یومِ تحفظ ختمِ نبوت

September 07, 2020

مفتی خالد محمود

اسلامی جمہوریہ پاکستان بلکہ ملتِ اسلامیہ کی تاریخ میں 7؍ستمبر کا دن انتہائی اہمیت کا حامل ہے ، یہ وہ تاریخی دن ہے جس دن مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا اوراسے آئین کا حصہ بنا کر ملتِ اسلامیہ کے جسد سے کاٹ کر پھینک دیا گیا۔قوموں کی تاریخ میں ایسے فیصلے کبھی کبھار ہی وجود میں آتے ہیں جس کے اثرات و نتائج صرف اس قوم اور اس ملک تک ہی محدود نہیں ہوتے،بلکہ پوری دنیا پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اس قومی اور آئینی فیصلے سے پاکستان اور مسلمانوں کا وقار بلند ہوا، دنیا پر قادیانیوں کا کفر واضح ہوا اور جو پوری دنیا میں یہ تاثر دینے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ پاکستان میں ان کی حکومت ہے اور ان کا دار الخلافہ ربوہ ہے، ان کا یہ جھوٹ دنیا پرآشکارا ہوا۔ بے شمار وہ لوگ جو ان کے دام ہم رنگ زمین کا شکار ہو کر ان کے جال میں پھنس گئے تھے، ان پر ان کا کفر کھل گیا اور وہ قادیانیت سے تائب ہو کر دوبارہ دامن اسلام سے وابستہ ہوئے۔ بہت سے ممالک ان کی حقیقت سے آگاہ ہوئے ، انہوں نے بھی قادیانیوں کو غیر مسلم اور دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا۔ ان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی ، اس فیصلے سے اغیار کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور مسلمانوں میں ابھی وہ غیرت و حمیت موجود ہے کہ وہ ناموسِ رسالت کی حفاظت کے لیے سردھڑ کی بازی لگا سکتے ہیں اور ان میں اتنی ہمت ہے کہ وہ دین کی سربلندی کے لیے جرأت مندانہ اقدام کر سکتے ہیں۔

24؍ مئی1974ءکو سانحہ ربوہ پیش آیا، کسے خبر تھی کہ یہ سانحہ اور واقعہ ایک عظیم الشان فیصلے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ دشمنوں نے تو اپنی طرف سے شرانگیزی کرنے اور فتنہ و فساد پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں سے خیر نکالی۔ اس واقعے نے مسلمانوں کے ایمانی جذبات کو ہوا دی، ان کے دلوں کو جھنجوڑ ڈالا، وہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے، پوری قوم حضور اکرم ﷺ کی عزت و ناموس اور آپﷺ کی ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ایک ہوگئی اور پوری قوم نے متحد ہو کر خواہ کسی بھی طبقے سے اس کا تعلق ہو،ا یسی عظیم الشان تحریک چلائی کہ ملت اسلامیہ شاید ہی اس کی کوئی نظیر پیش کرسکے ۔ 29؍ مئی تا 7؍ ستمبر تقریباً سو دن بنتے ہیں، برصغیر کی تاریخ میں یہ سو دن سو سال کے برابر ہیں۔

اس تحریک کے نتیجے میں قوم کا ذہن ایسا بن چکا تھاکہ اس کے خلاف قوم ایک لفظ سننے کے لیے تیار نہیں تھی۔اس کا اندازہ اس ایک اقتباس سے لگائیے، اس وقت کے معروف صحافی مصطفیٰ صادق جو روزنامہ وفاق کے ایڈیٹر تھے، ان کے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے اچھے مراسم تھے ، تحریک کی کامیابی کے بعد انہوں نے ایک تفصیلی مضمون میں تحریک کے مراحل اور اپنے تاثرات پر مبنی ایک مضمون لکھا ۔جس میں وہ لکھتے ہیں کہ:’’ (میں نے بھٹو صاحب کے سامنے) چند اہم واقعات کا ذکر کیا، ایک کا تعلق قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے فیصل آباد سے ایک رکن مسٹر رندھاوا کے بیان سے تھا، جو اخبارات میں شائع ہوچکاتھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اخبارات میں مجھ سے منسوب ایک بیان شائع کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ میں نے قادیانیوں کے بائیکاٹ کی مخالفت کی ہے ، میں نے کوئی ایسا بیان نہیں دیا۔

