’’طلبہ کی ذہن سازی‘‘ اساتذہ کی ذمے داری ہے

September 12, 2020

محمد فاروق دانش

کیا ہم پڑھے لکھے ہیں؟ کیا ہم معاشرے کے ذمے دار فرد ہیں؟یہ اور ایسے دیگر سوالات عام بول چال میں جنم لیتے ہیں اور اہل علم افراد ایک دوسرے سے اس قسم کی بات کر کے ایک دوسرے کا چہرہ تکتے ہیں۔اس کا جواب پڑھے لکھے افراد کیا دیں؟ ہم بتاتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کے لیے اس کی اولین ترجیح اور ضرورت ’تعلیم ‘ہے جو اس قوم کے مہذب ہونے کی دلیل مانی جا تی ہے۔ نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیںاور تعلیم یافتہ اقوام ہی ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔

مشہور مورخ ایچ جی ویلز (The Outline Of History) میں لکھتا ہے:

’’دنیا کا سب سے اچھا سیاسی اور سماجی نظام مسلمانوں کے پاس تھا اور اس وجہ سے اُن کو غلبہ حاصل ہوا۔‘‘

لیکن پھر وہی قوم جس کے نبیﷺ کی پہلی وحی کا پہلا لفظ ’’اقرا‘‘ تھا ،جس کی تعلیمات میں محدسے لحد تک علم حاصل کرنے کا کہا گیا ہے۔ جہاں عالم کو زاہد پر فضیلت دی گئی اور عالِم کی موت کو عَالم کی موت کہا گیا۔ وہ قوم جو دُنیا کو جہالت اور غفلت سے نکالنے کے لیے اُٹھائی گئی تھی، صدیوں تک دنیا کی فرماںروائی کرتے کرتے آخر کار تھک گئی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اہل مغرب کے ترقی یافتہ ہونے کا راز فقط تعلیم کے شعبے میں نمایاں کام ہے

آج دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ناخواندگی ہے۔ ’’تعلیم زندگی کے لیے تیاری نہیںبلکہ بذات خود زندگی ہے۔‘‘ ایک انسان اس وقت تک معاشرے کے لیے مفید نہیں بن پاتا جب تک وہ تعلیم یافتہ نہ ہو۔پڑھی لکھی ماں ہی بہترین معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکتی ہے۔ یہ وہ رٹے رٹائے بیانات ہیں جو پبلک سے لے کر پرائیویٹ سیکٹر تک ہر صاحب اختیار اور اقتدار کی زبان پر ہوتے ہیں۔ حکومتی اجلاسوں، جلسوں اور این جی اوز کی بڑے ہوٹلوں میں تعلیمی کانفرنسز تک ہر مقرر جب بولتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر پاکستان میں تعلیمی بدحالی کا کوئی غم خوار ہی نہیں… لیکن افسوس! تعلیمی پس ماندگی کے درد میں ڈوب کر کی جانے والی یہ تمام جوشیلی تقاریر صرف لفظوں کی حدتک محدود ہیں، عملی کوششوں سے ان کا دور دور کا کوئی رشتہ نہیں، کسی کو عملاً اس کام میں سنجیدگی نہیں-تعلیم انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر تی ہے اور انسان کو معاشرے کا ایک فعال اور اہم جزو بننے میں مدد فراہم کرتی ہے۔استاد کو افراد سازی کے فرائض کی ادائیگی کے سبب معاشرے میں اسے اس کا جائزہ مقام فراہم کیا جانا ضروری ہے۔

یہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ پورے تعلیمی نظام کا مرکز و محور ایک استاد ہی ہوتا ہے۔نصاب تعلیم جو بھی لیکن استاد اسے جس طرح چاہے پڑھا سکتا ہے۔یہ نہ صرف نسل نو کی تربیت کرتا ہے بلکہ نسل نو کو نظریہ حیات اور اسلامی تعلیمی نظریا ت سے وابستہ بھی کرتا ہے۔ علوم کی ترویج و تدریس کو ذریعہ معاش نہ سمجھیں بلکہ علوم کی تدریس، ترویج و اشاعت کو اخلاق کی بلندی اور کردار کی تعمیر کے لیے استعمال کریں۔استاد کمرۂ جماعت یا مدرسہ کی چار دیواری تک ہی استاد نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ ہر پل اپنی رفتار،گفتار،کردار غرض ہر بات میں اُستاد ہوتا ہے۔

