ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو راستہ عام ہو جائے

August 09, 2020

سب لوگ کہہ رہے ہیں کہ وباءکا زور ٹوٹ گیا ہے۔ پاکستان میں وباءکا آسیب کچھ زیاد ہی تھا ۔پھر کپتان کی سرکار کم از کم اس معاملہ پر بہت زیادہ فکرمند نظر آئی۔لاک ڈائون کے مسئلہ پر بہت اختلاف نظر آیا ۔ ڈاکٹر حضرات اور سندھ کے منتری جی مرکز کے اقدامات سے بالکل مطمئن نہیں تھے۔ مگردوسری طرف داخلی خودمختاری کی وجہ سے فیصلوں میں تاخیر ہوتی رہی اور وباء کا زور کراچی اور سندھ کبھی زیادہ اور کبھی کم ہو جاتا خیر قدرت کا ایک اپنا نظام ہے ۔اور وباء کے لئے جو اقدامات مرکزی سرکارنے کئے ان میں بہتری نظر آئی۔شہروں میں لوگوں کو کچھ احساس بھی نظر آیا مگر دیہاتی علاقوں میں عوام کا مزاج اور طریقہ کارغیر سنجیدہ ہی رہا ۔اس وباء کا زیادہ زور شہروں میں رہا مکمل لاک ڈائون کو نظرانداز کرکے سوفٹ لاک ڈائون کا طریقہ اپنایا گیا اور اس سے وباء کے پہلے حملہ میں پاکستان کامیاب ہوا ہے مگر ابھی خطرہ ٹلا نہیں اور خدشہ ہے کہ اس وباء کا ایک اور حملہ ہوسکتا ہے اور اس کےلئے ضروری ہے حفاظتی اقدامات پر مکمل عمل جاری رکھا جائے مگر وباء اور ہماری سیاست دونوں ہی ناقابل اعتبار ہیں۔

وباء کے دنوں میں ہماری سیاست اور سیاست دان دونوں ہی بہت بپھرے بپھرے نظر آ رہے تھے اور ہمارے سیاست دان اپوزیشن میں ہوں یا سرکار میں ان کے قول وفعل پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ الیکشن کو دوسال ہونے کو ہیں مگر اپوزیشن اسمبلی میں شور شرابا کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکی اور جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو بھی نظرانداز کرتی نظر آ رہی ہے۔جناب شہباز شریف بہت جتن سے اپوزیشن لیڈر بنے تھے اور امید کی جا رہی تھی کہ سرکار کو عوامی مفاد میں بہترین مشورے دیں گےمگر ان کی اپنی جماعت میں ایک علیحدہ سیاسی تنائو تھا۔پھر ان کے حلیف بھی غیر سنجیدہ تھے الیکشن کے فوراً بعد ہارے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کوشش کی کہ اس الیکشن کو ہی تسلیم نہ کیا جائے اور اسمبلی میں جانے کی ضرورت ہی نہیں۔مگر اپنے اپنے مفادات کی وجہ سے ایسا کچھ نہ ہو سکا اور پھر جمہوریت میں ضروری ہے کہ آپ میدان میں مقابلہ کریں اور اگر آپ بائیکاٹ کرتے ہیں تو جمہوریت بے چاری بیوہ ہو سکتی ہے۔

خیرجیسے تیسے اسمبلی میں سب لوگ آکر اپنا یومیہ وصول کرتے رہے اور کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے عوام کی قسمت بدل سکتی دوسری طرف نیب کا اداہ بھی اپنا کردار موثر طریقہ سے ادا کرتا رہا ۔اپوزیشن کے لوگ نیب پر مسلسل الزامات لگاتے رہے ۔کوئی بھی سیاست دان نیب کی عدالت میں اپنی صفائی دیتا نظر نہیں آیا۔سابق صدر آصف علی زرداری پہلے تو بہت بڑھکیں مارتےتھے مگر نیب کی تحقیق اور الزامات کا جواب دینے کی بجائے بیمار ہو گئے۔ایک زمانہ میں ان کے ایک پیر صاحب صدارتی محل میں ان کے ساتھ رہتے تھے جو ان کو ہر طرح کے شر سے دور رکھتے مگر اب کی دفعہ پیر صاحب کاکشف بھی کام نہ دکھا سکا۔ایک زمانہ میں زرداری، امریکہ اور ہماری فوج کے بہت قریب تھے اب دونوں فریق ہی بدلے بدلے نظر آ رہے ہیں امریکہ اب اپنی مشکلات میں مصروف ہے افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے اور پاکستان کی توجہ چاہتا ہے ۔پاکستان اپنی بقاءکی جنگ لڑ رہا ہے اور امریکہ اتنا دور تھا اور ہے کہ وہ قابل اعتبار نہیں لگتا۔