اس کے ساتھ ہی مسٹر رندھاوا نے اپنے ہاتھ میں ایک تار پکڑ کر فضا میں لہرایا اور کہا کہ مجھ سے منسوب اس غلط بیان کے شائع ہونے پر میرے والد گرامی نے اس تار کے ذریعے میری سرزنش کی ہے کہ یہ تم نے کیا بیا ن دے دیا ۔ اس طرح مسٹر رندھاوا نے اسمبلی کے بھرے اجلاس میں اس بیان سے لاتعلقی کا اعلان کردیا، دوسرا واقعہ صاحبزادہ فیض الحسن کی تقریر سے متعلق تھا، جس میں انہوں نے قادیانیوں کے بائیکاٹ کے بارے میں کچھ اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا، جو حاضرین جلسہ کو سخت ناگوار گزرے، جس کے سبب صاحبزادہ صاحب کو تقریر ختم کرنا پڑی اوربڑی مشکل سے صفائی پیش کر کے حاضرین جلسہ کے گھیراؤ سے نجات حاصل کی۔ تیسرا واقعہ لاہور کے نیشنل سینٹر میں مولانا محمد بخش مسلم کی تقریر سے متعلق تھا۔ اس تقریر کے بارے میں بھی خود مولانا مسلم صاحب ہی نے اگلے دن اخبارات کے ذریعے اس امر کی تردید کی ، انہوں نے بائیکاٹ کے خلاف موقف اختیار کیا تھا،چوتھا واقعہ بھی اسی نوعیت کا حامل تھا جو راولپنڈی کے ایک عالم دین کے ساتھ پیش آیا‘‘۔(تحریک ختم نبوت1974ء جلد سوم، ص: 880)

اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ حضور اکرم ﷺ سے محبت ہر مؤمن کا سرمایہ ایمان ہے،بلکہ آپﷺ سے محبت ایمان کا جزو ہے ، کوئی شخص اس وقت تک مؤمن ہی نہیں ہوسکتا،جب تک کہ اس کے دل میں آپﷺ کی محبت نہ ہو، بلکہ تمام جہاں سے حتیٰ کہ اپنی اولاد، اپنے ماں باپ اور اپنی جان سے بھی آپ ﷺزیادہ عزیز نہ ہوں، اس وقت تک ایمان مکمل ہی نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان کے دل میں آپ ﷺ کی محبت کا دریا موجزن ہوتا ہے، وہ ہر بات برداشت کرسکتا ہے، لیکن رسالت مآب ﷺ کی شان اقدس میں ادنیٰ سی بھی گستاخی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور ہمہ وقت وہ آپ ﷺکی عزت وناموس پر مر مٹنے ،اپنی اولاد، اپنا مال، اپنی جان سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار و آمادہ رہتا ہے ۔ جب بھی کسی دریدہ دہن نے آپﷺ کی شان میں گستاخی کی ناپاک جسارت کی، مسلمان دیوانہ وار میدانِ عمل میں آئے اور اس کا قلع قمع کر کے چھوڑا۔

حضور اکرم ﷺ جو اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں،آپﷺ کی ذات اقدس پر انبیاءؑ کا سلسلہ ختم ہوگیا، اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آپﷺ کی ختم نبوت کے بعد کسی کا نبوت کا دعویٰ کرنا، صرف آپ ﷺ کی ختم نبوت کا انکار نہیں، بلکہ آپﷺ کی توہین ہے اور صرف آپ ﷺ کی ہی نہیں، بلکہ تمام انبیاءؑ کی توہین ہے، ختمیت کی دیوار میں سوراخ کرنا اورنقب لگانا دین کے تمام نظام کو درہم برہم کرنا اور اللہ کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنا ہے۔

