فلسفہ شہادت سیدنا امام حسین ؓ

August 30, 2020

ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری

روایت کے مطابق امام الانبیاء، سرورِ کونین، پیغمبر آخرو اعظم حضرت محمدﷺ ایک دن امّ المؤ منین حضرت ام سلمہ ؓکے گھر تشریف فرماتھے کہ آپﷺ کی خدمت میں ایک فرشتہ نازل ہوا جو پہلے کبھی حاضر خدمت نہ ہواتھا، نبی کریم ﷺ نے امّ المؤ منین حضرت ام سلمہؓ سے ارشاد فرمایا،دروازے کا خیال رکھنا اور کسی کو اندر داخل ہونے نہ دینا ،دریں اثناء حضرت سیدنا امام حسین ؓ نہ صرف یہ کہ گھر میں تشریف لے آئے بلکہ حجرہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں پہنچ گئے۔

نبی کریم ﷺ نے انہیں اپنی گود میں بٹھا لیا اور پیار کیا، فرشتے نے خدمتِ نبوی میں عرض کیا کہ حضورﷺ آپ اِن شہزادے سے محبت فرماتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا ہاں، فرشتے نے عرض کیا، اے اللہ کے رسولﷺ ! وہ وقت بھی آنے والا ہے کہ جب آپﷺ کی امت انہیں بے یارومددگار شہید کردے گی اور اگر آپ ﷺچاہیں تو میں وہ جگہ آپﷺ کو دکھا سکتا ہوں، جہاں یہ شہید کیے جائیں گے۔پھر اس فرشتے نے سرخ رنگ کی ریت آپﷺ کی خدمت میں پیش کی۔

تاج دارِ کائنات ﷺ نے اس ریت کو سونگھا اور فرمایا’’ رِیح کربِِ وَ بَلاء‘‘ یعنی اس سے تکلیف اور شدتِ کرب کی بو آتی ہے، پھر نبی کریمﷺ نے ام المؤمنین امِ سلمہ ؓکو وہ ریت عطا فرما دی، اور فرمایا ’’اے ام سلمہ، جب یہ ریت خون میں تبدیل ہوجائے تو تم سمجھ لینا کہ میرا حسین ؓشہید ہوچکا ہے۔ انہوں نے وہ ریت ایک بوتل کے اندر ڈال کر رکھ دی۔حضرت ام سلمہ ؓفرماتی ہیں کہ شہادت امام حسینؓ کے دن یہ مٹی خون میں تبدیل ہوگئی۔

اِسی طرح کا ایک واقعہ کتب میں درج ہے۔سیدنا علی ؓصفین کے لیئے ارضِ کرب وبلاسے گزرے آپ نے لوگوں سے اس جگہ کا نام پوچھا بتایا گیا کہ اس جگہ کو کربلا کہا جاتا ہے ۔سیدنا علی المرتضیٰؓ اس قدر روئے کہ داڑھی مبارک آنسوئوں سے تر ہوگئی، رفقاء نے پوچھا کہ اے امیر المومنین کیا معاملہ ہے اِس قدر شدتِ غم، اِس پر حضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا، ایک مرتبہ میں خدمتِ نبوی میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺگریہ کناں ہیں ،میں نے آپ سے رونے کا سبب معلوم کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا،اے علی، جبرائیل ؑ ابھی ابھی ہوکر گئے ہیں اور یہ کہہ رہے تھے کہ میرا بیٹا حسینؓ فرات کے کنارے کربلا میں قتل کیا جائے گا، پھر جبرائیلؑ نے مجھے وہاں کی مٹی سنگھائی، مجھ سے برداشت نہ ہو سکا اور میری آنکھوں سے آنسورواں ہوگئے ۔

اِسی طرح خصائص کبریٰ میں درج ہے کہ سید نا علی شیرخداؓ اس مقام سے گزرے جہاں ایک روایت کے مطابق شہید کربلا سیدنا امام حسینؓ کی قبر اطہر ہے تو فرمایا یہ وہ مقام ہے جہاں ان کی سواریاں بٹھائی جائیں گی، یہاں ان کے کجاوے رکھے جائیں گے اور یہاں ان کی شہادت ہوگی ۔آلِ محمدؐ کے کچھ نوجوان اس میدان میں اس جگہ شہید ہوں گے۔جن پر آسمان و زمین روئیں گے۔

حضرت ام سلمہ ؓبیان فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ آپ رورہے ہیں اور آپ کے نوری وعنبری گیسو اور داڑھی مبارک خاک آلودہ ہے پھر فرمایا کہ اے ام سلمہ،ابھی ابھی حسین ؓکو شہید کردیا گیا ہے، اسی طرح حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن دوپہر کے وقت رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ آپ کے بال مبارک بکھرے ہوئے ہیں۔ مٹی سے اَٹے ہوئے ہیں اور آپ ﷺ کے دست مبارک میں ایک بوتل ہے، جس میں خون بھرا ہوا ہوا ہے میں نے عرض کیا ، یہ کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ حسینؓ اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے، جسے آج میں صبح سے جمع کررہا ہوں، لوگوں نے اِس دن کو خاص طور پر یاد رکھا،پھر کربلا سے لٹے پٹے قافلے واپس آئے تو معلوم ہوا کہ یہ وہی دن تھا کہ جس دن سیدنا امام حسین ؓمیدانِ کربلا میں شہید ہوئے ۔

