پوسٹ بجٹ21 -2020 ’ریکارڈ خسارہ‘

June 26, 2020

محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

بجٹ کیسا…؟کے موضوع پر منعقدہ پوسٹ بجٹ جنگ فورم کی رپورٹ

بلڈرز اور ڈیولپرز کو تعمیراتی منصوبے مکمل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ معاشی سرگرمیوں کے لیے قرضے فراہم کرے ۔تمام نجی بینکوں نے حکومتی خزانے میں ساڑھے 7 ہزار ارب روپے کی سرمایہ کاری کررکھی ہے،آباد کی تجویز ہے کہ اسٹیٹ بینک تعمیراتی سرگرمیوں کے لیے نجی بینکوں کی سرمایہ کاری ساڑھے 7 ہزار ارب روپے میں سے کم از کم 2000 ارب روپے کے قرضے فراہم کرنے کے لیے تمام نجی بینکوں کو پابند کرے۔وزیر اعظم عمران خان نے 2 ماہ قبل تعمیراتی پیکج کا اعلان کیا تھا لیکن تاحال یہ شروع نہیں ہوسکا کیوں اس میں صوبائی حکومتیں اور اسٹیٹ بینک بھی شریک ہیں۔

محسن شیخانی
چیئرمین، ایسوسی ایشن
آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز

اسٹیٹ بینک نے ٹیکس شرح سے متعلق تاحال کوئی پالیسی کا اعلان نہیں کیا ۔ کراچی میں بلڈرز اور ڈیولپرز کو تعمیراتی منصوبوں کے لیے بجلی کے کنکشنز حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، جس کے باعث تعمیراتی منصوبے تاخیر کا شکار ہورہے ہیں۔ نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم کی کامیابی اور سستے مکانات کی فراہمی کے لیے ضروری ہے کہ اسٹیل اور سیمنٹ کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ تعمیراتی شعبے کی ان 2 اہم اشیاء کی آزادانہ درآمد ہوسکے ۔اس سے ہاؤسنگ یونٹ کی لاگت میں کمی ہوگی اور کم آمدنی والا طبقہ اس سے مستفید ہوگا

محسن شیخانی

حکومت نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مایوس کیا ہے۔آئی ایم ایف و دیگر مالیاتی اداروں نے قرضوں میں کسی قسم کی چھوٹ نہیں دی صرف ادائیگی موخر کی ہے ۔عالمی معاشی سست روی، کسادبازاری اور کورونا وباء کی وجہ سے معیشت کے تمام شعبوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور خاص طور پر صنعتی شعبہ بہت متاثر ہوا ہے۔ حکومت کا پہلے سیلز ٹیکس وصول کرنا اور اس کے بعد ریفنڈز کی ادائیگی ایک لاحاصل مشق ہے۔ اس کے بجائے ایف بی آر کا عملہ نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرے۔

محمد جاوید بلوانی
سابق صدر، سائیٹ ایسوسی
ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری

پاکستان کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری کو وفاقی بجٹ میں 17فیصدجنرل سیلز ٹیکس کے حوالے سے کوئی ریلیف نہیں دیا۔ اس سے پہلے پانچ بڑے ایکسپورٹ سیکٹرز یعنی ٹیکسٹائل، لیدر، کارپیٹ، سرجیکل اور اسپورٹس گڈز پر سیلز ٹیکس کے حوالے سے زیرو ریٹنگ نو پے منٹ نو ریفنڈز کا نظام کئی سالوں سے رائج تھا۔سیلز ٹیکس کے نفاذ کے بعد سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری کی مالی حالت خراب ہے اور ان کی لیکویڈیٹی اربوں روپے کی صورت میں حکومت کے پاس پھنس چکی ہے۔حقیقی اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے اور ان کی مشاورت سے فیصلہ سازی کی جائے