اسلام کی بنیاد کلمہ طیبہ پر ہے ، اس کلمے کے دو جزو ہیں: اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار ، محمدالرسول اللہ ﷺ کی رسالت کا اعتراف و اقرار۔ اس اعتراف کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کے سوا کسی مدعی الوہیت کا وجود ناقابل برداشت ہے ، اسی طرح محمدالرسول اللہ ﷺ کے بعد کسی مدعی نبوت کا بساطِ نبوت پر قدم رکھنے کی جرأت کرنا بھی لائق تحمل نہیں۔ یہی ’’عقیدۂ ختم نبوت‘‘ کہلاتا ہے جس پر صدرِ اوّل سے آج تک امت مسلمہ قائم رہی ہے۔اس مسئلے میں امت مسلمہ کبھی دو رائے کا شکار نہیں ہوئی ۔ جو لوگ لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کے ایمان و اقرار سے سرشار ہو کر نورِ ایمان سے منور ہوچکے ہیں اور اسلامی برادری کا حصہ ہونے پر فخر کرتے ہیں، ان پر یہ ذمہ دار عائد کی گئی ہے کہ وہ مشرکوں کی سرکوبی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے باغیوں کے خلاف بھی سینہ سپر ہوجائیں اور جھوٹے مدعیانِ نبوت کے جھوٹے طلسم کو پاش پاش کر کے رکھ دیں۔ اسی ذمہ داری کا نام ’’تحفظ ختم نبوت‘‘ ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ امتِ مسلمہ نے اپنے اس فریضہ سے کبھی غفلت نہیں برتی۔

مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے ماننے والوں نے نئی نبوت کا ڈھونگ رچا کر مسلمانوں کی عقیدت و محبت کا مرکز بدلنے کی کوشش کی ،حضور اکرمﷺ سے محبت کا جو مضبوط رشتہ ہے ،بلکہ ان کے ایمان کا حصہ ہے، اس رشتے کو ختم کرنے اور کمزور کرنے کی کوشش کی ،جسے ایک ادنیٰ مسلمان بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ۔

عقیدۂ ختم نبوت دین کی اساس اور بنیاد ہے ، دین اسلام کی عمارت اسی عقیدے پر استوار ہے ، پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا ،اس کی بقا اور اس کا تحفظ بھی اسی عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ سے وابستہ ہے ۔ محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’کسی عمارت کی بنیاد کھودکر انہیں اپنی جگہ سے ہٹادینا اور پھر یہ توقع رکھنا کہ عمارت جوں کی توں قائم رہے گی، ایک مجنونانہ حرکت ہے ، ملت اسلامیہ کا شیرازہ ختمی مرتبت حضرت محمد ﷺ کی ذات عالی سے قائم ہے اور یہی وجود پاکستان کا سنگ بنیاد ہے ، جو شخص اس سے انحراف کرتا یا اسے منہدم کرتا ہے، وہ اسلام، ملت اسلامیہ اور پاکستان تینوں سے غداری کا مرتکب ہے ، ایک ایسے شخص سے جو ملک وملت کی جڑوں پر تیشہ چلا رہا ہو ،کسی مفید تعمیری خدمت کی توقع رکھنا خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے ، جو شخص سرورِ عالم ﷺ کا وفادار نہ ہو ،وہ ملک و ملت کا وفادار کیونکر ہوسکتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ملت اسلامیہ کا اجتماعی ضمیر کبھی برداشت نہیں کرسکا کہ آنحضرت ﷺ کے بجائے کسی اور شخص کو محمد رسول اللہ ﷺ اور رحمۃ للعالمین کی حیثیت سے کھڑا کیا جائے اور اس کے لیے وہ تمام حقوق و مناصب اور آداب و القاب تجویز کیے جائیں جو مسلمانوں کے مرکز عقیدت کے ساتھ مختص ہیں،بایں ہمہ یہ اصرار بھی کیا جائے کہ وہ مسلمان ہے ، ملک و ملت کا وفادار ہے اور مسلمانوں کو اس پر اعتماد کرنا چاہیے‘‘۔(بصائر و عبر ، جلد دوم،ص:۱۷۹-۱۷۸)

