روایات کے امتناع کا ایکٹ 2011 ہے۔

اس قا نون میں بے بس عورتوں کو تحفظ دیا گیا جو رسم و رواج کے نام پر قربان کی جارہی تھیں اس ایکٹ کو تعزیرات پاکستان میں بذریعہ ترمیم شامل کیا گیا، جس کے تحت دفعہ 310 اےکے مطابق ونی،سوارا،بدل صلح یا وٹاسٹا وغیرہ کے نام پر شادی کے لیے کسی لڑکی کو مجبور کرنے پر 7 سال قید اور 5 لاکھ جرمانے کی سزا ہے، اس کے علاوہ کسی بھی عورت کو اس کی وراثتی جائیداد سے محروم کرنے پر جسے حق بخشوانا بھی کہتے ہیں زیادہ سے زیادہ دس سال اور کم سے کم پانچ سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہے یا یہ دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جا سکتی ہیں، اگر کسی عورت کے رشتے داروں نے دھوکہ دہی سے کاغذات پر دستخط کروا لیے ہوں تو وہ بھی اس دفعہ کے تحت کاروائی کرواسکتی ہے۔ یہ بھی دھوکہ دہی ہے عورت کو وراثتی جائیداد سے محروم نہیں کیا جاسکتا وراثتی جائیداد سے محروم کرنے کی دفعہ 498 اے تعزیرات پاکستان میں بیان ہے اگر کسی لڑکی کی زبردستی شادی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے یا اس کی تیاری کی جاتی ہے تو 498 بی کے تحت ایسا شخص جویہ عمل کرتا ہے اسے 10 سال قید اور 5 لاکھ جرمانہ یا دونوں سزائیں اکٹھی بھی ہو سکتی ہیں۔ دیہات یا پسماندہ علاقوں میں ایک اور انتہائی افسوسناک رسم موجود ہے ،جس میں محض وراثتی جائیداد بچانے کے لئے ایک لڑکی کی شادی قرآن پاک سے کردی جاتی ہے ایسی کسی بھی رسم کو ادا کرنےیا سہولت فراہم کرنے پر 498 سی تعزیرات پاکستان کے تحت سات سال قید اور 5 لاکھ جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے

ہمارے معاشرے میں خواتین کسی نہ کسی کام کے سلسلے میں باہر بھی جاتی ہیں افسوسناک بات ہے کہ تحقیق کے مطابق بس اسٹاپ وہ جگہ ہیں جہاں پر ہراساں کرنے کے واقعات سب سے زیادہ رونما ہوتے ہیں کسی بھی عوامی مقام جیسے کہ پارک ،بازار، بس اسٹاپ وغیرہ پر کسی عورت کو ہراساں پریشان کرنے پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 509 کو حرکت میں لایا جاسکتا ہے اور پولیس رپورٹ پر ایسے شخص کو تین سال کی قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتیں ہیں اس کے علاوہ ورکنگ وومن کی حفاظت کے لیے بھی 2010 میں عورتوں کے کام کرنے کی جگہ پر جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف تحفظ کا قانون منظر عام پر آیا، جس میں مکمل تفصیل کے ساتھ بیان ہے کہ اگر کسی عورت کو ذہنی اور جسمانی طور پر پریشان کیا جاتا ہے تو وہ کس طرح قانون کو حرکت میں لا سکتی ہے ۔بعض لوگ طاقت کے نشے میں عورت کی حرمت پر حملہ کرتے ہیں تعزیرات پاکستان میں واضح طور پر بیان ہے کہ اگر کسی عورت کے ساتھ زبردستی کی جائے تو اسے 354 اے کے تحت سزائے موت یا عمر قید اور جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے، اورکسی بھی عورت کو تین یا چار سے زیادہ دن تک بیجا طور پر قید رکھنے پر تعزیرات پاکستان کی دفعات 343 اور 344 کے تحت تین سال قید اور جرمانہ یا دونوں سزائیں اکٹھی دی جاسکتی ہیں اور کسی عورت کو زبردستی شادی کے لئے مجبور کرنے اور قید میں رکھنے پر365بی کے تحت عمر قید اور جرمانے کی سزا ہے۔

اگر کوئی کسی عورت پر بہتان لگائے یا الزام تراشی کرے تو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 500 اور 501 کے تحت دو سال قید اور جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے، اس کے بعد آتے ہیں ایک اور اہم مسئلے کی طرف جو کہ سائبر کرائم کے بارے میں ہے آج کل لاتعداد شکایات موصول ہورہی ہیں جو کہ خواتین کو ہراساں کرنے کے حوالے سے ہوتی ہیں فیس بک اور سوشل میڈیا پر خواتین کو پریشان کرنے کے واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے لئے 2016میںدا پرییونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ نافذ کیا گیا، جس کے تحت کسی بھی عورت کو جانتے بوجھتے ہراساں اور پریشان کرنا اس کی عزت کو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے نقصان پہنچانا، اس کی تصویروں کو بدلنایاان کا غلط استعمال کرکےنقصان پہنچانے پر ایک سال تک کی قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے ،اس کے علاوہ ڈرانے دھمکانے تصویر وغیرہ کے ذریعے ہراساں کرنے پر 7 سال قید اور 13 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں اکٹھی بھی ہو سکتی ہیں۔اگر کوئی کسی کو بھی فون پر دھمکیاں دے یا ہراساں اور پریشان کرے تو ٹیلی گراف ایکٹ کی دفعہ 25 ڈی کے تحت تین سال تک کی سزا ہوسکتی ہے،اگر کسی عورت کا شوہر اس کو بتائے بنا دوسری شادی کرے تو وہ عورت مسلم عائلی قوانین وہ آرڈیننس کی دفعہ چھ کے تحت استغاثہ دائر کر سکتی ہے اور شوہر کو ایک سال کی قید اور جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے ایسی خواتین فوری طور پر اپنا حق مہر بھی بمطابق قانون وصول کرنے کی حق دار ہوتی ہیں اور عدالت کی تنسیخ نکاح کی ڈگری بھی لے سکتی ہیں، کیوں کہ خاوند کی دوسری شادی تنسیخِ نکاح کی وجہ شمار ہوتی ہے یہ انتہائی بدقسمتی ہے کہ کسی کو معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کس طرح اپنی مدد کرسکتا ہے ۔

عورت کے نکاح نامے پر لکھی جائیداد کو رجسٹری کی ضرورت نہیں ہوتی مہر میں لکھی جائیداد کا صرف نکاح نامہ ہی ثبوت کے طور پر کافی ہے ایک اور بات یاد رکھنے والی ہے کہ جہیز وراثت کا بدل ہرگز نہیں ہے کسی بہن بیٹی کو یہ کہہ کر فارغ نہیں کیا جاسکتا کہ اسے جہیز دے دیا گیا ہے اس وجہ سے اب وراثت میں اس کا کوئی حصہ نہیں رہا ۔نیشنل جوڈیشل پالیسی 2009 کے تحت اب فیملی کیس کی سماعت جلد از جلد ممکن بنائی گئی ہے ایسے بے شمار قوانین ہیں جن پر وقتن فوقتن بات ہوتی رہے گی ،مگر کیا عورتوں کی نسبت سے آگاہی حاصل ہے قانون اس کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتا ہے، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم شعور بیدار کریں اور عورتوں کو آگاہ کریں کہ وہ کس حد تک قانونی و آئینی حقوق رکھتی ہیں۔