محمد جاوید بلوانی

حکومت نے نئے مالی سال کا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ بجٹ ایسے موقع پر پیش کیا گیا ہے کہ جب پاکستان کورونا وبا کی لپیٹ میں ہے اور صورت حال سنگین ہوتی جا رہی ہے جس کے سبب کاروبار کی بندش اور روزگار کے محدود ذرائع کے سبب عوام معاشی مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایسے میں بجا طور پر توقع کی جا رہی تھی کہ حکومت ایک ریلیف بجٹ پیش کرے گی اور کاروبار اور صنعت کو مراعات اور ترغیبات کے ساتھ عوام کی مشکلات کے پیش نظر بھی مہنگائی میں کمی کے اقدامات اور سبسڈی فراہم کرنے پر توجہ دی جائے گی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مشکل معاشی حالات اور کورونا وبا کی صورت حال میں ایک اچھا بجٹ پیش کیا ہے اور اس سے عمدہ بجٹ پیش کرنا ممکن نہیں تھا۔ حکومت کا ماننا ہے کہ کاروبار میں آسانیاں فراہم کی گئی ہیں۔ صحت کے شعبے کو ترجیح دی گئی ہے۔ بجٹ ٹیکس فری ہے۔ دُوسری طرف ناقدین بجٹ کو مایوس کن قرار دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بجٹ میں کورونا وبا سے متاثرہ کاروبار اور عوام کے لیے کوئی حل پیش نہیں کیا گیا۔ مخصوص سیکٹر اور طبقے کو نوازا گیا ہے۔ حکومت کی معاشی پالیسی ناکام ہے کورونا سے پہلے ہی معیشت تباہی کا شکار ہو چکی تھی۔ بجٹ ٹیکس فری نہیں ہے۔ نئے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔ نئے مالی سال کا بجٹ کیسا ہے؟ کاروبار اور صنعت کو فروغ ہوگا؟ برآمدات میں اضافہ ممکن ہوگا؟ روزگار کے نئے ذرائع پیدا ہوں گے، غربت میں کمی واقع ہوگی؟ معاشی ترقّی کے اہداف حاصل ہو سکیں گے؟ یہ اور ان جیسے دیگر سوالوں کے جوابات جاننے کے لیے ٹیلی فونک پوسٹ بجٹ جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں سائٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر محمد جاوید بلوانی اور ایسوی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز کے چیئرمین محسن شیخانی نے اظہار خیال کیا۔ فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔

محسن شیخانی

(ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد)

پاکستان تحریک انصاف حکومت کے وفاقی بجٹ میں تعمیراتی صنعت اور رئیل اسٹیٹ شعبے کو مرکزی حیثیت دینے پر آباد وزیراعظم عمران خان،مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور ایف بی کی چیئرپرسن جاوید امجد کا انتہائی مشکور ہے ۔تعمیراتی صنعت کی ترقی کے لیے آباد مندرجہ ذیل تجاویز پیش کرتا ہے ۔

تعمیراتی شعبے کو وزیراعظم عمران خان کی جانب سے انڈسٹری کا درجہ دیے جانے کے بعد دیگرصنعتوں کی طرح تعمیراتی صنعت کو بھی فنانسنگ، امپورٹس اور ایکسپورٹ میں فوائد حاصل ہونے چاہئیں۔ کورونا کی وبا سے قومی معیشت پر سخت منفی اثرات پڑے ہیں، ایسے میں معاشی سرگرمیوں کا مند پڑنا قدرتی امر ہے، لوگوں کو اپنی صحت کی فکر لاحق ہے،کوئی بھی اپنا مکان خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتا،بلڈرز اور ڈیولپرز کا تعمیراتی منصوبے مکمل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ معاشی سرگرمیوں کے لیے قرضے فراہم کرے۔ تمام نجی بینکوں نے حکومتی خزانے میں ساڑھے 7 ہزار ارب روپے کی سرمایہ کاری کررکھی ہے،آباد کی تجویز ہے کہ اسٹیٹ بینک تعمیراتی سرگرمیوں کے لیے نجی بینکوں کی سرمایہ کاری ساڑھے 7ہزار ارب روپے میں سے کم از کم 2000 ارب روپے کے قرضے فراہم کرنے کے لیے تمام نجی بینکوں کو پابند کرے۔

وزیر اعظم عمران خان نے 2ماہ قبل تعمیراتی پیکج کا اعلان کیا تھا لیکن تاحال یہ شروع نہیں ہوسکا کیوں اس میں صوبائی حکومتیں اور اسٹیٹ بینک بھی شریک ہیں۔اسٹیٹ بینک نے ٹیکس شرح سے متعلق تاحال کوئی پالیسی کا اعلان نہیں کیا ۔ کراچی میں بلڈرز اور ڈیولپرز کو تعمیراتی منصوبوں کے لیے بجلی کے کنکشنز حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے،کے الیکٹرک کی من مانیاں عروج پر ہیں۔ جائز کنکشنز کے لیے کے الیکٹرک نیپرا قوانین کی بھی دھجیاں اڑا رہا ہے جس کے باعث تعمیراتی منصوبے تاخیر کا شکار ہورہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات میں متفقہ فیصلے کے مطابق سیکشن 236 k(3) کا خاتمہ کیا جائے۔فائنل ٹیکس ریجیم اختیار نہ کرنے والے بلڈرز اور ڈیولپرز کو ود ہولڈنگ ٹیکس سے استثنیٰ دیا جانا چاہیے۔ وفاقی بجٹ میں کیپٹل گین ٹیکس کے ریٹس اور دورانیہ کم کرنے سے ملکی وغیر ملکی سرمایہ کار تعمیراتی شعبے کا رخ کریں گے جس سے معیشت کو فروغ ملے گا۔

