کشمیر... انسانی المیہ

September 13, 2020

میزبان: محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ: طاہر حبیب

یہ تاریخ کا بہت بڑا واقعہ ہے۔سن 1948ء، سن1965 ءمیں،1971ءمیں ،ان تینوں میں مقبوضہ کشمیر میں آپ کا کوئی حمایتی نہیں تھا۔ لیکن اس مرتبہ یہ صورت حال تھی کہ وادی کشمیر کا ایک ایک بچہ پاکستان کی طرف دیکھ رہا تھا ،لیکن آپ نے کچھ بھی نہیں کیا، 62ء میں چین نے لداخ پر حملہ کیا تھا

سردار اشرف خان
ماہر امور کشمیر

اُس وقت ہمارے لیے ایک سنہری موقع تھا، اُس وقت ہم کشمیر کو آزاد کرا سکتے تھے لیکن اُس وقت کشمیری ہمارے ساتھ نہیں تھے، کشمیریوں کے حق رائے دہی کا شور کیا جاتا ہے حالاں کہ رائے شماری کی بات ہم نے نہیں بھارت نے کی تھی،پاکستان کو چاہئے کہ وہ کشمیری کاز کو مستحکم کرے صرف کشمیری مسلمان نہیں کشمیری عوام،ہمارے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ ہم کشمیری سرزمین کے لیے کام کریں، سپورٹ کریں اور دُوسرے ملکوں سے بھی کہیں کہ کشمیری سرزمین کا۔ کشمیری عوام کا حق بحال کرانے میں ساتھ دیں

سردار اشرف خان

آرٹیکل 35 اے خاتمے کے بعد نریندر مودی حکومت نے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی روند ڈالا۔

مشعال ملک
کشمیری رہنما/اہلیہ یاسین ملک

بھارتی اقدامات پر کشمیر انٹرنیشنل میڈیا کی زینت ضرور بنا لیکن عالمی برداری نے بھارتی اقدامات اور مظالم کی روک تھام کے لیے کوئی خاص اقدامات نہ کیے۔اقوام متحدہ نے بھی ماسوائے تشویش کا اظہار کرنے کے بھارتی حکومت کو کشمیر میں مظالم روکوانے میں کوئی کردار ادا نہ کیا، ہم نے پاکستان کے نئے نقشے میں بھارتی زیر انتظام کشمیر کو اپنا حصہ ظاہر کرکے بھارت کو ایک کڑا پیغام تو دے دیا،مگر استصواب رائے والے مطالبے کا کیا ہوگا

مشعال ملک

پچھلے چھ سال سے مودی حکومت کے پے در پے مجرمانہ اور ظالمانہ اقدامات نے اب کشمیر کو عالمی سطح پر صف اول کے خطرناک مسائل کی صف میں لا کھڑا کیا ہے

فیض رحمٰن
سیاسی تجزیہ کار/وائس آف امریکا

جس سے مغرب میں سیاسی اور عوامی سطح پر اس اہم مسئلہ پر وسیع پیمانے پر آگاہی پھیل رہی ہے،کشمیر ایک ایسا انسانی مسئلہ ہے جسے مزید نظرانداز کرکے ایک بہت خوفناک انسانی تباہی کا خطرہ مول لیا جا رہا ہے۔ پچھلے سال پانچ اگست سے پہلے اقوام عالم کو بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کا کوئی ادراک نہیں تھا ۔پوری کشمیر وادی ایک بڑی بے رحمانہ جیل میں تبدیل کردی گئی اور ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرجانے کے باوجود مظلوم کشمیری مسلسل حالت قید میں ہیں

فیض رحمٰن

جب ہندوستان کے اندر الیکشن ہو رہا تھا بی جے پی کے الیکشن منشور میں تھا کہ ہم کشمیر کے اسپیشل سٹیٹس کو ختم کریں گے،

سردار نزاکت علی
رہنما، پاکستان پیپلز پارٹی

لیکن بدقسمتی سے پاکستان کا وزیر اعظم کہہ رہا تھا کہ مودی الیکشن جیتے گا تو مسئلہ کشمیر حل ہوگا ،ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا پاکستان کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہوئی ہے، آج پاکستان کے اندر ایسی لیڈرشپ کی ضرورت ہے جس طرح ذوالفقار علی بھٹو تھے، جنہوں نے کہا تھا کہ ہم کشمیریوں کے لیے ہزار سال تک جنگ لڑیں گے،پاکستان کے ہر مکاتب فکر کے لوگوں کو آگے آنا ہوگا اور اپنی حکومت کو یہ باور کرانا ہوگا کہ پاکستان کے لوگ کسی صورت تقسیم کشمیر کو قبول نہیں کریں گے

سردار نزاکت علی

5اگست 2019حالیہ تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے، جب مودی سرکار نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 135اے اور آرٹیکل 370کو کالعدم قرار دے دیا۔ان آرٹیکلز کے تحت مقبوضہ کشمیر کو ایک خصوصی آئینی حیثیت حاصل تھی اور اس کا تشخص دیگر بھارتی ریاستوں سے مختلف تھا۔ بھارت کا یہ اقدام اقوام متحدہ اور سیکوریٹی کونسل کی قرار دادوں کے برخلاف ہے جس کے تحت کشمیر کوایک متنازعہ علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ ان آرٹیکلز کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر کو بھارت نے آئینی طور پر اپنا باضابطہ حصہ قرار دیا ہے۔ بھارت کے اس اقدام کے خلاف گزشتہ ایک سال سے مقبوضہ کشمیر کے عوام غیر معمولی حالات سے گزر رہے ہیں۔

