اپوزیشن میں ہم آہنگی کا فقدان کیوں؟

July 09, 2020

بادی النظر میں تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے وفاقی بجٹ بہت آسانی سے منظورکرالیا تھا۔وزیراعظم کے خلاف عدم اعتمادکی تحریک بھی اب قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصرکی سطح پرآگئی ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں کمی کافیصلہ ایک ماہ بھی برقرار نہیں رہ سکا۔ اوروزیراعظم نے یکدم 25 روپے فی لیٹر اضافے کا نوٹس لیکر اصلاح احوال کیلئے کمیٹی قائم کردی لیکن لگ بھگ 20 دن ہونے کو آئے ہیں نہ تو وزیراعظم کے نوٹس لینے کا کوئی نتیجہ نکلااورنہ ہی کمیٹی کے قیام سے۔ حکومت کے متعدد اقدامات ایسے ہیںجن کا خود حکومت کا دفاع کرنے والے ارکان کے پاس بھی کوئی معقول جواب یا جواز نہیں۔

اس لیے یہ تاثر تقویت پکڑ رہا ہے کہ وزیراعظم جس غلطی یا خامی یا برائی کا نوٹس لیتے ہیںاس میں بہتری آنے کی بجائے منفی انداز سے اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن ان تمام خامیوں، غلطیوں اورغیردانشمندانہ فیصلوں کے باوجود اپوزیشن کے پاس سوائے ہرزہ سرائی اورالزامات عائد کرنے کے کوئی ٹھوس پروگرام نہیں ہے اسی لیے انھیں وزیراعظم کا شکرگزارہونا چاہیے کہ انھوںنے بجٹ اجلاس کے آخری روز قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران اپوزیشن کی اس طرح ـ’’مدد‘‘ کی کہ ایک موقع پر انھوںنے کہا کہ اگر میں مائنس بھی ہوگیا تو(حکومتی بنچوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے )یہ بھی ان کو نہیں چھوڑیں گے۔ اس طرح سیاسی مارکیٹ کے علاوہ ٹی وی ٹاک شوز اورسوشل میڈیاپرایک نیا موضوع زیربحث آگیا کہ وزیراعظم نے اپنے مائنس ون ہونے کی بات کیوں کی۔

کیا واقعی اعلیٰ سطحپربھی ایسی بات سوچی جارہی ہے اور کیا عمران خان بھی اس بات کیلئے تیار ہیں۔ کم از کم ان کی اس بات سے تو ایسا ہی لگتا ہے۔ پھر ان کے اتحادی شیخ رشید کی اس بات نے بعض نئے خدشات کے ساتھ اس تاثر کو تقویت پہنچائی ہے کہ ’’اگرمائنس ہوا توایک نہیں بلکہ تین ہونگے‘‘ان کا اشارہ واضح طورپرپاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ(ن) اورپاکستان پیپلز پارٹی کی قیادتوں کی طرف ہی جاتا دکھائی دیتا ہے۔ بحرحال اپوزیشن نے مائنس ون کے بعد اب وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کا ارادہ بھی ترک کردیا ہے اورجواز یہ پیش کیا جارہا ہے کہ ہم نے سینیٹ میں اکثریت حاصل ہونے کے باوجود عدم اعتماد کی تحریک کا حشر دیکھ لیا ہے۔ جبکہ اپوزیشن کے بعض راہنما یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم مائنس ون کے مطالبے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ جب میاں نواز شریف کو مائنس ون کرنے کے مطالبے اور باتیں ہو رہی تھیں تو ہم نے اس کی مخالفت کی تھی۔

امر واقعہ ہے کہ متحدہ اپوزیشن صرف نام کی متحد ہے ان کی سیاسی سوچ اورفیصلوںمیں ہم آہنگی نظر نہیں آتی اوریہی بات حکومت کی غلطیوں کے باوجوداسے مضبوط سے مضبوط ترکررہی ہے۔ جہاںتک بجٹ کی منظوری کا تعلق ہے تو بظاہر آسانی سے منظور ہوجانے والے بجٹ میں درپردہ حکومت کو جودشواریاں پیش آئیںان کی تفصیلات بوجوہ منظرعام پرنہ آسکیں۔ ناراض اتحادیوںنے حکومت سے اپنے مطالبات اور ’’دیرینہ تقاضوں‘‘کی تکمیل بھی خوب کرائی اوریہ سلسلہ بجٹ اجلاس کے آخری دنوں تک جاری رہا۔ البتہ بلوچ سردارنواب اکبربگٹی کے پوتے اورحکومت کی اتحادی جماعت جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ شاہ زین بگٹی جنھوںنے بجٹ پیش کیے جانے سے محض چند روز قبل حکومت کو اپنے’’ وعدے‘‘پورے کرنے کا الٹی میٹم دیا تھا۔