(4) اسٹیل بار اور سیمنٹ پر ریگولیٹری ڈیوٹی اوراینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کا خاتمہ

آباد کی قبل از بجٹ میں اسٹیل بار اور سیمنٹ پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کے خاتمے کی تجویز تھی جس پر وفاقی بجٹ میں عمل نہیں کیا گیا۔آباد سمجھتا ہے کہ اس اقدام سے اسٹیل اور سیمنٹ کے شعبوں میں کارٹیلائزیشن اور اجارہ داری کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اسٹیل کی درآمد کو روکنے کے لیے ریگولیٹری ڈیوٹی اس وقت نافذ کی گئی تھی جب تقریبا 5 برس قبل عالمی منڈی میں اسٹیل کی قیمتیں فی میٹرک ٹن 500امریکی ڈالر سے گھٹ کر 220امریکی ڈالر ہوگئی تھیں۔ ریگولیٹری ڈیوٹی کو اسٹیل کی قیمتوں میں واپس اضافے کے بعد ختم کیا جانا تھا۔تاہم اسٹیل کی قیمتیں واپس اپنی جگہ پر آنے کے باوجود ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا ہے۔علاوہ ازیں صرف چند مینوفیکچررز کو فائدہ پہنچانے کے لیے اسٹیل بار کی درآمد پر اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی نافذ کی گئی تھی ۔

پاکستان میں 5 برسوں میں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر،ایک کروڑ لوگوں کو روزگار فراہم کرنا اور کارٹیلائزیشن کاخاتمہ وزیراعظم عمران خان کا ویژن ہے تاہم ریگولیٹری ڈیوٹی اور اینٹی دمپنگ ڈیوٹی کا نفاذ وزیر اعظم عمران خان کے ویژن سے متصادم ہے۔نیا پاکستان ہائوسنگ اسکیم کی کامیابی اور سستے مکانات کی فراہمی کے لیے ضروری ہے کہ اسٹیل اور سیمنٹ کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ تعمیراتی شعبے کی ان 2اہم جز کی آزادانہ درآمد ہوسکے ۔اس سے ہائوسنگ یونٹ کی لاگت میں کمی ہوگی اور کم آمدنی والا طبقہ اس سے مستفید ہوگا۔

(5) ہاؤسنگ غیر ملکی زرمبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔

بلڈرز اور ڈیوپرز اپنے تعمیر شدہ یونٹس اور ڈیولپڈ پلاٹ عالمی منڈی میں اوورسیز پاکستانیوں کو روڈ شوز کے ذریعے فروخت کریں گے۔ فروخت کا عمل بینکنگ چینلز کے ذریعے ہوگا،عالمی منڈی میں تعمیر شدہ یونٹس اور پلاٹ کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم میں سے 50 فیصد رقم سے ڈیوٹی فری تعمیراتی مٹیریل کی درآمد میں استعمال کی اجازت دی جائے اس سے مقامی تعمیرات کو بین الاقوامی معیار پر لایا جاسکے گا اور کارٹیلائزیشن کا بھی خاتمہ ہوگا۔اس سارے عمل سے سب سے زیادہ فائدہ حکومت پاکستان اور خریداروں کو ہوگا۔

(6) حال ہی میں فنانس ایکٹ کے تحت نافذ آرڈیننس میں مجوزہ ترامیم

پروجیکٹ شروع کرنے کا ٹائم فریم بڑھا کر 31دسمبر 2021کیا جائے۔

پروجیکٹ کی تکمیل کی مدت 30 ستمبر2025 کی جائے۔

بلڈرز ،ڈیولپرز اور خریداروں کے لیے سیکشن 111 سے استثنیٰ کا دورانیہ اسی کے مطابق کیا جائے۔

پروجیکٹ ڈیولپمنٹ کے لیے 40فیصد ادائیگی کی شرط کا خاتمہ کیا جائے اس سے ڈیولپرز کو اپنے پروجیکٹ کو جلد مکمل کرنے کے لیے اپنے ہی ریسورسز سے سرمایہ کاری میں مدد ملے گی۔

آمدنی زیادہ ہونے کی صورت میں فی اسکوائر فٹ۔اسکوائر گز پر ٹیکس شرح رضاکارانہ طور پر بڑھانے کا نظام متعارف کرایا جائے۔اس شق سے پورٹل میں رجسٹریشن کے وقت مستفید ہونا چاہیے۔کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کی ایک شق متعارف کی جانی چاہیے جس سے دولت کی تخلیق اور لوگوں کو اپنا منافع ایمانداری سے ظاہر کرنے میں مدد ملے گی اور اس سے ریونیو میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگا۔