انہیں طویل ترین کرفیو کا سامنا ہے۔ معصوم بچے، ناتواں بوڑھے ،خواتین گھروں میں قید ہیں ،ہزاروں نوجوانوں کو لاپتا کر دیا گیا ہے۔ ماورائے عدالت قتل اور بنیادی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری ہے۔ مقبوضہ وادی میں آبادی کا تناسب بدلنے کے لیے بھارتی سرکاری افسروں کے خاندانوں اور ہندوئوں کو ایک منظم منصوبے کے تحت آباد کیا جا رہا ہے یہ وہی تکنیک ہے جو اسرائیل نے فلسطینی علاقوں کے لیے اختیار کر رکھی ہے۔ آرٹیکل 370کے تحت صرف مقامی افراد ہی زمین خرید سکتے تھے اور مقامی آبادی ہی کو ملازمتیں مل سکتی تھیں۔ بھارتی اقدامات کے خلاف پاکستان نے سب سے زیادہ احتجاج کیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ پاکستان کشمیریوں کی جدوجہد میں ہمیشہ کی طرح ان کے ساتھ ہے۔انہوں نے نیویارک ٹائمز میں ایک مضمون لکھا اور دنیا کو خبردار کیا کہ اگر کشمیر کے مسئلے پر توجہ نہ دی گئی تو یہ دنیا کے لیے ایک سنگین خطرہ بن جائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کے توجہ دلانے پر عالمی برادری نے بھارتی اقدامات کے خلاف آواز اٹھائی ۔5اگست2020کو ایک سال مکمل ہونے پر پاکستان نے یوم استحصال کشمیر منایا اس دن پاکستان نے ملک کا نیا نقشہ جاری کیا جس میں مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ یہ نقشہ اقوام متحدہ میں پیش کیا جائے گا۔ صدر مملکت عارف علوی نے عندیہ دیا کہ کشمیر کاز کو مضبوط کرنے کی خاطر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کشمیر کے لیے نشستیں مختص کی جا سکتی ہیں۔

ایک سال گزر جانے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں آج بھی انسانی حقوق کی صورت حال نہایت سنگین ہے۔ پوری وادی جیل خانے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ بھارتی فورسز نے ایک سال کے دوران 214کشمیریوں کو شہید، 1390کو زخمی اور 13ہزار سے زائد کشمیریوں کو گرفتار کیا ۔بھارتی فورسز نے بیلٹ گنوں سے10ہزار سے زائد کشمیریوں کو نشانہ بنایا ۔انٹر نیٹ سروسز کو 55مرتبہ بند کیا گیا۔ مجموعی طور پر یہ بندش 213دنوں پر محیط تھی۔ کرونا وائرس کے سبب کشمیریوں کے مصائب میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ لاک ڈائون کی آڑ میں بھارتی فورسز کو کشمیری عوام کی نقل و حرکت روکنے کا نیا بہانہ مل گیا مگر کشمیری عوام کی جدوجہد آج بھی روز اول کی طرح جاری ہے۔

اس صورت حال میں پاکستان پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دنیا بھر میں کشمیر کاز کو اجاگر کرے اور ہر سفارتی محاذ پر اپنے رابطے استعمال کرے۔ اس ضمن میں دفتر خارجہ کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا،روایتی سفارت کاری کا طریقہ کار ترک کر کے جدید تقاضوں میں خود کو ڈھالنا ہو گا تاکہ ایک مضبوط بیانیہ اختیار کر کے ہر عالمی فورم میں مسئلہ کشمیر کو اٹھایا جائے۔ بھارتی فورسز کے ظلم و ستم پر مبنی وڈیوز دنیا کے سامنے پیش کی جائیں۔ ساتھ ساتھ عالمی رہنمائوں اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے رابطے بڑھائے جائیں اور ان کی حمایت اور تائید حاصل کی جائے۔

گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان نے کشمیر کاز کے لیے کیا اقدامات کئے؟ کشمیریوں کی جدوجہد کو کس طرح اخلاقی اور سفارتی سطح پر دنیا میں روشناس کرایا ؟ عالمی برادری نے کشمیریوں کا کس حد تک ساتھ دیا؟ اسلامی ملکوں کا کیا ردعمل رہا ؟ آئندہ کے لیے پاکستان کا کیا لائحہ عمل ہونا چاہئے ؟ سب جاننے کے لیے یہ جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں سردار اشرف خان،کشمیری رہنما یٰسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک ،فیض رحمٰن اور سردار نزاکت علی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔جنگ فورم کی رپورٹ قارئین کی نذر کی جا رہی ہے۔