ان کے دیرینہ تقاضے کی تفصیلات سامنے آرہی ہیں ۔انھوں نے وزیراعظم کی جانب سے دیے گئے عشائیے میں بھی یہ کہہ کرشرکت سے انکار کردیا تھاکہ جب تک حکومت اپنا ’’وعدہ‘‘پورا نہیں کریگی وہ یہ تاثر بھی نہیں دینگے کہ وہ حکومت کے اتحادی ہیں۔ بحر حال دوجولائی کو شاہ زین بگٹی نے او۔جی ۔ ڈی ۔سی۔ایل کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں جاری اراضی کیس کوواپس لے لیا جوبظاہر عدالت کے باہر او۔جی۔ڈی۔ سی۔ایل کے ساتھ تصفیے کے بعد سامنے آیا۔ جبکہ گزشتہ سال شاہ زین بگٹی یہ مقدمہ ہارگئے تھے۔ یہ مقدمہ اس معاہدے کے بارے میں تھاجس کے مطابق او۔جی۔ڈی۔سی۔ایل کو انھیں 12کروڑروپے سے زیادہ ادا کرنے ہیں۔

اختر مینگل کی ناراضی اورحکومت سے اپنی جماعت کی اتحادی حیثیت ختم کرنے کے بعد بلوچستان میںشاہ زین بگٹی کی ضرورت زیادہ تھی حالانکہ اخترمینگل کے مطالبات اجتماعی نوعیت کے تھے ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اخترمینگل نے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ’’سیاسی پینگیں‘‘بڑھانی شروع کردی تھیں۔اوران کے ساتھ ملاقاتیںاورمشترکہ پریس کانفرنسیں بھی کر رہے تھے جوحکومت کو پسند نہیں آئیں۔اب اپوزیشن کا آئندہ کالائحہ عمل کیا ہوگااس مقصد کیلئے مسلم لیگ(ن)پاکستان پیپلز پارٹی اورجمعیت علمائے اسلام نےا یک گرینڈ آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کررکھا ہے۔ جس کیلئے ابھی تک کسی تاریخپرہی اتفاق نہیں ہوسکا۔البتہ میاںشہباز شریف کی صحتیابی کے بعد شاید اس بابت کوئی پیش رفت ہوسکے۔ لیکن یہاں بھی اپوزیشن میں ہم آہنگی کے فقدان کا معاملہ ہے۔

جس کا اندازہ مولانا فضل الرحمن کی اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ جو انھوںنے ایک انٹرویومیں کہی کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) اورپاکستان پیپلز پارٹی دونوں نےہمیں اورقوم کو مایوس کیا ہے اب ہم ان پرانحصارنہیں کرتے۔ ہم اللہ کی مدد ، قوم کی حمایت اوراپنے زوربازو سے موجودہ حکومت کو رخصت کرینگے۔ پاکستان میں ہرآنے والی حکومت اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری ان کی مذہبی آزدی اورمفادات کے تحفظ کی دعویدارہوتی ہے اوراس حوالے سے قومی پرچم میں سبزکے ساتھ سفیدرنگ ہے۔جواقلیتوں کی نمائندگی اور قائداعظم کے اقلیتوںکے بارے میں فرمودات کاحوالہ ضروردیتی ہے لیکن ہرحکومت میں بالخصوص ہندواورعیسائی سمیت دیگر اقلیتیںماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت سے بھی شاکی ہیں۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے دور میں ہندو کمیونٹی اوراقلیتوں کے تحفظ سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر مندرکی تعمیر کیلئے اسلام آباد کے ایک اعلیٰ سیکٹر میں چارکنال کا پلاٹ دیا گیا تھا۔ ہندوبرادری کا اصل مطالبہ مندرسے زیادہ شمشان گھاٹ کی جگہ تھی کیونکہ اسلام آباد میں صرف ایک قدیم مندر ہے جس کے اب صرف آثارباقی ہیں۔

ایسے میں اسلام آباد میں مندراورشمشان گھاٹ کی تعمیر اقلیتوں کے تحفظ اورمذہبی آزادی کے نعروں اوردعووںمیں ایک مثبت اقدام ’’موثرپیغام‘‘ تھا لیکن جیسے ہی مندرکے پلاٹ پرچاردیواری کی تعمیر شروع ہوئی ۔"ہدایات " پر سی ڈی اے نے مزدوروں کو چار دیواری کی تعمیر روکنے کی ہدایت کردی۔ وزیرمذہبی امور پیر نورالحق قادری کی درخواست پروزیراعظم عمران خان نے مندر کی تعمیر کیلئے دس کروڑ کی گرانٹ کی زبانی منظوری دی تھی اس پر بھی پیش رفت روک دی گئی۔