پنجاب ،اسلام آباد اور کے پی کے میں پلاٹ عمارتوں کی تعمیر یا ہائوسنگ اسکیم کے لیے قسطوں پر فروخت کیا جاتا ہے۔خریدار بیعانہ دے کر بقایا ادائیگی چیک کے ذریعے عمارت یا ہائوسنگ اسکیم کی تعمیرات کے ساتھ ساتھ ادا کرتا ہے۔ختمی ادائیگی کے بعد فروخت کنندہ پلاٹ خریدار کے نام پر ٹرانسفر کرتا ہے۔ یہ طریقہ کار عمو ما بڑے پلاٹ یا زمین کے بڑے رقبے کی فروخت میں کیا جاتا ہے۔

حالیہ آرڈیننس میں اس طرح کے بلڈرز اور ڈیولپرز کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔لہٰذا تجویز دی جاتی ہے کہ فکس ٹیکس اور ٹیکس کریڈٹ سے فائدہ اٹھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ بلڈرز اور ڈیولپرز کو شامل کرنے کے لیے فنانس ایکٹ میں مناسب شق شامل کی جائے۔30جون 2021 کے بعد انسٹالمنٹس کی ادائیگی پربلڈرز اور ڈیولپرز کو سیکشن 111سے استثنیٰ نہیں دیا جانا چاہیے۔

(7)تعمیراتی مشینریز کی درآمد پر امپورٹ ڈیوٹی کا خاتمہ کیا جائے۔

تعمیرات میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے لاگت اور وقت کی بچت کے مقصد کے حصول کیلیے تعمیراتی مشینریز کی درآمد پر امپورٹ ڈیوٹی کا خاتمہ کیا جائے اس سے ملک میں عالمی معیار کی رہائش اور انفرااسٹرکچر کاحصول ممکن ہوسکے گا۔

(8)تعمیراتی مٹیریل میں سیلز ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی کی شرح کم کرکے 5 فیصد کی جائے۔سیلز ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ نہ ہونے والے بلڈرز اور ڈیولپرز سے تعمیراتی مٹیریل کے مینوفیکچررز کی جانب سے اضافی 3 فیصد سیلز ٹیکس وصولیوں کا خاتمہ کیا جائے۔چونکہ قانون کے مطابق بلڈرز اور ڈیولپرز کے لیے سیلز ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں رجسٹریشن کرانا ضروری نہیں ہے اس لیے بلڈرز اور ڈیولپرز کی ایف بی آر میں فعال حیثیت ہی کافی ہے اس لیے اضافی 3 فیصد سیلز ٹیکس چارج نہیں کیا جانا چاہیے۔

(9) کورونا وائرس ایک عالمی وبا ہے جس سے دنیا بھر کے ممالک بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔پاکستان میں بھی کورونا وائرس کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس کے لیے صحت کے شعبے کے لیے مختص بجٹ میں اضافہ ناگزیر ہوگیا ہے۔پورے پاکستان میں جدید سہولتوں سے آراستہ اسپتالوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور ان اسپتالوں کی تعمیرات کے لیے نجی شعبے کو بھی کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔

(10) پاکستان کے سرکاری اداروں کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے اداروں کی آئوٹ سورسنگ کی جائے۔

حال ہی میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پاکستان کے تمام بڑے ایئرپورٹس کو نجی شعبوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہو۔آباد اس فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہے۔آباد کی تجویز ہے کہ پاکستان کے دیگر اداروں کی کارکردگی میں بہتری لانے کیلیے ان اداروں کو بھی نجی شعبے کے حوالے کیا جائے اس سے نا صرف حکومت کے ریونیو میں اضافہ ہوگا بلکہ بہتر کارکردگی سے عام شہریوں کے مسائل بھی حل ہوسکیں گے۔

محمد جاوید بلوانی

(سابق صدر، سائیٹ ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری)

پاکستان اپیرئل فورم کے چیئرمین،پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیف کوآرڈینیٹر و سابق چیئرمین محمد جاوید بلوانی نے جنگ فورم سے وفاقی بجٹ 2020-2021پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ویلیو ایڈیڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز نے حکومت کے وفاقی بجٹ کو غیر حقیقت پسندانہ، ناقابل فھم اور یکطرفہ قرار دے کریکسر مسترد کر دیا ہے۔حکومت نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مایوس کیا ہے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری جو ملک کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے،ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کا ملک کی مجموعی ایکسپورٹ میںنصف سے زیادہ حصہ ہے،اسی طرح زرمبادلہ کمانے میں ٹیکسٹائل سیکٹر سرفہرست ہے، ٹیکسٹائل سیکٹر ملک بھر میں سب سے ذیادہ اربن روزگارخاص طرف پر خواتین اورغیر مراعات یافتہ طبقے کو ملازمتیں فراہم کرتا ہے اسے بالکل نظر انداز کردیا اور کوئی ریلیف نہیں دیا۔