سردار اشرف خان

ماہر امور کشمیر

ایک تو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ5اگست کا واقعہ اچانک نہیں ہوا۔ گزشتہ دس سال سے بی جے پی اور ان کے حمایتی جرنیل اس معاملے کو اٹھا رہے تھے کہ پاکستان کے ساتھ ہمارا معاملہ سیٹل نہیں ہو رہا۔ لہٰذا جموں و کشمیر اور لداخ کو الگ کر دیں۔ تو ایسا بالکل نہیں تھا کہ پاکستان کو کوئی بے خبری نہیں تھی اور ایسا بھی نہیں تھا کہ پاکستان کے جو پالیسی ساز ہیں اور جو فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے یا ہماری جو حکومت ہے اور بیورو کریسی ہے ان سب کو معلوم تھا کہ بی جے پی نے یہ کرنا ہے اور اس کا فائنل رائونڈ اس وقت ہوا جب صدر ٹرمپ کے ساتھ ہمارے آرمی چیف کی اور عمران خان کی ملاقات ہوئی ۔اس ملاقات میں یہ این او سی دے کر آئے کہ یہ کچھ نہیں کریں گے۔

دوسرا جو حکومت پاکستان نے کام کیا وہ یہ کیا جب مودی نے الیکشن سے قبل جو حملہ کیا تو اس کے جواب میں پاکستان کا جو درعمل تھا وہ چاہے سعودی عرب کے کہنے پر ہو چاہے وہ یو اے ای کے کہنے پر ہو ،چاہے امریکا اور برطانیہ کے کہنے پر ہو لیکن یہ بہت ہی بزدلانہ اور کم زور تھا۔ بھارت نے کنٹرول لائن پر نہیں بین الاقوامی سرحد پر حملہ کیا تھا اور اس کے بعد انہوں نے کہنا شروع کیا کہ ہم نے یہ کر دیا وہ کر دیا۔ ہماری فورس نے وہاں جا کر بم ڈراپ نہیں کیا اور کیوں نہیں کیا کیونکہ ان کا آرمی چیف وہاں بیٹھا ہوا تھا ،کیوں کیا وہ آپ کا ماما لگتا ہے؟ یہ پاور کی دنیا ہے اگر آپ ان پر بم گرا دیتے تو نہ مودی جیتتا نہ ہی کشمیر میں5 اگست والا واقعہ ہوتا ۔،اس چیز نے اور پھر آپ نے جو بیس گھنٹے کے اندر اندر ان کا پائلٹ واپس کیا تو انہوں نے سوچا کہ پاکستان تو بالکل ہی لیٹ گیا ہے۔

الیکشن سے پہلے جب عمران خان مودی سے ملنے گئے تھے تو یہ انڈین کو کہہ کر آئے تھے کہ ملٹری میرے ساتھ ہے، آپ جو کرو گے کشمیر میں ، ہم اس پر آپ سے لڑنا نہیں چاہتے۔ 5 اگست کا جو ایکشن ہے اس کے جواب میں تو آپ نے کچھ بھی نہیں کیا ۔یہ تاریخ کا بہت بڑا واقعہ ہے۔سن 1948ء، سن1965ء میں،1971ءمیں ،ان تینوں میں مقبوضہ کشمیر میں آپ کا کوئی حمایتی نہیں تھا۔ لیکن اس مرتبہ یہ صورتحال تھی کہ وادی کشمیر کا ایک ایک بچہ پاکستان کی طرف دیکھ رہا تھا اور یہ کہہ رہا تھا کہ ہمیں پاکستان بچائے گا لیکن آپ نے کچھ بھی نہیں کیا۔ اس اقدام سے قبل وہاں دس بارہ ہزار جنگ جو تھے جو اب دو ڈھائی سو رہ گئے ہیں۔ باقی کہاں ہیں ؟ اگر انہیں ہماری ایجنسیوں نے تیار کیا تھا تو وہ مر کیوں گئے ؟

پاکستان ان لاشوں کا ذمے دار ہے، اور جو سات آٹھ لاکھ زخمی اور بیوہ ہو گئے ان کا ذمہ دار کون ہے ؟ یہ بہت بڑا داغ ہے جو ہمیشہ ہمارے دامن پر رہے گا۔ اسی لیے علی گیلانی نے جو ہمیشہ پاکستان کی حمایت میں تھا اب اس نے ہاتھ اٹھا لیے ہیں۔ اب آپ یہ دیکھئے کہ 5اگست کے اقدام کی پورے ہندوستان نے حمایت کی ،ساری دنیا نے حمایت کی ہے اور سعودی عرب اور امارات نے بھی۔ جب آپ خود ہتھیار ڈال دو گے تو دوسرا کیسے آپ کی حمایت کرے گا۔ سعودی عرب نے کہا کہ آپ مسئلہ کشمیر کو اسلامی مسئلہ نہ بنائیں۔ یہ آپ کا اور ہندوستان کا مسئلہ ہے۔ یا کشمیریوں کا یا بھارت اور پاکستان کا مسئلہ ہے۔ یہ اس حوالے سے عالمی مسئلہ تو ہے کہ یہ دو ملکوں کے درمیان ہے۔ لیکن یہ اسلامی مسئلہ نہیں ہے۔ سعودی عرب کا موقف بہت واضح ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے اور یہ بالکل صحیح پوزیشن ہے ۔

