معاشی استحکام لانا ہے تو سیاسی استحکام لائیں

July 02, 2020

قومی اسمبلی کا بجٹ حسب توقع ہنگامہ خیز رہا۔ بجٹ بحث کیلئے 40گھنٹے مقرر تھے لیکن یہ بحث 60گھنٹے جاری رہی ۔ ممبران نے دل کھول کر اظہار خیال کیا۔ بات صرف بجٹ تک محدود نہیں رہی بلکہ اپوزیشن نے آٹا ، چینی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے لے کر گورنینس تک تمام ایشوز اٹھائے اور حکومت پر شدید تنقید کی اور اسے ہر محاذ پر ناکام قرار دے کر وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کر دیا۔ وزیر اعظم عمران خان خود اجلاس میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ اپنی حکومت کی کار کردگی کا بھر پور دفاع کیا۔ اپنے غیر ملکی دوروں کانواز شریف اور یوسف رضا گیلانی اور آصف زرداری کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے کم اخراجات کئے ہیں۔حکومت کی اتحادی جماعتوں بی این پی مینگل کے سر براہ سرداراختر مینگل اور جموری وطن پارٹی کے شاہ زین بگٹی نے بھی تیور دکھائے۔

ق لیگ نے کھل کر احتجاج نہیں کیا تاہم اندرون خانہ گلے شکوے کئے۔پی ٹی آئی حکومت جسے پہلے ہی کرونا جیسی مہلک وبا سے نمٹنے کا چیلنج درپیش تھااور جس سے انہیں تنہا نمٹنے کا شوق بھی تھا اس کیلئے بجٹ منظور کرانا بھی ایک مشکل چیلنج ثابت ہوا۔بجٹ کے موقع پر وزیر سائنس اینڈ ٹیکنا لوجی فواد چوہدری کے انٹریو نے یہ منفی تاثر دیا کہ گویا حکمران جماعت اندرونی طور پر اب اختلافات کا شکار ہوچکی ہے۔حکومتی بنچوں کے دو ممبران راجہ ریاض اور خواجہ شیراز نے بجٹ بحث کے دوران حکومت پر کڑی تنقید کی اور حکومتی ارکان اس صورتحال میں بے بس نظر آئے ۔

وزیراعظم بجٹ کے دوران حکومتی اراکین کی حاضری یقینی بنانے کے لئے پارلیمنٹ ہائوس کے چیمبر میں کئی مرتبہ آئے اور انہوں نے متعدد ممبران سے ملاقاتیں بھی کیں مالیاتی بل سے ایک روز پہلے انہوں نے اتوار کی شب وزیراعظم ہائوس میں پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں کے ممبران کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا ۔ وزیراعظم کے عشائیہ نے حکمران اتحاد میں پڑنے والی دراڑوں کی تصدیق کردی ۔ مسلم لیگ ق نے عشائیہ میں شرکت سے انکار کر دیا۔ اسپیکر اسد قیصر وزیر ہائوسنگ چوہدری طارق بشیر چیمہ کی رہائش گاہ پر گئے لیکن انہوں نے وزیر اعظم کے عشائیہ میں شرکت سے انکار کر دیا۔

وزیر اعظم عمرانخان نے پیٹرول کی قیمت میں 33فیصد اضافے کا جوفیصلہ کیا اس کی غلط ٹائمنگ نے حکومت کیلئے زیادہ مشکلات پیدا کردی ہیں ۔اپوزیشن نے اسے عوام کی جیبوں پر تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی قرار دیا ہے جس سے آئل کمپنیوں کو 300ارب روپے کا فائدہ پہنچا ہے۔پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا ایک مروجہ طریقہ کار ہے ۔ اس میں ردو بدل مہینے کی آ خری تاریخ کو ہوتا ہے ۔ اوگرا قیمتوں میں ردو بدل کی سمری وزارت خزانہ کو بھیجتی ہے ۔ وزارت خزانہ اپنی رائے کے ساتھ یہ سمری وزیر اعظم کو بھیجتی ہے۔

یہ حیران کن بات ہے کہ اوگرا کی سمری کا انتظار کئے بغیر وزارت خزانہ نے از خود ایک سمری وزیر اعظم سے منظور کرالی جس کا اطلاق 26جون کی شب 12بجے سے کر دیاگیا۔پیٹرول پمپ مالکان چونکہ باخبر تھے اسلئے انہوں نے رات نوبجے سے پیٹرول اور ڈیزل کی فروخت بند کردی۔جہاں دستیاب تھا وہاں لمبی قطاریں لگ گئیں ۔اگلے ہی روز قومی اسمبلی میں سب سے بڑ ایشو پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ بن گیا اور بجٹ پیچھے رہ گیا۔ وزیر توانائی اسد عمرنے روایتی جواب دیا کہ اضافہ کرنا ہماری مجبوری تھی۔

حکومت کی جانب سے عجیب منطق سامنے آئی کہ اضافہ کے باوجود پاکستان میں پیٹرول کی قیمت اب بھی جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ حکومت جوبھی دلیل دے امر واقعہ یہ ہے کہ پیٹرول کی قیمت میں 33فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ سے ہر شہری متاثر ہوتا ہے۔ موٹر سائیکل ، رکشے ، ویگن اور بسوں سے لے کرکار تک اور زرعی شعبہ میں ٹر یکٹر استعمال کرنے والے اس سے بارہ راست متاثر ہوتے ہیں ۔

