زمانہ ’’وقت‘‘ کا حیرت کدہ (قسط نمبر2)

July 05, 2020

اصل سال365 دن کا نہیں ہوتا بلکہ 365.242دن کا ہوتا ہے، اسی لیے لیپ برس تخلیق کیا گیا ہے، جس میں بجائے ہرسال گھنٹوں کا اضافہ کرنے کے ہر چوتھے سال فروری میں ایک دن کااضافہ کردیاجاتا ہے۔ جدید دَور میں ایٹمی گھڑیال ایک سیکنڈ کی آیندہ لاکھوں برس تک کی درستی کے ساتھ وقت بتاتا ہے۔

علمِ نفسیات کے مطابق بچّے وقت کو سب سے واضح طور پر دیکھ یا محسوس کرسکتے ہیں۔ دو سے تین برس کے بچّے کی وقت کی سمجھ ’’ابھی یا ابھی نہیں‘‘ تک محدود ہوتی ہے۔ پانچ اور چھے برس کی عُمر کے بچے ماضی، حال اور مستقبل کے بنیادی تصورات کو سمجھ لیتے ہیں۔ جب کہ سات سے دس برس کی عُمر کے بچّے کیلنڈر اور گھڑیاں باآسانی استعمال کر لیتے ہیں۔ وقت کے تصوّرِ ’’دورانیہ‘‘ کا بھی ایک دل چسپ پہلو ہے۔ نیند کے عالم میں گو وقت کا دورانیہ پہلے جیسا ہی گزرتا ہے، پر انسان کو اس کا شعور نہیں ہوتا۔ یعنی یہ حقیقت تو رہتا ہے، البتہ تجربے اور مشاہدے میں نہیں رہتا۔ گویا اسے حرکت سے بھی مشروط کیا جاسکتا ہے۔ یہاں سوال پیداہو سکتا ہے کہ کیسی حرکت؟ ہماری اپنی جسمانی حرکت، اپنے اندر کی حرکت یا باہر کسی شے کی حرکت۔ یہاں عجب معاملہ ٹھہرتا ہے۔ ہم جتنی کم (اندرونی وبیرونی) حرکت کریں، ہمیں اتنا زیادہ وقت کے وجود کا احساس ہوتا ہے۔ ہم تیز حرکت کریں تو وقت کے گزرنے کا احساس کم ہوتا ہے یعنی وقت جلدی گزر جاتا ہے۔

ایک ایسا انسان جوذہنی وجسمانی طور پر متحرک نہ ہو، وقت کو ایک بوجھ محسوس کرتا ہے، جب کہ ایک متحرک ومصروف شخص اکثر وقت کی کمی کے احساس کا شکار رہتا ہے۔ لاما انگریما گوندا کے مطابق ’’وقت اور جگہ کا تعلق حرکت سے ہے۔‘‘ بدھ دھرم میں ’’دھرم کایا‘‘ تمام بصیرت کا ماخذ اور اس کی بنیاد ہے۔ اسے کائنات کی علامتی شکل ’’کالا کاکرا منڈالا‘‘ کے وسط میں رکھا جاتا ہے۔ یہاں کالا (بہ معنی سیاہ) غیر مرئی اورمتبائن اصول کو ظاہر کرتا ہے اور وقت کی علامت ہے۔ بدھ فکر کے مطابق یہ ہر شے میں موجود ہے۔ بدھ اساطیری وعلامتی تصاویر میں کئی سَروں، بازوؤں اورخوف ناک رُوپ والا بہ یک وقت شیطانی و رحمانی صفات کا حامل دیوتا سیاہ رنگا ہے۔ یعنی وقت،کائنات میں ہر سُو لپا ہوا ہے۔ بدھ مت میں مہاتما بدھ مختلف شکلوں اور جان وَروں کی قسموں میں پیدا ہوتے ہیں۔ انھیں ’’جاتک کہانیوں‘‘ میں بیان کیا گیا ہے۔