آپ کیوں مدد کی توقع رکھتے ہیں کہ اگر وہ اس قابل ہوتے تو وہ کیوں جا کر امریکا سے مدد مانگتے۔ کہ ہماری حفاظت کے لیے اپنی فوج بھیجو۔ ان کے پاس تو زیادہ سے زیادہ صرف پیسے ہیں جو انہوں نے پتہ نہیں کہاں رکھے ہیں اور وہ کسی کو اجازت کے بغیر دے بھی نہیں سکتے۔تو 5اگست کا جو واقعہ ہے وہ بھارتی آئین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت ایک ہی لائن پر چلے ہیں۔ بھارت مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے کر گیا۔آپ کی کسی نے کوئی بات نہیں مانی اور آپ نے تب بھی کوئی اعتراض نہیں کیا، انڈیا نے کشمیریوں سے وعدہ کیا ہے کہ ہم آپ کو حق خود ارادیت دیں گے، بھارت نے دھوکہ دیا یا کشمیریوں کو شیخ عبد اللہ کو ۔ لیکن آپ اس دھوکے میں کیوں شریک ہوئے ؟ انہوں نے پہلے وہاں وزیر اعظم رکھا پھر چیف منسٹر رکھا۔ وہ متعلقہ دفعات رفتہ رفتہ کالعدم کرتے گئے۔35اے جائیداد خریدنے سے متعلق تھا اب وہ بھی کالعدم ہو گیا ہے۔ وہ آب گلگت اور بلتستان میں پہلے ہی کر چکے ہو۔ آزاد کشمیر میں آپ نے نہیں کیا۔

آزاد کشمیر تو گلگت اور بلتستان کے لوگوں نے آزاد کرایا لیکن کیا آپ اس کا اعتراف کرتے ہو۔ کبھی دنیا میں ایسا ہوا ہے کہ کوئی آزاد کرا کر علاقہ آپ کو دے دے۔ تو اس لیے جو 5اگست کا اقدام ہے اسے تو آپ نے خود انڈوس کیا ہے۔ ورنہ یہ پاکستان کے لیے انتہائی سنہری موقعہ تھا اور لائف ٹائم اپر چیونٹی تھی کہ ننانوے فیصد نہیں پورے سو فیصد کشمیری آپ کے ساتھ تھے۔ آپ کو کچھ نہیں کرنا تھا۔ صرف آزاد کشمیر کے لوگوں کو اشارہ کرنا تھا کہ جائو ویسے آزاد کشمیر کے عوام میں زیادہ تر سابق فوجی ہیں۔ لیکن آپ نے کچھ نہیں کیا۔5اگست کا اقدام سراسر بھارتی آئین کی خلاف ورزی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اس پر ابھی تک فیصلہ نہیں دیا ہے۔ اگر فیصلہ آئے بھی تو کچھ نہیں ہو گا۔ جس طرح افضل گرو کے معاملے میں ہوا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ اس آدمی پر کوئی الزام نہیں۔ کوئی ثبوت نہیں ہے۔ لیکن یہ جو تاثر ہے کہ یہ بھارت کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہے تو اس کی وجہ سے ہم اسے پھانسی کی سزا دے رہے ہیں ۔دنیا میں کیا اس طرح ہوتا ہے کہ کسی شخص کے خلاف تصور کی بنیاد پر اسے سزا دے دی جائے۔ جہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا تعلق ہے ۔ کشمیر میں جو باتیں ہوئی ہیں کہ جو پرو انڈین کشمیری لیڈر تھے۔ شیخ عبد اللہ کا جو خاندان تھا وہ بھی انڈیا کے خلاف ہو گیا۔ جو مفتی تھے وہ بھی خلاف ہو گئے اور جو کشمیری عام آدمی تھا وہ بھی بھارت کے خلاف ہو گئے لیکن ان کو کسی نے گھاس نہیں ڈالی نہ ان کو پاکستان کی طرف سے کوئی حمایت ملی نہ ہم نے ان کی کوئی مدد کی۔

جب محبوبہ مفتی نے کہا کہ میں بھی چاہتی ہوں ،پاکستان میری بات سنے تو اس کا کیا مطلب تھا۔ یا وہ پاکستان کی مدد کی طالب تھی مگر یہاں خاموشی تھی جو آپ کے ساتھ ملنا چاہتے تھے آپ کے ساتھ وفاداری کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے ان کے ساتھ یہ کیا۔ کیا یہ جرم نہیں ہے؟ کشمیریوں کی اپنی غلطیاں ہیں لیکن اب وہاں کی ساری کی ساری لیڈر شپ قید میں ہے۔ چاہئےوہ انڈین کے حامی تھے یا خلاف تھے۔ انہوں نے ہر اس آدمی کو جو بی جے پی کا رکن نہیں تھا اسے بند کر دیا۔ صرف فاروق عبداللہ اور عمر عبد اللہ کو پے رول پر چھوڑا ہوا ہے۔وہ بھی اس شرط پر کہ وہ بات نہیں کریں گے۔