جو لوگ قادیانیوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں، انہیں ان کے عقائد و نظریات کا نہ علم ہے، نہ اندازہ۔ہم یہاں محدث العصر حضرت علامہ بنوری رحمہ اللہ کی تحریر کا ایک اقتباس پیش کرتے ہیں جس سے مرزائیت کا تھوڑا بہت اندازہ ہوجائے گا:’’ مرزا صاحب نے مسیحائی کے مراتب طے کرنے کے لیے بڑی محتاط قسم کی تدریجی رفتار اختیار کی، پہلے پہل گوشۂ گمنامی سے نکل کر وہ ایک مناظر اسلام کی حیثیت سے قوم کے سامنے آئے اور تمام ادیانِ باطلہ کے مقابلے میں اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے ’’براہینِ احمدیہ‘‘ کی پچاس جلدیں لکھنے کا اشتہار دیا اور قوم سے چندے کی اپیل کی۔جب وکیل اسلام کی حیثیت سے ان کی روشناسی ہوئی تو اپنے دعوؤں میں علیٰ الترتیب محدث، ملہم من اللہ، امام الزماں، مجدد، مہدی موعود، مثیل مسیح، مسیح موعود، ظلی نبی کے درمیانی مدارج طے کرتے ہوئے تشریعی نبوت کی بام بلند پر پہنچ گئے اور ببانگ دہل وحی، نبوت اور معجزات کا اعلان کردیا اور ’’محمد رسول اللہ‘‘ کا مصداق خود بن بیٹھے، قرآن کریم کی جو آیات حضرت خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ کے حق میں تھیں ،انہیں اپنی ذات پر منطبق کیا، اپنے دور کو آنحضرت ﷺ کے دور سے افضل بتایا، اولو العزم انبیائے کرامؑ کی توہین کی، انبیاء علیہم السلام سے افضلیت کا دعویٰ کیا، اپنی وحی کو قرآن جیسی قطعی وحی بتایا اور جو لوگ ان کی اس خانہ ساز نبوت پر ایمان نہیں لائے ،انہیں کافر و جہنمی قرار دیا، نئی شریعت کے ذریعے محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے جن اجزء کو چاہا، منسوخ کرڈالا، برطانوی حکومت کو ظل اللہ فی الارض کا خطاب عطا ہوا، اس کی اطاعت کو فرض اور اسلام کے دو حصوں میں سے ایک حصہ قرار دیا، کافروں سے جہاد کا حکم منسوخ ہوا اور انگریزوں کے مقابلے میں جہاد کے حرام ہونے کا فتویٰ صادر ہوا،دین کے قطعی عقائد کا مذاق اڑایا،احادیث متواترہ کی تکذیب کی، قرآن کریم کی بے شمار آیتوں میں کھلی تحریف ہوئی،مسلمانوں سے شادی بیاہ کرنا، ان کے جنازے میں شریک ہونا اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا ممنوع اور حرام قرار پایا، غرض ایسے صریح سے صریح ترین دعوے کیے کہ ان میںسے ہر بات مستقل کفر کی بات تھی اور ان میں کسی طرح بھی تاویل کی گنجائش نہیں تھی۔

اس لیے علمائے امت نے متفقہ طور پر مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے پیروکاروں کے کافر و مرتد ہونے کا فتویٰ دیا اور ان کی کتابوں سے ایک سو کے قریب صریح کفریات جمع کیے ، اگر پوری طرح استقصاء کر کے تمام کفریات و ہذیانات کو جمع کیا جائے تو ایک ہزار کفریات سے کم نہ ہوں گے، خدا کا غضب ہے کہ ظل و بروز کے پردے میں اسلام کی تمام اصطلاحات کو مسخ کیا گیا، مرزا صاحب کی اہلیہ کے لیے ’’ام المومنین‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی، ان کے ہاتھ پر کفر و ارتداد قبول کرنے والوں کو صحابی کہا گیا اور انہیں محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ سے افضل بتایا گیا، قادیان کو حرم اور مرزا کی قبر کو گنبد بیضاء قرار دے کر مکہ اور مدینہ کے بجائے یہاں کے حج و زیارت کی دعوت دی گئی اور اسے مکہ و مدینہ کے حج و زیارت سے افضل بتایا گیا‘‘۔ (بصائر و عبر، جلد دوم، ص: 179-170)