زرتشت کے ماننے والے پارسی ایک دَور کو 12000برس طویل سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اس کے اخیر میں نیکی کا خدا، اہورامزدا بدی کے خدا، اہرمن پر غالب آجائے گا۔ ہندومت میں آواگون کا تصوّر کہیں ایک سے سات اور کہیں ایک سے چوراسی جنموں کا احاطہ کرکے انسانی بقائے دوام کی عکّاسی کرتاہے۔ ہندو مت وجودِ انسانی کو زندگی و موت و زندگی کے لامتناہی سلسلے میں بندھاہوا سمجھتا ہے۔ اس میں ایک چکر ایک دن اور ایک رات پر محیط ہے، جو 2.46 ارب برسوں پر مشتمل ہے۔ کارل ساگاں کے مطابق یہ بِگ بینگ (عظیم دھماکا) کے،جس سے کائنات وجود میں آئی اور مسلسل پھیل رہی ہے، نصف برابر مدت ہے۔ ڈاکٹر ناہید قمر نےڈاکٹریٹ کے اپنے عُمدہ تھیسس ’’اردو فکشن میں وقت کا تصوّر‘‘ میں انتظارحسین کے ناول ’’آگے سمندر ہے‘‘ سے ’’کال‘‘ یعنی ’’وقت‘‘ کا حوالہ نقل کیا ہے۔ ’’شبھو مہاراج بولے ’’سب کال چمتکار ہے۔ ہم تم اس کے آگے بےبس ہیں۔

ہم سوجاتے ہیں، پرکال جاگتا رہتا ہے۔ پھر وہی ہمیں جھنجھوڑکےجگاتا ہے۔ کال مہابلی ہے، ہم نربل ہیں، اس کے آگے بے بس ہیں۔ ہم مُورکھ سَوجاتے ہیں۔ وہ جاگتا رہتا ہے۔ پھر وہ ہمیں جھنجھوڑ کر جگاتا ہے اور جب ہم جاگتے ہیں اور آنکھیں کھول کے اپنے چاروں اور دیکھتے ہیں تو سب بدل چُکا ہوتا ہے۔‘‘ مستنصرحسین تارڑ کے شاہ کار ناول ’’راکھ‘‘ میں وقت کے متعلق القا کیے گئے الفاظ یوں ہیں۔ ’’وقت کیسے گزرتا ہے،آہٹ بھی نہیں ہوتی۔ آپ وہیں کھڑے رہتے ہیں اور وہ گزر جاتا ہے یا شاید آپ گزر جاتے ہیں اور وہ کھڑا رہتا ہے۔‘‘ فلسفی ان امور پر متفّق ہیں کہ وقت ’’مسلسل‘‘ ہے، اس کی ایک سمت اور ترتیب ہے، یہ خودبخود وجود میں آتا ہے۔ یونان و ہند معلوم تاریخ کی پہلی اقوام تھیں، جنھوں نے بہت سی ایسی اشیا اور امور کی ماہیئت پر غور وفکر کیا، جنھیں ان سےپہلےبِلا ردّوقدح تسلیم کر لیا جاتا تھا۔ اُن میں مادّہ، جگہ، قدرت، تغیّروتبّدل اور وقت وغیرہ شامل تھے۔ ان ہی ادوار میں سوال پیدا ہوا کہ آیا وقت اُفقی یعنی سیدھی لکیر میں سفر کرتا ہے یا سورج، چاند کی حرکت کی مانند دائرے میں تیرتا ہے۔ فلسفے میں وقت کے حوالے سے جن نکات پر زیادہ غور کیا گیا، وہ اس کے حقیقی وجود رکھنے یا ایک تصوّراتی خیال ہونے کے بارے میں رہا ہے۔

ارسطو اور اس کے ہم خیال موقف رکھتے تھے کہ وقت کا ان واقعات سے ماورا کوئی وجود نہیں جو اس میں پیش آتے ہیں۔ وقت واقعات اور اشیا سے منسلک ہے۔ اس خیال کےبرعکس افلاطون، نیوٹن اور دیگر وقت کو ایک خالی مرتبان کی طرح دیکھتے تھے، جس میں اشیا اور واقعات رکھے ہیں۔ یہ مرتبان اپنے اندر دھری اشیا اور واقعات سے علیحدہ بھی اپنا انفرادی وجود رکھتا ہے۔ ارسطو کا خیال تھا کہ وقت کی کوئی ابتدا نہیں۔ اس کا خیال تھا کہ وقت کی ابتدا کے لیے لازم ہے کہ اس کا کوئی پہلا لمحہ بھی ہو۔ پہلے لمحے کا وجود نسبتی قدر ہے۔