اس کے بعد اُنہوں نے لداخ کو کاٹ دیا، جموں کو بھی کاٹ دیا حالاں کہ جموں فیڈرل ٹیک اوور کا حمایتی نہیں ہے۔ وہاں اکثریت مسلمانوں کی نہیں غیرمسلموں کی ہے۔ وہ مرکزی حکومت کی مداخلت کو پسند نہیں کرتے لداخ والے بھی یہی کہتے ہیں کہ ان کا تعلق وادی سے نہیں ہے۔ تیسرا کام بھارت یہ کررہا ہے کہ وہاں تقسیم دَر تقسیم کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں کو الگ الگ بانٹ دیا ہے۔ ہر محلّے میں ہر روز گھروں کی تلاشی لیتے ہیں اس تلاشی کے دوران بوڑھی عورتوں کو نوجوان عورتوں کو الگ کر دیتے ہیں اور جو بوڑھے مرد ہیں نوجوان ہیں انہیں دُوسری جگہ منتقل کر دیتے ہیں اور پوری پوری رات بھارتی فوجی عورتوں کے ساتھ جو مقابلہ نہیں کر سکتی زیادتی کرتے ہیں۔

اب زیادتی کا شکار عورتیں نہ کسی کو بتا سکتی ہیں نہ پولیس اسٹیشن پر شکایت درج کرا سکتی ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے وہاں انٹرنیٹ سروس نہیں ہے، اب کسی کو کیا پتا کتنے لوگ بیمار ہیں، مر گئے ہیں۔ قبر کا نشان تک نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی کوئی تنظیم وہاں نہیں جا سکتی۔ میڈیا پر بھی پابندی ہے۔ بارہ ہزار بچّے غائب ہیں۔ دس سال سے پچیس سال تک کے نوجوان اگر کشمیر سے نکل گئے ہیں تو زندہ ہیں وگرنہ سمجھ لیجئے وہ زندہ نہیں ہیں۔ کشمیریوں پر یہ ستم کی ایسی رات ہے جس کا سویرا نہیں ہے۔ بھارتی فوج نے وہاں جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں، انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

اس وقت کشمیریوں کی دو باتیں ہیں۔ انہیں پاکستان سے شدید ترین احساس بے وفائی ہے۔ اب وہ پاکستان سے کس طرح الحاق کی بات کر سکتے ہیں۔ او آئی سی کی قرارداد سے کیا ہوگا کیا کشمیر آزاد ہو جائے گا؟ آپ نے نقشے میں کشمیر شامل کر لیا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ گلگت اور بلتستان ہمارا ہوا۔ یہی وہ بات ہے جو انڈیا کہتا تھا مگر آپ نہیں مانتے تھے۔ اب آپ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا ری ایکشن ہے۔ ابھی یہ کوشش کر رہے تھے کہ آزاد کشمیر کو پاکستان میں ضم کر دیں۔ گجرات کے ساتھ، سیال کوٹ کے ساتھ مگر آزاد کشمیر کے لوگ اس بات کو مانیں گے نہیں۔

اس وقت صرف چیز ہے وہ ہے اُمید۔ اگر اوورسیز پاکستانی ہیں اگر وہ کچھ کوشش کریں وہ کہیں نہ کہیں چھوٹی موٹی آواز بلند کریں۔ یورپی یونین میں خاص طور پر۔ 62ء میں چین نے لداخ پر حملہ کیا تھا اُس وقت ہمارے لیے ایک سنہری موقع تھا، اُس وقت ہم کشمیر کو آزاد کرا سکتے تھے لیکن اُس وقت کشمیری ہمارے ساتھ نہیں تھے۔ اگر آج ہم یہ کرتے ہیں تو ہم کم از کم وادی کو آزاد کرا سکتے ہیں۔ اگر وہاں بیس لاکھ فوج بھی ہو تو وہ کچھ نہیں کر سکتی کیوں کہ ایک کروڑ عوام آپ کے ساتھ ہیں۔ یہ ایک کروڑ آپ کے لیے سپاہی کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔

ماضی کے ایک سال کے دوران ہمارے سارے اقدامات کاغذی ہیں۔ کشمیریوں کے حق رائے دہی کا شور کیا جاتا ہے حالاں کہ رائے شماری کی بات ہم نے نہیں بھارت نے کی تھی۔ نہرو نے سری نگر میں تقریر کی تھی کہ میں کشمیریوں کو حق خودارادیت دوں گا اس وقت یہ بھی تجویز تھی کہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی ٹرسٹی میں دے دیا جائے۔ مگر ہم نے نہیں مانا۔ اقوام متحدہ میں وہ قرارداد منظور ہوئی جو بھارت کے لیے قابل قبول تھی۔ جس کو ہم آج لے کر بیٹھے ہوئے ہیں جس کے کوئی معنی نہیں ہیں بتایئے رائے شماری کون کرائے گا؟

اب رہا سوال سعودی عرب کا، امریکا کا ان کا تعلق اب بھارت سے زیادہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں ایک اسلامی بلاک بنا تھا مگر عملاً اس کی کوئی حقیقت نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی اس کا کچھ اثر تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ سعودی عرب بھارت کا سب سے بڑا گاہک ہے اور اسرائیل کے ساتھ بھارت کے خصوصی تعلقات ہیں تو اب انڈیا، سعودی عرب۔ عرب امارات اور امریکا اب ایک بلاک کی صورت اختیار کر رہے ہیں۔ بنے گا نہیں بنے گا یہ بعد کی باتیں ہیں لیکن بہرحال اُن کے آپس کے مفادات تو ہیں۔ جب یہ طے ہوگیا کہ کشمیر بھارت اور پاکستا کا تنازع ہے تو دُنیا کو اس سے کیا لینا دینا؟ آپ دونوں مل بیٹھ کر اس تنازع کو طے کریں، امریکا بھی یہی کہتا ہے۔