اُستاد کی ہر بات و حرکت طلبا پر اثر انداز ہوتی ہے۔ آج استاد اور شاگرد کامقدس رشتہ کہیں کھو گیا ہے۔ استاد کا مقام مادیت پرستی اور ماہانہ مشاہیرہ سے بالاہے۔اس سے یہ مراد ہر گز نہ لی جائے کہ اساتذہ کی اپنی ضروریا ت نہیں ہوتی ہیں۔اساتذہ کے ہاتھوں میں معاشرے کے بناؤ اور بگاڑ کی کلید ہونے کی وجہ سے ان کا مقام نمایا ں و بلند ہوتا ہے۔

معاشرہ استاد کو ایسے نمایا ں مقام پر فائز کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ وہ دنیا کے باقی شعبوں کی طرح اپنے ہاتھ منفعت اور مراعات کی لالچ میں آلودہ نہ کریں ۔یہ ایک الگ مسٗلہ ہے کہ علم کے فروغ جیسے معتبر پیشے سے وابستہ افراد نے اپنی وہ قدر و منزلت نہیں بنائی جس کے وہ متقاضی تھے۔آج کے اُستاد تعلیم کے فروغ کی بجائے صرف مراعات کے حصول کو ترجیح دیتے ہیں۔پھر ستم یہ کہ نجی انسٹی ٹیوٹس اور کوچنگ سینٹرزکے بے تحاشا قیام سے اساتذہ کا معیار نہ صرف متاثر ہو رہا ہے بلکہ یہ تعلیم اور اپنے اداروں سے دوری کا سبب بن رہا ہے۔ یہ کام صرف سرکاری تعلیمی اداروں میں نہیں بلکہ مقدور بھر نجی ادارے بھی شریک ہیں۔

’نو جوانی‘ انسان کی زندگی کا اہم ترین دُور ہوتا ہے ۔ اس عمر میں نوجوان جو چاہے کرسکتا ہے۔ انسان اس عمر کو اگر صحیح طور سے برتنے کی کوشش کرے تو ہر قسم کی کام یابی اس کے قدم چومے گی ۔اگر اس عمر میں نوجوان بےپروائی سے زندگی گزارے گا تو اس کو اس کا خمیازہ تمام عمر بھگتنا ہوگا یہ ایام اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بڑی نعمت ہیں۔ اسی لیے اس کے بارے میں خصوصی طور سے پوچھا جائے گا کہ جوانی کہاں اور کن امور میں صرف کی۔ نوجوانوں کو اپنی شخصیت منوانے کے لیے علم وعمل سے ناتا جوڑنا ضروری ہو جاتا ہے۔اپنی صلاحیتوں کو بروئے کا ر لا کر حسدو نفرت سے بچتے ہوئے، محبت کو فروغ دے کراپنی شخصیت کو دلکش اور اثر انگیز بنا سکتے ہیں۔

جہاںاساتذہ کا فرض ہے کہ وہ طلبہ کی فکر سازی و ذہن سازی کریں کہ ان کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہو جائیں وہیں علم کی حقیقی طلب نوجوانوں کا خواب ہونا چاہیے، اگر ان کی ذہن سازی کی جائے تو وہ پڑھنے کی جانب ہر صورت راغب ہو سکتے ہیں۔ہم حقائق کو پیش نظر رکھیں تو صاف ظاہر ہے کہ ہمارے ملک میں صد فیصد ڈگریاں رکھنے والے نوجوانوں میں پڑھے لکھے افراد کا تناسب دس فیصد سے زاید نہیں ہے ،جس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ دوران امتحان انھیں ہر کام کی مکمل اور آزادی دی جاتی ہے ۔