حکومت نے 4.963کھرب کا بجٹ پیش کیا ہے جبکہ بجٹ خسارہ3.437کھرب ہے جو جی ڈی پی کا 7فیصد بنتاہے۔اخراجات کا تخمینہ7.136کھرب لگایا گیا ہے جس میں کثیر حصہ قرضوں کی ادائیگیوں کیلئے مختص کیا گیا ہے۔جی ڈی پی کی شرح نمو کاتعین 2.1فیصد کیا گیا ہے جس کا حصول مشکل دکھائی دیتا ہے۔بجٹ میں حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ معاشی شرح نمو کو حالیہ منفی 0.38فیصد سے بڑھا 2فیصد پر لائے گی، بجٹ کا خسارہ جی ڈی پی کے 9.6فیصد سے گھٹا کر 7.2فیصد کی سطح پر لائے گی،مہنگائی کو11.3فیصد سے گھٹا کر 8فیصد کرے گی، بیرونی براہ راست سرمایہ کاری یعنی فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ میں 25فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ یہ سب کس طرح ہو گاقابل غور ہے جس پر حکومت نے بجٹ میں کوئی روشنی نہیں ڈالی۔

ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری کو شدید تحفظات ہیں کیونکہ ایک طرف تو حکومت بیرونی براہ راست سرمایہ کاری میں 25فیصد اضافہ کا دعویٰ کر رہی ہے تو دوسری طرف ڈومیسٹک انوسٹمنٹ جوفارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ سے کئی گنا ذیادہ ہے اس میں اضافے کیلئے کوئی بات نہیں کی جو کھلا تضاد ہے۔ایف بی آررواںسال کے ریوینیو اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا تو آئندہ مالی سال جس میں بجٹ خسارہ تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے کس طرح اپنا ہدف حاصل کرے گا؟ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ملکی معیشت مزید دبائو کا شکار ہو گی۔آئی ایم ایف و دیگر مالیاتی اداروں نے قرضوں میں کسی قسم کی چھوٹ نہیں دی صرف ادائیگی موخر کی ہے ۔عالمی معاشی سست روی ، کسادبازاری اور کورونا وباء کی وجہ سے معیشت کے تمام شعبوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور خاص طور پر صنعتی شعبہ بہت متاثر ہوا ہے۔

حکومت نے بجٹ میں بتایا کہ کہ آئی ایم ایف پروگرام کامیابی کے ساتھ جاری رہے گاجس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کے حکم پر تیا ر ہوا ہے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے مطالبات اور تجاویز پر غور کیا گیا اور نہ ہی ان سے مشاورت کیلئے بجٹ اجلاس منعقد کئے گئے۔پچھلے بجٹ میں حکومت نے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ سیکٹر پر 17فیصد جنرل سیلزٹیکس لگایا تھاجس کے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ سیکٹر پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ اربوں روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈز حکومت کے پاس پھنس گئے ۔ اس وقت بھی ا یکسپورٹرز کی 60فیصد لیکویڈیٹی کیر ی فارورڈ سیلز ٹیکس ریفنڈز، زیرالتواء ریفنڈز اور صوبائی ٹیکسوں کی صورت میں حکومت کے پاس پھنسی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ان کی

پیداواری صلاحیت کے ساتھ ساتھ یکسپورٹ میں بھی کمی آئی ہے۔

پاکستان ہوزری مینو فیکچرز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے جو بجٹ تجاویز حکومت کو پیش کی ہیںاور اخبارات میں بھی شائع ہوئیں ان میں سرفہرست مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایس آر او 1125کے تحت پانچ زیروریٹنگ سیکٹرز کیلئے نو پے منٹ نو ریفنڈ سیلز ٹیکس نظام کو بحال کیاجائے۔ ایکسپورٹرز نے حکومت کو باور کرایا کہ ایکسپورٹرز پر مالی دباؤ کم کرنے کیلئے بجٹ میں ایس آر او 1125 کے تحت زیرو ریٹننگ کی دوبارہ بحالی ناگزیر ہے۔