ہم آپ کے لیے سہولت فراہم کرنے کو تیار ہیں۔ چین نے ہم سے کہا کہ آپ خود کو اقتصادی طورپر مضبوط کریں، ٹھیک کریں، جب آپ اقتصادی طور پر ٹھیک ہو جائو گے تو پانچ چھ سال تک کشمیر کے مسئلے کو اُٹھا کر رکھو، یہ گوریلا کارروائیاں بند کر دو۔ ملک کو اقتصادی طور پر بہتر بنائو تا کہ آپ کا سفارتی اثر و رسوخ دُنیا میں بڑھے۔ اسلامی دُنیا میں بھی اور غیرمسلم دُنیا میں بھی۔ آج مسلم دُنیا میں پاکستان ایک بھکاری کے طور پر ٹریٹ ہوتا ہے۔ ترکی ہمارا بہت اچھا دوست ہے لیکن ترکی کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اگر کچھ کہے گا تو جواب آئے گا تم کردوں کے ساتھ کیا کر رہے ہو وہ بھی مسلمان ہیں۔ ایران اگر بولے گا تو کہا جائے کہ شام میں کیا کر رہے ہو۔

لبنان میں کیا کررہے ہو؟ اسلامی ملکوں کا ریکارڈ کچھ بہتر نہیں ہے۔ بھارت تو صرف کشمیر میں ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے لیکن ہر دوسرے اسلامی ملک میں گزشتہ برسوں سے کیا ہو رہا ہے۔ پھر یہ بھی یاد رکھئے کہ بھارت کی تاریخ بتاتی ہے کہ اُس نے کبھی بیرونی اثر و رسوخ برداشت نہیں کیا نہ وہاں کی بیرونی سازش کامیاب ہوئی ہے۔ ہمارا اور بھارت کا مقابلہ ایک اور پانچ کا ہے۔ جب کہ چین اور بھارت کا تقابل ایک اور تیس یا پچیس کا ہے۔ چین دُنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ امریکا، چین کے ساتھ اُلجھنے کو تیار نہیں۔ وہ بھارت کو اس کے لیے تیار کر رہا ہے۔ مگر بھارت اور چین میں اقتصادی طور پر کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کو اپنی حکمت عملی نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگی۔

پاکستان کو چاہئے کہ وہ کشمیری کاز کو مستحکم کرے صرف کشمیری مسلمان نہیں کشمیری عوام۔ امریکی صدارتی اُمیدوار جو بائیڈن نے کہا کہ کشمیریوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے لیکن اُس نے یہ نہیں کہا کہ کشمیریوں کو آزادی ملنا چاہئے۔ ہمارے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ ہم کشمیری سرزمین کے لیے کام کریں، سپورٹ کریں اور دُوسرے ملکوں سے بھی کہیں کہ کشمیری سرزمین کا۔ کشمیری عوام کا حق بحال کرانے میں ساتھ دیں۔ ایک آزاد اور خودمختار کشمیر۔ پاکستان کو سوچنا چاہئے کہ یہ ہمارے لیے سودمند ہے یا نہیں۔ آپ سے آزاد کشمیر کوئی نہیں لے گا۔ ایک آزاد اور خودمختار کشمیر پاکستان سے زیادہ قریب ہے۔ کشمیر کے سارے دریا پاکستان کے کام آئیں۔ پاکستان، بھارت، چین اور روس کشمیری سرزمین کے اطراف میں ہیں اگر چین کشمیریوں کو سپورٹ کرنا شروع کر دے تو پاکستان کا مؤقف مزید مضبوط ہو جائے گا۔

مشعال ملک

کشمیری رہنما/اہلیہ یاسین ملک

پانچ اگست دو ہزار انیس کشمیر کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے،جب بھارت نے ایک منصوبے کے تحت کشمیریوں کی نسل کشی کا پلان بنا کر کشمیر کی خصوصی حیثیت آرٹیکل 35 اے اور 370 کا خاتمہ کیا۔

بھارتی حکومت نے جنگی جرائم میں ملوث اپنی فوج کی اضافی نفری کشمیر میں تعینات کی۔اور کشمیریوں کو گھروں میں قید کر دیا۔اور مقبوضہ کشمیر کو جیل میں بدل دیا۔کرفیو اور لاک ڈاؤن کے بعد بھارتی فورسز نے اپنے اگلے گھناؤنے منصوبے کے تحت کشمیریوں کو بھوک سے نڈھال کرنا شروع کر دیا۔بچے دودھ اور خوراک کو ترسنے لگے۔