نقل کے خاتمے کی بات تو بڑے دھڑلے سے کی جاتی ہے لیکن عملی طور پر ہم اس میں ناکام نظر آتے ہیں۔ علم سے دلی لگائو رکھنے اور پڑھ کر محنت سے امتحان پاس کرنے والوں کی حق تلفی کے واقعات عام ہیں ، امتحان کی تیاری کے لیے مطالعہ کرنے کی بجائے طلبہ نقل کو ترجیح دے رہے ہیں جس کے باعث علمی امور کے فروغ کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے ۔

مہذب اور خوش حال معاشرے کا خواب انہی ممالک میں پورا ہوتا ہے جو تعلیم کے معیار کو بہترکرنے پر یقین رکھتے ہیں، جہاں استاد اور طلبہ کے درمیان بہترین ہم آہنگی ہو ۔ حکومتیں اپنے اداروں سے مخلص ہوں، یہ بات سب جانتے ہیں کہ معاشرے کی اصلاح اور مسائل کا حل تلاش کرنا صرف اداروںکا ہی کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سالانہ بجٹ میں جس قدر رقوم تعلیم اور صحت کے لیے وقف کی جاتی ہیں، ایسا شاید پاکستان میں ضروری نہیں سمجھا جاتا۔

یہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ نوجوانوں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے، اُس زمانے میں تعلیم کے میدان میں نمایاں کارنامے تاریخ کا حصہ بنیں گے تو ملک ترقی کی جانب مائل ہو سکتا ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ جب قیام پاکستان کی ترقی اور خوش حالی میں پڑھے لکھے لوگوں کا کردار تسلیم کیا جاتا ہے تو یہ بھی مان لینا چاہیے کہ مہذب معاشرے کی تکمیل میں ہر شخص کا تعلیم یافتہ ہونا ناگزیر ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ ادارے ، اساتذہ اور طلبہ سب اپنی اپنی ذمہ داریاںبھر پور طریقے سے انجام دیں۔

ہمارے وطن کا المیہ یہ ہے کہ شہری علاقوں میں عمومی جبکہ دیہی علاقوں میں خصوصی طور پر تعلیمی اداروں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ نوجوانوں کے لیے تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی تو دور کی بات ہے، بعض کی تو عمارتیں ہی موجود نہیں، کہیں عمارتیں تیار کرادی گئی ہیں تواس کی تزئین و آرایش ہنوز غور طلب ہےاور جہاں عمارتیں ہیں، اسکول کالج کا وجود ہے ، وہاں ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ دیہی علاقوں میں والدین بچوں خاص کر بچیوں کو تعلیم دلوانے کے لیے تیار ہی نہیں ۔

غربت اور منہگائی کی وجہ سے وہ اپنے بچوں سے مزدوری کرانے کو توترجیح دیتے ہیںمگر تعلیم ...... یہ ان کا شعبہ ہی نہیں۔ یہاں والدین کو رہنمائی کی ضرورت ہے کہ کس طرح حصول تعلیم سے ان کے بچے بہتر انداز میں گھر چلا سکتے ہیں اور غربت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جان بھی چھوٹ سکتی ہے۔ موجودہ دور ٹیکنالوجی کا ہے، یہ بات غور طلب ہے کہ جب اداروں کی صورت حال اس انداز کی ہو گی توپھرجدید دور میں داخل ہونے کی بات محض ایک سراب ہی سمجھی جا سکتی ہے ۔

تعلیمی نظام کی بہتری کی صورت تو یہ ہی ہو سکتی ہے کہ حکومت اس جانب بھر پور توجہ دے ۔تعلیم کے فروغ کواپنی ترجیحات میں سرِفہرست رکھے۔ اس کے لیے نہ صرف مناسب بجٹ رکھا جائے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ بجٹ کا مناسب اور صحیح جگہ پر استعمال بھی کیا جائے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ وسائل کے باوجود محکمہ تعلیم کی عدم دلچسپی کی وجہ سے بہت سے اسکولوں، کالجوں کی عمارتوں، کلاس رومز، فنی تربیت کی تجربہ گاہوں اورا سپورٹس گراؤنڈ کا بُرا حال ہوتا ہے۔ اس تناظر میں یہ ضروری ہے کہ وسائل کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کا صحیح استعمال بھی یقینی بنایا جائے۔