اس حکومتی فیصلہ سے عوام میں پی ٹی آئی بالخصوص عمران خان کی مقبو لیت کا گراف گرا ہے۔حکومتی وزارء پہلے یہ کہتے تھے کہ پیٹرول کی قیمت میں فوری کمی ممکن نہیں کیونکہ ہم دو ماہ کی اوسط قیمت مقرر کرتے ہیں ۔ اب معاون خصوصی ندیم با بر عالمی منڈی کی 20جون کی قیمت کا حوا لہ دے رہے ہیں تو سوال تو بنتا ہے کہ اب وہ دو ماہ کی اوسط کا اصول کہاں گیا۔ دوسرے یہ کہ جن دوسرے ممالک کا حوالہ دیا جا تا ہے ان کی فی کس آمدن ہم سے زیادہ ہے ۔

وہاں قوت خرید ہم سے زیادہ ہے۔ خود وزیر اعظم کہتے ہیں کہ یہاں 25فی صد آ بادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔دوسرے کرونا کی وجہ سے بزنس ٹھپ ہوگئے ہیں ۔ لاکھوں لوگ بیروزگار ہوئے ہیں ۔ سر کاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ نہیں کیا گیا۔ ان حالات میں تو عوام کو ریلیف کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم بہر حال یہ درست کہتے ہیں کہ انہیںمافیا کا سامنا ہے ۔

اب تک وزیر اعظم نے جن مافیا ز پر ہاتھ ڈالا ہے ان سب کو فائدہ ہوا ہے۔گندم کاشکاروں سے 1300روپے من خریدی گئی ۔ اب گندم کا ریٹ 1800 سے 2000 روپے فی من ہے۔ آ ٹا 3200روپے من پر چلا گیا ہے۔ خریف میں گندم کا یہ ریٹ کبھی نہیں ہوا۔ گویا آٹے کی انکوائری کا نتیجہ آٹے کے ریٹ میں اضافے کی صورت میں نکلا۔ چینی کے بحران کی انکوائری کی گئی ۔ اب چینی 80سے 85روپے فی کلو گرام بک رہی ہے۔یہ چینی ن لیگ کے دور میں2018میں 53روپے کلو تھی۔ پی ٹی آئی کے دور میں 68روپے پر گئی تو انکوائری کا حکم دیا گیا۔انکوائری کے بعد ذمہ داروں کے خلاف تو نجانے کیا کاروائی ہوگی لیکن چینی ضرور مہنگی ہوگئی ۔

حکومت نے پیٹرول سستا کیا تو آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے ایکا کر لیا اور سوائے بڑے شہروں کے ملک بھر میں پیٹرول کیلئے قطاریں لگ گئیں ۔ لیکن آخر میں آئل مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔بہر حال پی ٹی آئی حکومت نے اپوزیشن کو لوز بال دیدی ہے اور اپوزیشن اس پر شاٹ لگانے کو تیار ہے۔ اس مرتبہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری متحرک ہیں جنہوں نے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف ، جے یو آئی ف کے مو لانا فضل الر حمنٰ ، سردار اختر مینگل ، آ فتاب شیر پائو اور میر حاصل بزنجو سے ٹیلی فون پر رابطے کئے ہیں ۔ بجٹ کا مرحلہ طے ہوگیا ہے۔

اب اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس ہو گی۔پہلے جے یو آئی ف کا آزادی مارچ اسلئے نتائج نہ دے سکا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نیم دلی سے ساتھ تھے۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو نے آزادی مارچ میں صرف علامتی شرکت کی تھی۔ دونوں جماعتوں کا موقف تھا کہ حکومت کو تھوڑا ساوقت اور دیں اور اس کی صلاحیتوں کو بے نقاب ہونے دیں تاکہ عمران خان سیا سی شہید نہ بنیں بلکہ ایک ناکام حکمران کے طور پر گھر جائیں ۔اب ساری اپوزیشن ایک پیچ پر جمع ہورہی ہے جو پی ٹی آئی حکومت کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگر پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر اپوزیشن نے مل کر احتجاج کی کال دی تو حکومت کیلئے مسائل جنم لے سکتے ہیں ۔

وزیر اعظم کیلئے اب بھی موقع ہے کہ ملک کو درپیش معاشی چیلنج سے نمٹنے کیلئے اپوزیشن کو ساتھ ملائیں اور میثا ق معیشت کریں ۔ اس وقت جو چیلنجز درپیش ہیں ان سے کوئی سیا سی جماعت تنہا عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔ اس وقت قومی اتحاد، یکجہتی اور قومی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ سیا سی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں ۔ سر حدوں پر دشمن کے عزائم اچھے نہیں ہیں ۔ کرونا کا ایشو ہے ۔ ان حالات میں الزامات کی سیا ست کو کچھ عرصہ کیلئے پس پشت ڈال کر ملک و قوم کے مفاد کو اولیت اور ترجیحدی جا ئے۔