غرور کا سر نیچا

June 28, 2020

ریان احمد

ایک جنگل میں چند چوہے اپنے بل سے نکل کر جھومتے گاتے لہراتے چلے جا رہے تھے ان کی یہ خوشی بے وجہ نہیں تھی ان کے یہاں اگلے روز ایک تقریب تھی اور اس تقریب میں ان کے سردار کی تاج پوشی تھی۔ وہ قرب جوار میں رہائش پذیر اپنے عزیزوں کو دعوت دینے جا رہے تھے ۔جنگل کے تمام جانور چوہوں کی موج مستی کو خوشگوار حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ چوہے جب ہاتھی کے پاس سے گزرے تو اس نے ان کو حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا،’’ کہ بڑے مزے آ رہے ہیں آخر مسئلہ کیا ہے۔‘‘ ایک چوہے نے کہا،’’ کہ کل ہمارے سردار کی تاج پوشی ہے، اس سلسلے میں دعوت دینے جا رہے ہیں۔‘‘ ہاتھی زور سے ہنسا اور بولا ،’ـ’تمہاری اوقات ہی کیا ہے اور تمہارا سردار اور پھر سردار کی تاج پوشی، جشن تاج پوشی اس کی حیثیت ہی کیا ہے، تمہارے جیسے درجن بھر چوہوں پر پیر رکھ دوں تو ان کا پتہ بھی نہیں چلے میرا وجود دیکھو میں تو بڑی احتیاط کرتا ہوں تمہارے پاس سے گزرتے ہوئے کہیں حقیر چوہا میرے پیر تلے نہ آجائے دنیا بھر کے چوہے بھی جمع کر لو تو بھی تم کیا کر لو گے تم تو کسی کام کے ہی نہیں ہو۔ اب تم کل چشن منائو گے شور شرابا کرکے جنگل کے سکون کو غارت کرو گے دیکھو کسی قسم کا فضول شور شرابا نہیں ہونا چاہیے ورنہ تم لوگوں کی خیر نہیں ہو گی۔‘‘

تاج پوشی کی رسم انتہائی خوف کے ماحول میں انجام پائی ان پر یہ خوف مسلط تھا کہ کہیں ہاتھی صاحب کو کوئی بات ناگوار نہ گزرے۔

جنگل میں کئی روز سے شکاری آئے ہوئے تھے، انہوں نے جنگل کے قریب ہی اپنی رہائش کی ہوئی تھی۔ وہ روز آتے جائزہ لیتے کچھ وقت گزارتے، کچھ کام کرتے جن کو جانور سمجھنے سے قاصر تھے ۔دراصل وہ ہاتھی کا شکار کرنے آئے تھے اور انہوں نے ایک مضبوط جال بچھایا تھا تاکہ ہاتھی کو قید کریں اور شہر لے جا کر معقول رقم حاصل کر سکیں۔

ایک دن ہاتھی مستی میں جھومتا ہوا چلا جا رہا تھا کہ اس نے کچھ پراسرار قسم کی سرسراہٹ محسوس کی تھوڑی دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ ایک مضبوط جال میں قید ہے کچھ دیر ہی گزری تھی کہ شکاری وہاں موجود تھے، انہوں نے آپس میں صلاح مشورے کیے اور طے پایا کہ ایک بڑا پنجرہ لایا جائے اس میں ہاتھی کو منتقل کرکے یہاں سے لے جایا جائے انہوں نے اس کام کے لیے اگلے روز کا طے کیا، پھر انہوں نے چاروں طرف سے چیک کرنے، اطمینان کے بعد کہ جال کہیں سے بھی کمزور نہیں ہے چلے گئے۔

ہاتھی خود کو قید پا کر پریشان تھا وہ رونے لگا، آہ بکا کرنے لگا اور ہر آنے جانے والے جانور سے درخواست کر رہا تھا کہ وہ جال کاٹ کر آزادی دلا دے لیکن جال بہت مضبوط تھا اسے کاٹنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی، وہ معذرت کرتے اور آگے بڑھ جاتے۔ کوئی ترس کھاتا تو کوئی مذاق اڑاتا کہ کہاں گئی تمہاری اکڑ، تمہاری بدمعاشی اب اپنے غرور کی سزا بھگتو غرور کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔

لومڑی کاگزر ہوا تو اسے ترس آیا اور کہا،’’ کہ تمہاری مدد تو صرف چوہے کر سکتے ہیں۔‘‘ ہاتھی نے کہا،’’ کہ تم جا کر چوہوں کو بلا لائو میں ان سے معافی مانگو گا اور مدد کی درخواست کروں گا۔‘‘ لومڑی کے کہنے پر چوہے جال کے پاس آئے۔ ہاتھی نے رو رو کر معافی مانگی اور کہا،’[ کہ میں اپنے رویے پر نادم ہوں مجھے معاف کر دو مجھے رہا کروا دو میں آئندہ اپنے جسم اور طاقت پر غرور نہیں کروں گا، کسی کو حقیر نہیں جانوں گا۔ چوہوں نے کہا ،’’کہ ہم اپنے سردار سے اجازت لے کر یہ کام کریں گے۔‘‘

چوہوں نے رات کو اپنی پوری فوج کے ساتھ نہایت محنت سے اس مضبوط جال کو کاٹ کر ہاتھی کو آزاد کر دیا۔ چوہے کے سردار نے ہاتھی سے کہا ،’’کہ تم آزادی کی قدر کرتے ہوئے کسی کو حقیر نہ سمجھو۔ آخر حقیر چوہوں کے باعث ہی تم آزاد ہوئے ہو ورنہ تم شہر میں ہوتے اور انسانوں کے اشارے پر ناچ رہے ہوتے۔ ‘‘ہاتھی نے کہا ،’’کہ وہ آئندہ نہ کسی کو حقیر سمجھوں گا اور نہ دھمکائوں گا سب کی آزادی اور حقوق کا خیال رکھوں گا میری ذات سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔‘‘