ہمارے سابق خادم اعلیٰ اور حالیہ حزب اختلاف کے لیڈر اپنے برادر بزرگ کی وجہ سے سیاست میں قدم جماتے نظر نہیں آ رہے ۔ان کا خیال تھا کہ انہوں نے جو کچھ اپنے صوبے میں کیا اور چین کے ساتھ کچھ معاہدے کئے وہ عوام کے لئے اور جمہوریت کے اعتبار کے لئے بہت موثر ہونگے۔ عوام کو جمہوریت کا احساس نہیں وہ تو اپنی بنیادی مشکلات کا مداوا چاہتے ہیں اب سکولوں اور تعلیم کے معاملات کو ہی دیکھ لیں نہ سکولوں کا کوئی موثر نظام ہے لوگوں اور اداروں نے اپنی اپنی مرضی سے ذاتی تعلیمی ادارے بنا رکھے ہیں اور جن کی فیس بھی عام آدمی کی بساط سے باہر ہے اور کچھ ایسا ہی حال ہمارے طبی شعبہ کا ہے اتنے اسپتال بنائے مگر لوگ ان سے مطمئن نہیں پرائیویٹ سیکٹر کا میڈیکل مہنگا اتنا ہے کہ عام آدمی تصور نہیں کرسکتا ۔پھر یہ امید رکھنا کہ لوگ ان کے کارناموں کو یاد رکھیں کچھ مناسب نہیں۔ اب بھائی صاحب اور سابق وزیر اعظم ملک سے باہر معالج کے انتظار میں ہیں اور ہمارے سابق خادم اعلیٰ خود بھی بیمار اور مایوس نظر آتے ہیں۔

ایک عرصہ کے بعد ہماری اپوزیشن کچھ بدلی بدلی نظر آ رہی ہے اس میں پہلا بدلائو اس وقت نظر آیا جب جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں اضافہ کے لئے عمران خان نے اصرار کیا اور یوں لگتا تھا کہ جمہوریت کو خطرہ ہوگیا ہے اور بڑی عدالت نے اس معاملہ پر کچھ زیادہ ہی توجہ دے ڈالی ۔سابق چیف جسٹس آصف کھوسہ کا ایک نیا روپ نظر آیا۔فوج اس معاملہ میں لاتعلق سی نظر آئی پھر جسٹس کھوسہ نے مقدمہ کی گیند اسمبلی میں پھینک دی کہ آپس میں فیصلے کرو مقام شکر ہے کہ جمہوریت کے کارن تمام لوگ قومی مفاد کے تناظر میں ایک فیصلہ پر متفق ہو گئے اور حالات بھی کچھ ایسے تھے بھارت مسلسل جارحیت کر رہا تھا ۔وزیر اعظم عمران خان دوست ممالک کے ساتھ مشاورت کرتے رہے۔سعودی عرب کے ساتھ عمران خاں نے بامقصد مذاکرات کئے اور وہ لوگ بھی ہماری سیاست میں کچھ کچھ اچھا کردار ادا کرتے رہے مگر اب ایک نئی صف بندی نظر آرہی ہے ۔سعودی عرب کو ہمارے مخلص دوست ترکی اور چین پسند نہیں آ رہے اور نہ ہی کشمیر پر وہ ہمارے موقف کی تائید کرتا دکھائی دے رہا ہے۔

چین بھارت تنازعہ میں اور وباء کے دنوں میں پاکستان اور پاکستان کی سرکار نے بڑا مثبت کردار ادا کیا۔چین کو احساس ہوا کہ پاکستان کو اندازہ ہے کہ اس کو کیا کردار ادا کرنا ہے ۔پاکستان نے چین کی غیر مشروط مدد کی دوسری طرف بھارت بین الاقوامی معاملات میں پاکستان کو مسلسل نشانہ بناتا رہا ۔اس کی کوشش تھی اور ہے کہ پاکستان پر بین الاقوامی طور پر پابندیاں لگ جائیں ایسی پابندیاں اس سے پہلے ایران اور نارتھ کوریا پر لگ چکی ہیںمگر وہ دونوں ممالک بھی گزارہ کر ہی رہے ہیں ۔پاکستان بھی گزارہ کرسکتا ہے مگر اس کے باوجود بین الاقوامی مالی اداروں کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان ہدایات پر عمل کیا جا رہا ہے اور ایسی قانونی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں جن سے بین الاقوامی کرپشن کو روکا جاسکے اور یہ سب کچھ عمران کی سرکار اکیلے نہیں کر سکتی۔

شنید ہے کہ عمران کی سرکار بہت ساری قانونی اور انتظامی تبدیلیاں کرنے جا رہی ہے اور نظام میں بدلائو آ رہا ہے مگر ہمارے گردوپیش میں تبدیلیاں بھی قابل فکر ہیں ۔ملک میں صدارتی نظام کی بات ہو رہی ہے اور تبدیلی اور ترقی میں کون کیا کردار ادا کر سکتا ہے اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے ۔ اب شاید جمہوریت ہماری مجبوری نہ رہے پاکستان کو ایک نئی حیثیت میں اپنا کردار ادا کرنا ہے اور اگلے چند ماہ میں یہ تبدیلیاں ہوتی نظر آ رہی ہیں۔