جب کبھی قوم کے سامنے، نوجوانوں کے سامنے، پڑھے لکھے طبقے کے سامنے ان کے عقائد ، افکار و نظریات حوالہ جات کے ساتھ واضح کیے گئے تو انہیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ قادیانیوں کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں،بلکہ یہ اسلام کے متوازی اور مقابل ایک مذہب ہے ، لیکن اپنے مفادات کے لیے یہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور مسلمانوں میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس کا بخوبی اندازہ اس سے بھی ہوجاتا ہے کہ جب قوم کے مطالبے پر اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے یہ مسئلہ قومی اسمبلی کے حوالے کیا کہ وہ اس پر غور و فکر کرکے تجویز کرے کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے ۔ قومی اسمبلی جو فیصلہ کرے گی پوری قوم کے لیے وہ قابلِ قبول ہوگا۔ بھٹو صاحب عوامی لیڈر تھے،اس لیے وہ چاہتے تھے کہ فیصلہ اس انداز میں ہو کہ کسی کے لیے اعتراض کی گنجائش نہ ہو اور بیرونی دنیا کے لیے بھی وہ قابل قبول ہو۔

اس موقع پر قادیانیوں کے سربراہ مرزا ناصر نے از خود درخواست پیش کی کہ ہمیں بھی اپنا موقف بیان کرنے کا موقع دیا جائے۔ ان کی یہ درخواست منظور کر لی گئی،انہوں نے 182صفحات پر مشتمل اپنا محضرنامہ پیش کیا ، اسے چھاپ کر تمام ممبران قومی اسمبلی میں تقسیم کیا، قادیانی اور لاہوری گروپ نے صرف تحریری طور پر ہی اپنا موقف جمع نہیں کرایا،بلکہ تمام ممبران کے سامنے زبانی بھی اپنا موقف پیش کرنے کی درخواست کی ، جسے مفتی محمود رحمہ اللہ سے مشاورت کے بعد قبول کر لیا گیا،جب ان کی درخواست قبول ہوگئی تو انہیں فکر ہوئی اور انہوں نے بھٹو صاحب سے شکوہ کیا کہ وہاں مولوی ہماری بے عزتی کریں گے ، ہم سے الٹے سیدھے سوال کریں گے، اس پرجے اے رحیم نے کہا کہ سوال اٹارنی جنرل کے ذریعے کیے جائیں ، اس پرفیصلہ ہوا۔ سوال پیدا ہوا کہ قادیانی اور لاہوری گروپ کے سربراہان اور اٹارنی جنرل تو قومی اسمبلی کا حصہ نہیں تو وہ کس حیثیت سے قومی اسمبلی سے خطاب کریں گے؟

اس کے حل کے لیے پوری قومی اسمبلی کو خصوصی کمیٹی کا درجہ دیاگیا ۔ اس طرح اٹارنی جنرل کے ذریعہ مرزا ناصر اور لاہوریوں پرجرح ہوئی۔ 5؍اگست1974ء سے اس خصوصی کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا۔ 5؍ اگست سے 11؍ اگست تک 6دن اور پھر 20؍ اگست سے 24؍ اگست 5دن ، کل گیارہ دن مرزا ناصر پر جرح ہوئی ۔ 27,28 اگست دو دن لاہوری گروپ کے صدر الدین عبدالمنان اور مسعود بیگ پر جرح ہوئی ۔ اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے اپنے بیان میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا:’’ مرزا ناصراحمد کی سربراہی میں احمدیہ جماعت ربوہ کا بیان ۵؍ اگست تا ۱۰؍اگست کو ہوا۔ اس کے بعد دس یوم کا وقفہ رہا۔ مرزا ناصر احمد کا مزید بیان ۲۰ ؍ اگست تا ۲۴؍اگست ہوا۔ کل گیارہ روز تک بیان ہو تا رہا۔ اس کے بعد احمدیہ جماعت کے دوسرے گروہ کا بیان ہوا، جس کے سربراہ مولانا صدر الدین تھے۔

چونکہ مولانا صدر الدین کافی بوڑھے ہیں اور اچھی طرح بات سننے کی قوت نہیں رکھتے۔ اس لیے ان کا بیان میاں عبدالمنان عمر کے وسیلے سے ہوا۔ ان کا بیان دو دن میں ہوا۔ یہ اس وجہ سے نہیں ہوا کہ ایوان کسی قسم کا امتیاز برت رہا تھا، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ بہت سے حقائق، دستاویزات اور مرزا غلام احمد کی تحریریں پہلے گروپ کے بیانات میں ریکارڈ پر آچکے تھے اور جہاں تک دوسرے گروہ کا تعلق ہے ، مزید تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہ تھی‘‘۔(مصدقہ رپورٹ، جلد۵،ص:2717)