اسے تبھی تصوّر کیا جاسکتا ہے، جب نہ صرف اس کے بعد لمحات کا وجود ہو بلکہ اس سے پہلے بھی وقت موجود ہو اور یہ ان کے درمیان میں وجود میں آیا ہو۔ اگرایسا ہو تو پھر یہ ’’پہلا لمحہ‘‘ نہیں ہوسکتا اور اپنےاوّلین وقت ہونےکے تصوّر کی نفی کردیتاہے۔ اس طرح کے دلائل کی بنیاد پر ارسطو وقت کے آخری لمحے کے تصوّر کے بھی خلاف تھا۔ یعنی اس کی کوئی ابتدا اور آخیر نہیں اور یہ متسلسل ہے۔ قدیم تہذیبوں میں اِنکا، مایا، امریکی قبائلی، بابل، یونانی، ہندو، بدھ، جین اور دیگر وقت کے پہیے یعنی اس کے گولائی میں حرکت کے قائل تھے۔ اسلامی، یہودی، مسیحی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے اسے ایک سیدھی سمت میں دیکھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک وقت خدا کےحکم سے کائنات کے ساتھ وجود میں آیا اور موجودہ نظام کی بساط لپیٹے جانے کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گا۔ سینٹ آگسٹائن اپنےخیال اور فہم کو الفاظ کا رُوپ نہ دےپانےکی الجھن میں کہہ اٹھتا ہے’’پھر وقت کیا ہے؟ اگرکوئی مجھ سے یہ سوال نہ کرے تو مَیں خُوب جانتا ہوں۔

اگر مَیں اسےبیان کرنے کی کوشش کروں گاتو اپنے آپ کو اس کے بیان سے معذور پاؤں گا۔‘‘ البتہ وہ مبہم انداز میں وقت کو ایک ایسی بساطِ خیال قرار دیتاتھا، جس پربیٹھا آدمی ماضی کو اپنی یادداشت میں قید کرتا ہے، حال پر توجّہ مرکوز رکھتا ہے اور مستقبل کو توقعات کی نظر سے دیکھتا ہے۔ بنظر غائر دیکھاجائے تو انسان حال کو حد درجے پھیلانا چاہتا ہے۔ گو اسے مستقبل سے وابستہ دل لبھاتی توقعات اپنی جانب کھینچی ہیں تو نادیدہ موت خوف زدہ بھی کرتی ہے۔ یوں وہ لاشعوری طور پر وقت کے تھمنے کا تمنّائی ہوتا ہے تاکہ فنا کے ہاتھوں معدوم نہ ہوجائے۔ دنیا کا تمام بڑا ادب اور فلسفہ موت کے خوف کی کوکھ سے برآمد ہوتاہےاورفلسفۂ وقت بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔ مارٹن ہیڈیگر نے تو یہاں تک کہا ’’ہم وقت میں زندہ نہیں، ہم ہی وقت ہیں‘‘۔

