رزق کی قدر

July 12, 2020

سیدہ شاہ بینہ

’’ اسلام علیکم آنٹی! اویس کو بھیج دیں۔ ٹیوشن کا وقت ہونے والا ہے‘‘۔اذان نے گیٹ کھولنے پر اویس کی امی سے کہا۔

’’وعلیکم السلام بیٹا!اندر آ جائو ،اویس کھانا کھا رہاہے وہ کھانا کھا لے پھر چلے جانا ‘‘۔ اویس کی امی نے اذان کو اندر آنے کا راستہ دیتے ہوئے کہا۔

’’اس وقت کھانا کھا رہاہے؟‘‘ اسکول سے آئے ہوئے تو اسے کافی دیر ہو گئی ہے‘‘۔ اذان نے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔

’’ہاں بیٹا وہ دراصل آج اویس کی پسند کی ڈش نہیں بنی تھی۔غصے میں اس نے کھانا ہی نہیں کھایا۔رحمت چاچانے اس کی پسند کی ڈش بنائی ہے تو اب کھاناکھا رہاہے۔‘‘ اویس کی امی نے بتایا۔

’’آ جائو اذان کھانا کھالو’۔’ اویس نے اذان کو آتے دیکھ کر کہا ۔

’’نہیں یار میں تو کھانا کھا چکا ہوں،ا سکول سے آتے ہی’۔’ اذان نے جواب دیا۔

’’ اس کا مطلب تمہاری پسند کی چیز نہیں تھی آج، مجھے تو اب ملاہے ،پسند کا کھانا۔‘‘ اویس نے پانی کا گلاس نکالتے ہوئے کہا۔

’’اس سے پہلے تو یہ کھانے کی چیزوں کو اٹھا اٹھا کر پھینک رہا تھا کہ کیوں سبزی دال بنی تھی‘‘۔ اویس کی امی نے قریب آتے ہوئے بتایا۔

’’ ارے وہ کیوں؟ کھانے کی چیزیں کون پھینکتا ہے بھلا؟‘‘ اذان نے حیرت سے پوچھا۔

’’ تمہارا دوست، سبزیاں نا پسند کرتا ہے، اس لئے اگر سبزی بنی ہو تو یہ کھانا پھینک دیتا ہے، جب سےا سکول سے آیا ہے غصے سے بولے چلے جارہا ہے کہ میری پسند کی ڈش کیوں نہیں بنی اور سبزی کیوں بنائی ہے‘‘۔ امی جان نے بتایا۔

’’یہ تو بری عادت ہے اویس، بلکہ رزق کو پھینک دینا تو بہت ہی گناہ ہے، تمہیں کوئی کھانے کی چیز یا سبزی دال پسند نہ ہو تو چپ چاپ کھانے سے انکار کر دو، یوں رزق کو پھینک کر اس کی بے حرمتی کرنا سخت گناہ ہے‘‘۔ اذان نے کہا

’’دیکھو اویس تمہارا دوست کتنی اچھی باتیں کرتا ہے،بیٹا ذرااپنے دوست کو بھی سکھا دو یہ سب باتیں، ہم تو بھاگے پھر رہے تھے کہ اویس کی پسندیدہ ڈش بن جائے ورنہ سب کی شامت آ جائے گی‘‘ امی نے بتایا ’’۔

’’یہ سب تم اس لئے کرتے ہو اویس کیونکہ تمہیں اپنی پسندیدہ کھانے مل جاتے ہیں، ناشکری کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو، جس نے تمہیں ہر نعمت سے نوازا ہے نہ کہ اٹھا اٹھا کر رزق کی بے حرمتی کرو۔سبزیاں ، دالیں تو ویسے بھی صحت کےلئے بہت اچھی اور مفید ہوتی ہیں لیکن اگر تمہیں نہیں پسند تو کم از کم پھینکا نہ کرو۔ اویس دنیا میں ایسے لوگ بھی تو ہیں ،جنہیں ایک وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ شکر ادا کرو اللہ تعالیٰ کا کہ اس نے ہمیں ہر نعمت سے نوازا ہے‘‘ اذان نے دھیمے لہجے میں سمجھایا۔

’’سوری یار، پتا نہیں کیوں غصے میں ایسا کر جاتا ہوں۔ میں سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا ہوں اور آئندہ کے لئے ایسی غلطی نہ کرنے کا عہد کرتا ہوں۔‘‘اویس نے شرمندگی سے کہا ۔

’’ہماری تو یہ سنتا نہیں آج تمہاری بات مان لی اس نے شکر ہے لیکن اب اپنے عہد پر قائم رہنا‘۔‘ امی نے خوش ہو کر کہا۔

’’میں اپنے وعدہ پر قائم رہوں گا انشاء اللہ‘‘ اویس نے مضبوط لہجے میں کہا۔

’’ اگر یہ اپنا وعدہ بھولنے لگے تو آپ مجھے بلا لیجئے گا میں کھلائوں گا اسے دال، سبزی‘۔‘ اذان نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’ دال سبزی تو نہ صرف میں خود کھائوں گا بلکہ تمہیں بھی بلا لیا کروں گا۔ دالیں، سبزیاں صحت کےلئے مفید ہوتی ہیں نا۔ اویس نے بھی مذاق کیا تو امی اور اذان ہنس پڑے۔ نعمت کی قدر کرنے کا عہد کرتے دونوں دوست ٹیوشن کےلئے روانہ ہو گئے۔