ایکسپورٹ کے موجودہ حجم میں اضافہ کے لئے ایکسپورٹرز کے لیکویڈیٹی مسائل کو حل کرنا انتہائی ضروری ہے۔عالمی معاشی سست روی اور کورونا وباء کی وجہ سے پاکستانی معیشت کے ساتھ ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بھی مشکل حالات کا سامنا ہے۔لہٰذا حکومت ایکسپورٹ کے فروغ و ترقی کیلئے سنگ میل عبور کرنے کی خاطر حکومت بجٹ میں ایکسپورٹ دوست پالیسی اور اقدامات کا اعلان کرے۔

ایسوی ایشن کی اہم بجٹ تجاویز میں زیروریٹنگ کے علاوہ ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایکسپورٹ پیکج کے تحت ڈیوٹی ڈرابیک آن ٹیکسس کی مد میں ترغیبات کی شرح نصف کر دی گئی تھی اسے پرانی سطح پر بحال کی جائے اور ادائیگی 2 مرحلوں کے بجائے ایکسپورٹ کے ساتھ ایک دفعہ میں کر دی جائے۔اس کے علاوہ برآمدی شعبے کے خام مال پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم یا 0.50فیصد کیا جائے۔ کسٹم ریبیٹ کلیمز کی ادائیگی برآمدات کی رقم ملنے کے ساتھ الیکٹرونکلی ادا کی جائے۔ 0.25فیصد ایکسپورٹ ڈولپمنٹ سرچارج معطل کر دیا جائے جب تک فنڈ میں موجود اربوں روپے استعمال نہیں ہو جاتے۔ایکسپورٹرز فائنل ٹیکس رجیم کے تحت 1فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیںاسے صفر فیصد یا پھر0.5فیصد کیا جائے۔

ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری کیلئے خام مال کی امپورٹ پر ڈیوٹی و ٹیکسس کم کئے جائیں۔ایکسپورٹ انڈسٹری کیلئے گیس اور بجلی کے نرخ عالمی منڈی میں پڑولیم مصنوعات میں کمی قیمتوں میں کمی کے حساب سے کم کئے جائیں۔ ٹیکسٹائل شعبے میں ماضی میں دی گئی ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن فنڈ اسکیم کا اجراء مزید 3سال کیلئے کیا جائے۔بیلنسنگ ماڈرن آئزیشن اینڈ ریپلیسمنٹ کیلئے انکم ٹیکس کریڈٹ کو بحال کیا جائے۔ای او بی آئی اور سوشل سیکیورٹی کے چارجز برائے سال حکومت ادا کرے، ایکسپورٹ فیسلیٹیشن اسکیمز کو آسان بنایا جائے، ایکسپورٹ اورینٹیڈ یونٹس سے متعلق ترمیمی ایس آر او 747 کو واپس لیا جائے،ڈی ٹی آر ای اسکیم میں درآمدات کی درخواست فاسٹ ٹریک پر کاروائی کرتے ہوئے 24گھنٹے میں اجازت دی جائے۔ سوائے خام مال کی امپورٹ پر چند آئٹمز پر ڈیوٹی اور ٹیکس کم کرنے کے علاوہ حکومت نے ہمارا کوئی مطالبہ یا تجاویز تسلیم نہیں کیں۔

پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا تھا کہ بجٹ پر نظر ثانی کرے اور ایکسپورٹس کے فروغ کیلئے اور ملک کے وسیع تر مفاد میں پانچ بڑے ایکسپورٹ سیکٹرز اور ان سے وابستہ مکمل سپلائی چین اور الائیڈ انڈسٹریز کی سہولت اور ترقی کیلئے بجٹ میں ایس آر او 1125کو دوبارہ بحال کرتے ہوئے اس کے تحت پانچ زیرو ریٹیڈ سیکٹر کیلئے نو پے منٹ نو ریفنڈ سیلز ٹیکس نظام کا دوبارہ لاگو کرے اور دیگر بجٹ تجاویز کو بھی بجٹ کا حصہ بنائے۔

ٹیکسٹائل ایکسپورٹرزکا موقف ہے کہ حکومت کا پہلے سیلز ٹیکس وصول کرنا اور اسکے بعد ریفنڈز کی ادائیگی ایک لاحاصل مشق ہے۔ اس کے بجائے ایف بی آر کا عملہ نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرے۔ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کا یہ بھی نقطہ نظر ہے کہ حکومت کا بجٹ خسارہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔اگر نئے مالی سال بھی سیلز ٹیکس وصول کیا گیا تو ایکسپورٹرز کی مزید لیکویڈیٹی حکومت کے پاس پھنس جائے گی کیونکہ رواں مالی سال کے مکمل ریفنڈز حکومت نے ابھی ادا نہیں کئے۔اس لیے ایکسپورٹرز کا مطالبہ ہے کہ سیلزٹیکس کے حوالے سے حکومت بجٹ میں اپنے فیصلے پرنظر ثانی کرتے ہوئے زیرو ریٹنگ بحال کرنے یا پھر موجودہ سیلز ٹیکس کی شرح کو 17فیصد سے کم کرکے اسے 2تا 4فیصد کی سطح پر لائے ، بصورت دیگر منفی اثرات کی ذمہ دار حکومت ہو گی ۔