درحقیقت ہر علاقے کے علاوہ اُس میں بسنے والے ہر فرد کا ’’وقت‘‘ اور’’ادراک‘‘ مختلف ہوتا ہے۔ بچپن میں گرمیوں (یاسردیوں )کی چُھٹیاں اپنی طوالت کی وجہ سےگزرنے میں نہ آنے کا احساس پیدا کرتی ہیں۔ یہی وقت ایک پچاس برس کے آدمی کو بہت تیزی سے گزرتا محسوس ہوتا ہے۔ یعنی ہر مختلف فرد کا وقت ہی مختلف نہیں ہوتا بلکہ عُمر کے مختلف حصّوں میں ایک ہی شخص میں وقت کا ادراک بھی مختلف ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچپن میں بچّہ ہر شےکو غور سے دیکھ رہا ہوتا ہے یوں وہ ’’حال‘‘ میں زندہ رہتا ہے۔ بعد کی عُمر میں انسان کے پاس ’’ماضی کی یادوں کا سرمایہ‘‘ اور ’’مستقبل کی امیدوں اور اندیشوں‘‘ کا اَن دیکھا جہان ہوتا ہے۔ یوں وہ کم ہی وقت حال میں گزارتا ہے۔ وقت کو سُست کرنے کے اہم امور میں ’’حال میں زندہ‘‘ رہنا بھی شامل ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بدھ، ہندو اور دیگر دھرموں میں گیان دھیان کے علاوہ یوگا کی مشقوں میں بھی ذہن کو خالی کر کے حال پر توجّہ مرتکز کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ لمحات یا ثانیے میں گنے جانے والے وقت کی محدود دنیا سے نکل کر وقت کے ’’تصورِزماں‘‘ کی وسیع کائنات میں جھانکاجائےتو اس کےسائنسی، فلکیاتی اورفلسفیانہ تصورات پرطائرانہ نظر ڈال لینا موزوں ہوگا۔ ممتاز دانش ور، یحییٰ امجد اپنے مضمون ’’زمان و مکاں کے عینی اور مادی تصوّرات‘‘ میں لکھتے ہیں، ’’مغربی ماہرین فلکیات یہ باور کرواتے ہیں کہ کائنات کا مجموعی طور پر ایک نقطۂ آغاز ہے اور اس کا مِن حیث المجموع بھی ایک سلسلۂ ارتقا ہے۔ اس سلسلے میں ایک نظریہ تو عظیم دھماکےکاہےیعنی کائنات ایک ’’ماقبل کائنات ایٹم‘‘ یا ’’ماقبل کائنات آتشی گولے‘‘ کے عظیم دھماکے سے پھٹ جانے پر وجود میں آئی۔ دھماکے سے جو قدیم مادّہ ہر سمت بکھر گیا، وہی کائنات ہے۔ چوں کہ دھماکےسے مادہ بکھرگیا تو وہ یقیناً مسلسل پھیل رہا ہے۔ اگر کائنات پھیل رہی ہے تو یقیناً یہ محدود کناروں میں بند کائنات ہے، جس کے کنارے پھیل رہے ہیں۔

اگر یہ آغاز رکھتی ہے تو اس کا انجام، یوم فنا بھی ضرور ہوگا۔ مغربی سائنس دانوں نے اس یومِ فنا کی بھی پیش گوئی کی ہے۔ حراری حرکیات کے دوسرے قانون کو بنیاد بنا کر وہ مرگ حرارت کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔ چوں کہ حرارت گرم سے ٹھنڈے اجسام کی طرف سفر کرتی ہے۔ پوری کائنات جو اپنی سرحدوں میں بند ہے، ایک روز حراری حرکیات کے توازن کو پالے گی اور کُل کائنات ایک جامد تالاب میں بدل جائے گی، جس میں حرکت اور تبدیلی کے سب امکانات ختم ہوجائیں گے۔ ایسا ہی دن کائنات کا آخری دن، فنا کا دن ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات کا بحیثیت مجموعی کوئی یومِ آغاز اور کوئی یومِ فنا نہیں ہے، کیوں کہ کائنات مجموعی طور پر ایک ٹھوس چیز نہیں ہے، جیسے میز، کرسی۔ نہ یہ ایک بند نظام ہے۔

ٹھوس اشیا کا آغاز و انجام ہوتاہےاور ان کا اپنا ’’وقت‘‘ اپنا ’’زمان‘‘ ہوتاہے۔ ایک عنصری جزو کا اپنا وقت ہوتا ہے۔ مثلاً نیوٹران کی زندگی قریباً سترہ منٹ ہوتی ہے لیکن مختلف قسم کے میسان اور ہائپران عموماً ایک سیکنڈ کا دس کروڑواں حصّہ ہی زندہ رہتے ہیں۔ ان کے ’’نظامِ زندگی‘‘ یا ’’زمانی ترتیبِ زندگی‘‘ (پیدائش، بچپن، جوانی، بڑھاپے، موت) کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے ہیں۔ کیوں کہ یہ سارا عمل اتنے مختصر وقفے میں ہوجاتا ہے کہ ہم اِسے سمجھنے ہی سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ تاہم یہ اس کا اپنا وقت ہے، جس کا آغاز و انجام ہے۔ اِسی طرح انسان کا وقت اُس کی اپنی زندگی کے پیمانے سے ہوتا ہے۔ نظامِ شمسی کا اپنا وقت ہوتا ہے اور یہ سب اوقات ’’محدود‘‘ اور ’’متعین‘‘ ہیں۔