لیکن کشمیریوں کے خون کی پیاسی بھارتی فوج یہاں تک محدود نہیں رہی بلکہ کشمیریوں کو گھروں میں گھس کر قتل کیا جانے لگا۔بھارتی فورسز کشمیری نوجوانوں کو گھروں سے اٹھا کر ٹارچر سیل منتقل کرنے لگی،اور تحریک آزادی کو دبانے کے لیے نوجوانوں پر وحشیانہ تشدد کرنے لگی۔نوجوانوں کے ناخن پلاس سے اکھاڑنے کے ساتھ ساتھ ان کے جسم کے نازک اعضاء کو بجلی کے کرنٹ دیے جاتے رہے۔کشمیریوں کی دشمن بھارتی فورسز جب ان سب ظلم وستم کے بعد بھی کشمیریوں کے دل و دماغ سے تحریک آزادی کا خوف ختم نہ کر سکی تو بھارتی فورسز نے کشمیریوں کے گھروں کو بارود سے اڑانا شروع کر دیا جو کہ اب تک جاری ہے۔

آرٹیکل 35 اے خاتمے کے بعد نریندر مودی حکومت نے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی روند ڈالا۔مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاوہ بھارت میں بھی بڑے پیمانے پر آرٹیکل 370 کے خاتمے میں لاک ڈاؤن کی مخالفت کی گئی۔بھارتی اقدامات پر کشمیر انٹرنیشنل میڈیا کی زینت ضرور بنا لیکن عالمی برداری نے بھارتی اقدامات اور مظالم کی روک تھام کے لیے کوئی خاص اقدامات نہ کیے۔اقوام متحدہ نے بھی ماسوائے تشویش کا اظہار کرنے کے بھارتی حکومت کو کشمیر میں مظالم روکوانے میں کوئی کردار ادا نہ کیا۔یوں بھارت بلا خوف کشمیریوں کا قتل عام کرنے لگا۔

لیکن پاکستانی قوم کی جانب سے آرٹیکل 370کے خاتمے کے بھارتی اقدام پر شدید غم و غصہ پایا گیا۔حکومت پاکستان نے بھی کشمیریوں کے ساتھ کھڑے رہنے کا واضح موقف اپنایا۔ایک منٹ کی خاموشی کر اختیار کر کے احتجاج بھی کیا جاتا رہا سفارتی کوشش بھی تیز کی گئی اور کشمیریوں کے حق میں سیمنار کا اہتمام بھی کیا گیا۔لیکن شہید ہونے والے کشمیریوں کی توقعات شائد اس سے بڑھ کر تھی۔ہم نے پاکستان کے نئے نقشے میں بھارتی زیر انتظام کشمیر کو اپنا حصہ ظاہر کرکے بھارت کو ایک کڑا پیغام تو دے دیا،مگر استصواب رائے والے مطالبے کا کیا ہوگا، کشمیری بھائی بہنوں کو کچھ تو بتائیں ان سے کوئی تو پوچھے. کوئی تو پوچھے کہ تہتر سال کی اس کشمکش کے بعد اب وہ چاہتے کیا ہیں؟

کشمیری آج بھی نا امید نہیں ہیں۔کشمیری آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ؎

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

فیض رحمٰن

کچھ عرصہ قبل جب ہم کانگریس میں یا کسی اور امریکی فورم پر کشمیر کاذکر کرتے اور دہایئوں سے جاری بھارتی مظالم پر احتجاج کرتے، تو اکثر کانگریس کے اراکین یا عام امریکی کی کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ کچھ نے تو یہ بھی کہا کہ انہوں نے تو کشمیر نام کے سویٹر کا سنا ہے، یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ کوئی جغرافیائی مقام بھی ہے اور پاکستان اور بھارت کی دشمنی کی اصل وجہ ۔ اب کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے اتنی وضاحت کی ضرورت نہیں پڑتی ۔

اس امر میں ہمارا اپنا کتنا حصہ ہے اور وزیراعظم مودی کی حماقتوں کا اور خود مغرب میں مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے اثر کا کتنا، آ ئیے جائزہ لیتے ہیں ۔ اس سلسلے میں پاکستانی سفارتکاری کتنی کامیاب رہی اس کا بھی سمجھنا ضروری ہے۔ پچھلے چھ سال سے مودی حکومت کے پے در پے مجرمانہ اور ظالمانہ اقدامات نے اب کشمیر کو عالمی سطح پر صف اول کے خطرناک مسائل کی صف میں لا کھڑا کیا ہے ۔کشمیری عوام پر بھارتی مظالم اور بربریت کے جو پہاڑ توڑے جارہے ہیں اب اسکا نمایاں تذکرہ مغربی میڈیا، خصوصاً امریکی ذرائع ابلاغ میں بہت تواتر کے ساتھ ہورہا ہے ۔

جس سے مغرب میں سیاسی اور عوامی سطح پر اس اہم مسئلہ پر وسیع پیمانے پر آگاہی پھیل رہی ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب میں امریکی کانگریس میں پاکستان کا کیس قائم کرنے کی کوشش میں مصروف تھا، ایک غیر معروف امریکی جریدے میں کافی کوشش کے بعد کشمیر پر شائع ہونے والے ایک مضمون کی فوٹو کاپی کرکے کانگریس اور تھنک ٹینکس میں بانٹتے پھرتے تھے ۔ لیکن بی جے پی اور ہندووتا کے مان نے والوں یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ مغربی میڈیا جو کہ اکثر مسلمانوں کے مسائل نظرانداز کیا کرتا تھا وہ کشمیر پر بھارت کو اور مودی حکومت کو اتنا آڑے ہاتھوں لے گا ۔