مرزا ناصر کو اپنی چال بازیوں اور فریب کاری پر بڑا گھمنڈ تھا، وہ بڑا پُر امید تھا کہ ہم تمام ممبران کو چکرا دینے اور ان کی ذہن سازی میں کامیاب ہوجائیں گے، وہ اسمبلی میں بڑے اکڑ کر فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے ، ان کے ظاہری حلیہ ( سر پر عمامہ، چہرے پر داڑھی، بدن پر اچکن)کو دیکھ کر ممبران اسمبلی نے مفتی محمود اور ان کے رفقاء کی طرف معنی خیز انداز میں دیکھا کہ آپ ان نیک لوگوں کو کافر بنانے چلے ہیں، تو مفتی محمود رحمہ اللہ نے مسکرا کر کہا کہ صبر کرو ، بہت جلد ان کی حقیقت کا پتا چل جائے گا۔ یہی ہوا جب ان پر جرح شروع ہوئی اور سوال و جواب ہوئے تو ہر ایک کی آنکھیں کھل گئیں ۔ اس پوری بحث کے دوران ایک مرتبہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی ممبر نے ان کے حق میں کوئی ایک لفظ کہا ہو، ان سے ہمدردی کا اظہار کیا ہو ، کسی بات پر ناراض ہو کر احتجاج کیا ہو ، بائیکاٹ تو دور کی بات صرف واک آوٹ ہی کیا ہو، بلکہ بحث کے آخر میں ممبران اسمبلی نے اپنے جن خیالات کا اظہار کیا، وہ خیالات بتا رہے ہیں کہ ان کی رائے قادیانیوں اور لاہوریوں کے حق میں کیا تھی۔

قومی اسمبلی کی یہ مصدقہ رپورٹ شائع ہوگئی ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ گواہوں پر جرح کے دوران کسی ممبر کو اظہار خیال کی اجازت نہیںدی گئی ، انہیں آخر میں موقع دیا گیا ، قادیانیوں اور لاہوریوں نے جب اپنا موقف بیان کردیا تو مفتی محمودؒ نے پوری ملت اسلامیہ کی طرف سے اپنا موقف پیش کیا جو دو دن میں مکمل ہوا۔ قادیانیوں کے محضر نامے کا شق وار جواب مولانا غلام غوث ہزاروی نے دیا جسے مولانا عبدالحکیم نے پڑھ کر سنایا۔ دو دن اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے بحث کو سمیٹتے ہوئے اپنا بیان مکمل کیا۔

یہ رپورٹ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے،اس میں آپ کو نظر آئے گا کہ کس طرح مرزا ناصر سے سوالات ہوئے اور مرزا ناصر نے کسی طرح ٹال مٹول سے کام لیا، بات کو گھمایا پھرایا، مگر جان نہ چھڑا سکا، کئی مرتبہ لاجواب ہوا ۔ بہت سی مرتبہ سوال پر حیران و ششدر رہ گیا ، کوئی جواب نہ بن سکا۔ بہت سی جگہ مجبوراً اسے تسلیم کرنا پڑا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی۔ پوری رپورٹ پانچ جلدوں میں 2952 صفحات پر مشتمل ہے ۔ویسے تو پوری رپورٹ ہی پڑھنے کے قابل ہے ،مگر اس میں خاص طور پر مفتی محمود رحمہ اللہ اور اٹارنی جنرل کا بیان پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

خلاصۂ کلام یہ کہ پوری جرح، بیانات اور غور و خوض کے بعد قومی اسمبلی کی اس خصوصی کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کی۔ وزیر اعظم پہلے ہی فیصلے کے لیے 7ستمبر کی تاریخ طے کرچکے تھے، چنانچہ 7ستمبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں خصوصی کمیٹی کی سفارشات پیش کی گئیں اور آئین میں ترمیمی بل پیش کیا گیا۔ وزیر قانون نے اس پر مختصر روشنی ڈالی ، اس کے بعد وزیر اعظم نے تقریر کی۔