چناں چہ کائنات کا وقت اِن متعیّن اوقات کے اندر ہی اپنا وجود رکھتا ہے۔ ان سےباہریا ان سےماورا نہیں۔ ایسا سوچنا خام خیالی ہے۔ ایسا وقت جوان متعین اوقات سے آزادانہ اپنا وجود رکھتا ہو، محض ایک ذہنی تجرید ہے۔ وقت مِن حیثیت الوقت، مادّی آلائشوں سے پاک، صرف ایک تصوّر ہے۔ مابعد الطبیعیاتی مفکّرین ہمیشہ وقت کو ایک مربوط دریا کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، وقت ایک بہتا ہوا دریا ہے۔ اردو ادب میں اس کے لیے لمحہ ٔسیال کی ترکیب بڑے ذوق و شوق سے استعمال کی جاتی ہے۔ ان کے خیال میں لمحۂ سیّال ازلی اور ابدی وقت ہے۔ سیکنڈ، منٹ گھنٹے، دن، مہینے، سال کی تقسیم سے ماورا، ان کےخیال میں وقت نظامِ شمسی، زمین کی محوری اور مداری حرکتوں سے بےنیاز ناقابلِ تقسیم اکائی ہے، جو قائم بالذات ہے۔

مابعد الطبیعیاتی مفکّریقین رکھتے ہیں کہ وقت مادّی سلسلہ ہائے عمل کے اندر یا ان کے حوالے سے وجود نہیں رکھتا بلکہ ہرقسم کے مادّی اعمال سے باہر آزاد وجود رکھتا ہے۔ یہ ہے ان کا ’’مطلق وقت‘‘ کا تصوّر۔ واقعی اگر ایسا کوئی عجیب وغریب ہمہ گیر وقت کا دریا مادّی سلسلہ ہائے عمل سے باہر موجود ہے، تو پھر وہ مادّے سے ماورا ہے اور پھر یقیناً یہ ماننا پڑے گا کہ اس قسم کا مادّے سے دراء ُ الوراء وقت خدا ہی کا دوسرانام ہے۔‘‘آئن اسٹائن کہتا ہے کہ مطلق زمان کا تصوّر ممکن نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دو مختلف واقعات دو مختلف مقامات پر ایک وقت میں تصوّر نہیں کیے جاسکتے۔ اگر دو لوگ ایک ہی نظام میں ساکن موجود ہوں یا یک ساں رفتار سے ایک ہی رُخ پر حرکت کر رہے ہوں تو کسی ایک واقعے کا مشاہدہ ’’ہم وقتی‘‘ کے ذیل میں آتا ہے۔

البتہ چوں کہ ہر شخص کا علیحدہ اور مخصوص وقت ہوتا ہے، جو اُس نظام میں موجود عناصر اور اس شخص کی بصیرت وبصارت پر انحصار کرتا ہے، اس لیے وہ کسی دوسرے نظام میں موجود شخص کے وقت سے مختلف ہوگا، چاہے وہ دونوں اپنے اپنے نظاموں میں مختلف واقعات کے ایک ہی وقت ہونے کا دعویٰ کریں۔ اُن کا دعویٰ ان کی اپنی انفرادی حد تک درست ہوگا۔ مگر بحیثیتِ مجموعی دیکھا جائے تو ان کے عمل میں آنے میں فرق (معمولی سہی) ضرور ہوگا۔