امام زہریؒ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے عبد الملک نے پوچھا،اگر تم مجھے اس دن کی کوئی علامت بتا دو جس دن حضرت حسین ؓشہید کئے گئے تو تم میری نظر میں ممتاز ہوجائو گے ۔زہریؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا اس دن بیت المقدس میں یہ حال ہوگیا تھا کہ جس پتھر کو بھی اٹھایا جاتا ، اس کے نیچے سے تازہ خون نکلتا تھا۔ ام حکیم بیان کرتی ہیں کہ جب حسین ؓکو شہید کیا گیا ،میں اس وقت بچی تھی میں نے دیکھا کہ آسمان گوشت کے ٹکڑے کی طرح سرخ رہا۔ابو قبیل بیان کرتے ہیں کہ جب حسینؓ بن علیؓ کو شہید کردیا گیا تو سورج میں گہن لگ گیا یہاں تک کہ دوپہر ہی کو ستارے نظر آنے لگے۔ہمیں یہ خیال ہوا کہ شاید رات ہوگئی ہے ۔

امام حسین ؓ کی شہادت کا وقعہ تاریخ اسلام میں خون آلودہ حروف سے لکھا گیا ۔سوز کے ساتھ لکھا اور اشک بار آنکھوں سے پڑھا گیا ۔شہید کربلا سیدنا امام حسین ؓ خانوادئہ اہلِ بیتؓ کے ایک اہم فرد ہیں، رسول اللہﷺ کی اپنے اہل بیت اور قرابت داروں سے محبت قرآن مجید فرقان حمید اور فرامین رسول ﷺ سے ثابت ہے، رسول اللہ ﷺ اپنے اہل ِبیت ؓسے محبت کاحکم دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نےاپنے کلام میں اسی کی تاکیدفرماتے ہوئے،امت پر لازم کیاہے کہ وہ بھی محبت واطاعتِ اہل بیتؓ کو اپنا شعار بنائیں فرمان نبوی ؐہے’’اللہ کی محبت کی بناء پر مجھ سے محبت کرو،اور میری محبت کی بناء پر میرے گھرانے کے افراد سے محبت کرو‘‘

آپﷺ نے فرمایا’’حسنؓ اور حسینؓ یہ میرے بیٹے، میری بیٹی کے بیٹے ہیں، اے اللہ ! میں اِن سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان کو محبوب بنا اور جو اُن سے محبت کرے تو بھی ان سے محبت فرما۔آپﷺ نے فرمایا:’حسن ؓاور حسینؓ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں‘‘۔

بلاشبہ ، نواسۂ رسول،شہیدِ کربلا حضرت امام حسین ؓ کی ذاتِ گرامی خاندان رسالت اور اسلامی تاریخ کا گراں قدر اور تاریخ ساز باب ہے۔آپ نے کربلا میں اپنی جان نثار کرکے اسلام کی عزت و عظمت کو سربلند فرمایا۔علامہ محمد اقبال آپ کے حضور خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کیا خوب کہتے ہیں:

موسیٰؑ و فرعون و شبیرؓ و یزید

ایں دو قوت از حیات آید پدید

زندہ حق از قوتِ شبّیری است

باطل آخر داغِ حسرت میری است

تا قیامت قطع استبداد کرد

موجِ خونِ اُو چمن ایجاد کرد

بہرِ حق در خاک و خوں غلطیدہ است

پس بنائے لا الٰہ گردیدہ است

نقشِ الّا اللہ بر صحرا نوشت

سطرِ عنوانِ نجاتِ مانوشت

موسیٰؑ اور فرعون، حسینؓ اور یزید

حق اور باطل کی یہ دو قوتیں زندگی سے رونما ہوتی رہتی ہیں، مگر حق ہمیشہ قوتِ حسینی ہی سے زندہ ہے اور باطل آخر کار داغ حسرت لے کر مرجاتا ہے۔ اس نے قیامت تک کے لیے جبر و استبداد کو فنا کردیا۔ اس کے خون کی ایک موج نے گلستاں پیدا کردیے۔ وہ صرف قیام و استحکامِ حق کے لیے شہید ہوا ہے اور اس لیے اس کی ہستی توحید کی بنیاد ہوگئی۔ اس نے سینۂ صحرا پر توحید کا نقش ثبت کیا اور گویا ہماری بخشش اور نجات کی سطر لکھ دی۔