ٹیکسٹائل انڈسٹری کو عالمی معاشی سست روی کی وجہ سے نئے چیلنجز کا سامنا ہے جس میں کاروبار کسادبازاری کی وجہ سے 40تا50فیصد کم ہو گیا ہے اس تناظر میں عالمی ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ عالمی منڈی کا حجم بھی تقریباً40فیصد سکٹر جائے گاجس کے نتیجہ میں ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کی صنعتوں کو چلانے کی لاگت میں شدید اضافہ ہو گا جسے چھوٹے اور درمیانے درجہ کے صنعتکار برداشت نہ کر پائیں گے اور لا محالہ کئی ایکسپورٹ سے وابستہ صنعتیں بند ہو جائیں گی۔اس تناظر میں عالمی منڈیوں میں قیمت کی جنگ شروع ہو جائے گی اور ایکسپورٹ آرڈرز کے حصول میں وہی ایکسپورٹرز کامیاب ہوں گے جو قیمت کی اس جنگ میں سب سے ذیادہ مسابقت کرنے کے قابل ہوں گے۔

موجودہ حالات میں ڈومیسٹک انڈسٹریز کا بھی کاروبار مندی کا شکار ہے صرف ضروری اشیاء بنانے والی صنعتیں اپنی پیداواری صلاحیت کے مطابق کام کر رہی ہیں جبکہ دیگر تمام صنعتیں بشمول ایکسپورٹ انڈسٹریز اپنی مکمل پیداواری صلاحیت پر کام نہیں کر رہی۔ اس تناظر میں جب صنعتی و کمرشل سرگرمیاں کم ہوں گی توحکومت ریوینیو کس طرح حاصل کرے گی؟ اس بجٹ کے پس منظر میں معیشت کی تاریک تصویر نظر آتی ہے۔ معیشت کو استحکام دینے کی خاطر کوئی قابل ذکر تجویز بجٹ میں موجود نہیں۔حکومت نے پاکستان کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری کو وفاقی بجٹ 2020-21میں 17فیصدجنرل سیلز ٹیکس کے حوالے سے کوئی ریلیف نہیں دیا۔ ایف بی آر کو ریفنڈز سسٹم موثر نہیں اور ادائیگیوں میں تاخیر ایک سبب حکومت کی دیگر ترجیحات کی اخراجات کے سبب ریفنڈز کی ادائیگیوں کے رقوم کا بروقت موجود نہ ہونا ہے۔ سابق چیئرمین ایف بی آر کے نامتناسب اور غیر حیقیقت پسندانہ رویہ کی وجہ سے گزشتہ سال ٹیکسٹائل ایکسپورٹ سیکٹر پر 17فیصد سیلز ٹیکس لگا دیا گیا۔

اس سے پہلے پانچ بڑے ایکسپورٹ سیکٹرز یعنی ٹیکسٹائل، لیدر، کارپیٹ، سرجیکل اور اسپورٹس گڈز پر سیلز ٹیکس کے حوالے سے زیرو ریٹنگ نو پے منٹ نو ریفنڈز کا نظام کئی سالوں سے رائج تھا۔سیلز ٹیکس کے نفاذ کے بعد سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری کی مالی حالت خراب ہے اور ان کی لیکویڈیٹی اربوں روپے کی صورت میں حکومت کے پاس پھنس چکی ہے جبکہ سابق چیئرمین ایف بی آرجو سیلز ٹیکس کے نفاذ کے ماسٹر مائینڈ تھے جی ایس ٹی ریفنڈز کا کوئی موثر نظام دیئے بغیر عہدے سے سبکدوش ہو چکے۔ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے جائز مطالبات کا حکومت کے مالی منتظمین پر کوئی اثر نہ ہوا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ حکومت سے زیادہ آئی ایم ایف کے زیر اثر ہیں۔

اگر وزارت خزانہ کے معاملات آئی ایم ایف کی احکامات کے مطابق چلنے ہیں تو وزیراعظم پاکستان کو 50 لاکھ گھروں اور1کڑوڑ ملازمتیں فراہم کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا بلکہ اس کے برعکس صنعتوں کی زوال پزیر ی اور ایکسپورٹ کی تنزلی کی وجہ سے لاکھوں شہری روزگار کے ساتھ ساتھ گھروں سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ حالیہ بجٹ صرف تعمیراتی شعبے کو ریلیف دے گا جبکہ ٹیکسٹائل سیکٹر جو ملک کی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتا ہے، سب سے زیادہ ایکسپورٹ میں حصہ فراہم کرتا ہے، 42فیصد سے زائد اربن ایمپلائیمنٹ خاص طور پر خواتین اور غیر مراعات یافتہ طبقے کو ملازمیتیں دیتا ہے اور سب سے ذیادہ زرمبادلہ کماتا ہے اسے بالکل نظر انداز کیا گیا۔

ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز محسوس کرے ہیں کہ بجٹ بند کمرے میں تیار کیاگیا جس میںمشیر خزانہ حفیظ شیخ نے کسی بھی اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت یا بجٹ اجلاس نہیں کیا۔انھوںنے چند دوستوں سے ان کی تجاویز مانگی تھیں جو ایکسپورٹرز کی نظر میں مفاد پرستوں کا ٹولہ ہے جو ہر حکومت کے ساتھ دوستیاں بڑھاتا ہے اور اپنے ذاتی مفادات کے لئے کام کرتا ہے۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ حقیقی اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے اور ان کی مشاورت سے فیصلہ سازی کی جائے کیونکہ وہی اپنے مسائل کو بہتر جانتے ہیں اور ان کے حل کے لئے بہترین تجاویز دے سکتے ہیں۔اگر آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ریوینیوکا اہداف میں اضافہ ضروری ہے تو ایف بی آر کو اس کے لئے عملی کوششیں کرنی ہوں گی نہ کہ پہلے سے رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا جائے جس کی وجہ سے وہ اپنے کاروبار کو چلانے کے قابل ہی نہ رہیں۔

ایف بی آر کی غیر تسلی بخش کارکردگی کسی تعارف کا متحاج نہیں ۔ایف بی آر کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح میں بھی اضافہ کرنے میں ناکامی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے اور ادارہ نئے ٹیکس دہندگان کو دائرہ کار میں لانے کے بجانے زبانی جمع خرچ پر یقین رکھتا ہے۔ لہٰذا ایف بی آر کے غیر رجسٹرڈ شہریوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے تنظیمی ڈھانچے کو تنظیم نو کرتے ہوئے اصلاحات لانی ہو ں گی جس میں عملہ کارکردگی دکھائے۔گزشتہ سال مقامی ٹیکسٹائل فروخت کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کی خاطر ٹیکسٹائل ایکسپورٹ پر بھی ٹیکس لگایا گیاجس میں ایف بی آر ناکام رہا جبکہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کی سیلز ٹیکس کی شکل میں دی گئی رقوم پھنس گئیں جس کی وجہ سے ان کی پیداواری صلاحیت کے ساتھ ساتھ ایکسپورٹ میں بھی کمی آئی ہے۔حکومت نے نئے بجٹ میں نہیں بتایا کہ انھوں نے مقامی ٹیکسٹائل کی فروخت پر سیلز ٹیکس لگا کر کتنے شہریوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا اور کتنا ریونیو حاصل کیا اور حکومت کو کتنے فیصد کامیابی ہوئی؟

ملک کی معیشت کے استحکام کیلئے دو ہی موثر زریعے ہیں ۔پہلا ایکسپورٹس اور دوسرا ہوم ریمیٹنس۔ ایکسپورٹس کے ساتھ ہوم ریمیٹنس میں بھی کمی کا رجحان ہے۔ملک کے مفاد میں اہم ہے کہ حکومت ایکسپورٹ کے فروغ کیلئے سازگار پالیسی ترتیب دے جس سے نئے ایکسپورٹرز بنیں۔ کل کے چھوٹے ایکسپورٹرآج کے بڑے ایکسپورٹر بنے ہیں۔ اگر نئے ایکسپورٹرز آنے بند ہو گئے تو ایکسپورٹ کی تعمیر وترقی بھی رک جائے گی۔لہٰذا حکومت ایکسپورٹرز کی حوصلہ افزائی کیلئے ترجیحی اقدامات کرے۔

ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز حکومت سے اپیل کرتے ہیںکہ فوری طور پر تمام ضروری اقدامات اٹھائے اوران مشکل حالات میں برآمدی صنعتوں کے تحفظ کے لئے فوری ریلیف کا اعلان کرے۔ اس وقت ایک جنگی صورتحال کا سامنا ہے جس میں اہم ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔موجودہ صورتحال میں ایکسپورٹ انڈسٹریز دیوالیہ ہو سکتی ہیں اور کئی انڈسٹریز مستقل طور پر بند ہو جائیں گی اور لامحالہ لاکھوں کی تعداد میں ورکرز بے روزگار ہو جائیں گے جس کی وجہ سے بد امنی اور انارکی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