وزیر اعظم کی تقریر کے بعد بل کی خواندگی کا مرحلہ شروع ہوا اور وزیر قانون نے بل منظوری کے لیے ایوان کے سامنے پیش کردیا، تاکہ ہر رکن قومی اسمبلی اس پر تائید یا مخالفت میں رائے دے۔ رائے شماری کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے پانچ بج کر باون منٹ پر اعلان کیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والی آئینی ترمیم کے حق میں ایک سوتیس ووٹ آئے ہیں ،جبکہ مخالفت میں ایک ووٹ بھی نہیں ڈالا گیا۔ اس طرح قومی اسمبلی میں یہ آئینی ترمیمی بل اتفاقِ رائے سے منظور کرلیا گیا۔

قادیانی اپنے عقائد و نظریات کی بنیاد پر اپنے وجود کے اوّل دن سے ہی اسلام سے خارج تھے، بلکہ انہوں نے ایک نئے نبی کو مان کر از خود اپنا راستہ مسلمانوں سے علیحدہ کرلیاتھا، یہی وجہ ہے کہ وہ خود بھی اپنے علاوہ دیگر تمام مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں۔قومی اسمبلی نے انہیں کافر قرار نہیں دیا، ہاں قومی اسمبلی نے ان کے افکار و نظریات ، عقائد و خیالات کو دیکھتے ہوئے ان کی آئینی حیثیت متعین کی کہ وہ دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح ایک اقلیت ہیں۔

آج یہ شور مچاتے ہیں کہ ہم اس آئین کو کیسے تسلیم کریں جس میں ہماری نفی کی گئی ہے ،یہ بات بالکل غلط ہے۔ اس آئین نے تو انہیں ایک حیثیت دی ہے، ان کے وجود کو تسلیم کیا ہے، کیوں کہ اس ترمیم سے پہلے ان کا اپنا کوئی وجود نہیں تھا، نہ وہ مسلمانوں میں شامل تھے ، نہ دیگر اقلیتوں میں۔ آئین نے ان کی ایک حیثیت متعین کر کے نہ صرف یہ کہ ان کے وجود کو تسلیم کیا ہے ، بلکہ انہیں آئینی طور پر حقوق دیئے ہیں کہ وہ ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر اس ملک میں رہ سکتے ہیں۔

دوسری اقلیتوں کی طرح ان کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی، وہ غیر مسلم اقلیت کی حیثیت سے اپنے مذہب پر عمل کرسکتے ہیں، غیر مسلم اقلیت کی حیثیت سے انتخاب لڑ سکتے ہیں، دیگر اقلیتوں کی طرح اسمبلی کا حصہ بن سکتے ہیں، آئین انہیں یہ سارے حقوق دیتا ہے، مگر افسوس آئین کی جس شق کو متفقہ طور پر منظور کر کے آئین کا حصہ بنایا گیا، جس کی پوری امت مسلمہ نے توثیق کی ، عدالت عظمیٰ جس کی کئی بار توثیق کرچکی، قادیانی امت اس شق کو نہ ماننے پر بضد ہے۔اور تمام فیصلوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے خود کو مسلمان کہلانے اور اسلام کا نام استعمال کرنے پر بضد ،دنیا بھر میں بغاوت کا کھلم کھلا اظہار کر رہی ہے، اور اپنی سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے انسانی حقوق کی آڑ میں پناہ لینے کی کوشش کر رہی ہے، قادیانی دنیا بھر میں اس متفقہ اور جمہوری فیصلے کے خلاف لابنگ کر رہے ہیں اور اسے ختم کرانے کے لیے پورا زور لگا رہے ہیں۔

مغربی عالمی سیکولر لابیوں کی انہیں مکمل پشت پناہی حاصل ہے، ان حالات میں تمام مسلمانوں خصوصاً اہل پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ چوکنا رہیں اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور اس دستوری فیصلے کا مسلسل پہرہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ ہرچور راستے کو بند کر کے اس میں نقب لگانے کی کوشش کو ناکام بنادیا جائے۔