جدید سائنس کے مطابق مادّہ اور توانائی ایک دوسرے کی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ آئن اسٹائن نےثابت کیاکہ مادّے سے توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مادّہ پرست دلیل دیتے تھے کہ خدا جو غیر مادّی وجود رکھتا ہے، مادّی دنیا اور اس کی موجودات کو کیسے تخلیق کرسکتا ہے؟ سائنس نے ثابت کردیا کہ مادّہ اور توانائی ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں۔ گویا روشنی اورمادّہ ایک ہی شے ہیں۔ اس حوالے سے قرآن پاک کی آیتِ مبارکہ کو دیکھا جانا چاہیے۔ ’’اللَّہُ نُورُ اَلسَّمَٰوَٰتِ وَالأَرْضِ (اللہ آسمانوں اور زمینوں کا نورہے)۔‘‘ وقت کی قرآنی اہمیت رُخِ دیگر سے ایک آیت کی روشنی میں دو چند ہوجاتی ہے جس میں شانِ ربوبیت زمانے کی قسم کھاتی ہے۔ ’’والعصر ان الانسان لفی خسر (عصرکی قسم !بے شک انسان خسارے میں ہے)۔‘‘یہاں عصر کے وقت کاچندمفسّرین نے زمانے پر بھی انطباق کیا ہے۔ قرآن پاک میں سورۃ حج کی ایک اور آیت وضاحت کرتی ہے۔ ’’ویستعجلونک بالعذاب ولن یخلف اللہ وعدہ وان یوما عندربک کالف سنۃ مما تعدون (اور(یہ لوگ)تم سے عذاب کے لیے جلدی کر رہے ہیں اور اللہ اپنے وعدے کے ہرگز خلاف نہیں کرے گا اور بےشک تمھارے پروردگار کے نزدیک ایک روز تمھارے حساب کی رُو سے ہزار برس کے برابر ہے)۔‘‘ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی نے اپنے مضمون ’’اقبال کا تصوّرِ زمان ومکان‘‘ میں اقبال کی علمی وفکری قابلیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اُن کے خطبات کے صفحہ52 سے حوالہ دیاہے۔ ’’نظریۂ اضافت مادّے کے متعلق اس تصوّر کا خاتمہ کرتا ہے کہ مادّہ نیچر میں خود بہ خود پھیلا ہے۔

جدید اضافیتی طبیعیات میں مادّہ کوئی پائدار شے نہیں، جس کی خاصیتیں بدلتی جائیں، بلکہ یہ محض ’’ایک باہمی تعلق رکھنے والے واقعات‘‘ کے نظام کا نام ہے۔‘‘ اسی بات کو نٹشے کے خیالات کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔ نٹشے کے خیال کے مطابق زماں بار بار لوٹ کرآتاہے۔ توانائی ہرشکل میں مجموعی طور پر مقدارمیں برابر رہتی ہے، فقط مادّی یا دیگر شکلیں بدلتی ہے۔ اسی لیے نٹشے کاخیال ہے کہ دنیا ازل سے قائم ہے اور ابد تک قائم رہے گی۔

فقط اس کی اشکال بدلتی رہیں گی، یہ لامتناہی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ہر واقعہ اپنے آپ کو مختلف اوقات میں مختلف ترتیب سےدہراتا ہے۔ اقبال نٹشے کے اس خیال کو جبریت قرار دیتے ہیں۔ چناں چہ وہ سمجھتے ہیں کہ بقائے دوام ناقابلِ برداشت نظریہ ہے۔ یہ جبریت کے نظریۂ تقدیر (نظریۂ جبرنہ کہ قدر، یعنی یہ کہ سب پہلے سے طے شدہ ہے اور اختیاری نہیں) بہت اُداس اور بور کردینے والا ہے۔

انسان، تبدیلی پسند کرتا ہے اور اس کے لیے کوشش بھی کرتا ہے۔ اگر انسان یقین کرلے کہ زمانہ اپنے آپ کو دہراتا رہے گا اور کچھ نیا نہ ہوگا تو اس کے اندر جدوجہد کی لگن دم توڑ دے گی (از ڈاکٹر رضی الدین صدیقی)۔ یہاں بحث میں Eternalists (دوامیت پسند) داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ وہی نظریہ ہے، جس میں ماضی، حال اور مستقبل بیک وقت ایک مکان کے کمروں کی طرح موجود ہیں۔ ایک کمرے سے دوسرے میں جانے کے لیے سفر کرکے دروازہ کھول کرجانا پڑتا ہے۔ اسی طرح حال سے مستقبل میں جانے کے لیے ’’وقت‘‘ اور ’’زمانے‘‘ میں سے گزرنا پڑتا ہے۔

مستقبل آج تخلیق ہو چُکا ہے اور کہیں موجود ہے۔ جیسا کہ ابتدا میں بیان کیا جاچُکا ہے کہ اسی شے کو دیکھا جاسکتا ہے جو موجودہو۔ غیر تخلیق شدہ شے نہیں دیکھی جاسکتی۔ سو، مستقبل میں تبھی (بذریعہ مراقبہ، خواب،الہام، وحی) دیکھا جاسکتا ہے، جب وہ بنا بنایا موجودہو۔ یہ نظریہ جبریہ والوں کے دل کے عین قریب ہے، جو سمجھتے ہیں کہ چوں کہ مستقبل اور قسمت تخلیق ہوچُکے ہیں۔ (جاری ہے)