دنیا سکڑ چکی ہے، سوشل میڈیا اپنی جڑیں گہری اور وسیع کرتا جارہا ہے، اور اب وہ حالات نہیں کہ مغربی میڈیا میں مسلمان اور پاکستانی موجود نہیں ہیں ۔ پچھلے کئی برسوں میں ایک کوشش کے ساتھ مغربی میڈیا میں مسلمانوں نے اپنی جگہ بنائی ہے ۔ اسکے علاہ کئی بھارتی نژاد نوجوان صحافی اور لکھاری جو کہ خود نریندر مودی سے سخت نالاں ہیں اور ان کو بھارتی سیکولرازم کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہیں، وہ بھی کشمیر میں جاری مصائب کو نمایاں کرنے میں لگے ہیں اور دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوچکے ہیں کہ کشمیر ایک ایسا انسانی مسئلہ ہے جسے مزید نظرانداز کرکے ایک بہت خوفناک انسانی تباہی کا خطرہ مول لیا جا رہا ہے ۔پچھلے سال پانچ اگست سے پہلے اقوام عالم کو بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کا کوئی ادراک نہیں تھا ۔

وہ بات جسے ہم سمجھائے نہ تھکتے تھے بھارتی وزیر اعظم مودی نے اسے بیک جنبش قلم پوری دنیا کو آناً فاناً باور کرادیا ۔ لوک سبھا میں اپنی دو تہائی اکثریت کو استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے آرٹیکل 370 کو ختم تو کردیا لیکن زمینی حقائق کو تبدیل کرنے کی کوشش میں انہیں ناکامی ہوئی ۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ پوری کشمیر وادی ایک بڑی بے رحمانہ جیل میں تبدیل کردی گئی اور ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرجانے کے باوجود مظلوم کشمیری مسلسل حالت قید میں ہیں ۔ انٹرنیٹ کے بغیر زندہ نہ رہنے کی عادی دنیا کے لیے یہ ایک عجیب و غریب واقعہ ہے ، عالمی تجارتی کمپنیوں کو اس مطلق العنانہ رحجان پر تشویش ہے ۔ اگر یہ بات آگے بڑھی تو عالمی کامرس کا کیا ہوگا ۔ غرض یہ کہ اقوام عالم کو اب کشمیر مسئلے کے حوالے سے کئی تشویشناک امکانات کا سامنا ہے ۔

عالمی شعور پر مسئلہ کشمیر اور وہاں جاری مظالم کا عکس مذید گہرا کرنے میں مودی کے ایک اور تنگ نظر اور متعصبانہ فیصلے نے اور اہم کردار اد کیا۔ ٹھیک ایک سال بعد اس سال پانچ اگست کو بھارتی وزیر اعظم کا صرف اپنی تعظیم اور تقلید کرنے والوں کو خوش کرنے کے لیے تاریخی حقائق کو جھٹلاتے ہوئے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کے اقدام نے ایک بار پھر عالمی بالخصوص امریکی میڈیا میں ہلچل مچادی۔ دنیا کے نامی گرامی اخبارات، اور ٹی وی چینلز نے اس افسوسناک واقعہ کو بھارتی جمہوریت اور سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دیا۔

بھارتی مسلمانوں اور ہندووٗں کی کئی تنظیموں نے امریکی حکام سے اور سیاستدانوں سے اپنے اپنے احتجاج ریکارڈ کرائے ۔ یعنی آپ وزیراعظم مودی کی احمقانہ پالیسیوں کا اثر ملاحطہ فرمائیں کہ انہوں نے بابری مسجد اور رام مندر کے تنازع کو بھی کشمیر سے جوڑ دیا ۔ پانچ اگست کو بابری بسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا سنگ بنیاد رکھنے کا جہاں جہاں ذکر ہوا وہاں کشمیر مسئلے کو بھی پوری وضاحت سے بیان کیا گیا ۔ لہذا یہ کہنا بجا ہوگا کہ کشمیر مسئلہ پر جانکاری کی موجودہ جاری عالمی لہر میں مودی حکومت کی ناقص اور کم نظر پالیسیوں کا بہت بڑا حصہ ہے ۔ ہمیں ان بھارتی (ھندو، مسلمان، سکھ، مسیح) نژاد مغربی صحافیوں اور سول سوسائٹی کے کردار کو سراہنا ہوگا جنہوں نے اس سنگین انسانی مسئلہ کو اجاگر کرنے میں اپنی سطح پر اہم کردار ادا کیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانیوں کی قربانیاں کشمیر کے مسئلے کو زندہ رکھے ہوئے ہے ۔ پاکستان نے اپنے وسائل اور استعطاعت سے بڑھ کر کشمیریوں کی ہر فورم پرمدد کرنے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن دنیا کی اکثر حکومتیں اپنی مخصوص ساخت کے باعث نالائق ہوتی ہیں ۔ حکومتی نالائقی کے نتائج ان ممالک میں کم ہوتے ہیں جہاں مملکت کے دوسرے ادارے مظبوط ہوتے ہیں اور سیاستدانوں کی حماقتوں کے نقصان کو قدرے کم کرنے میں مدد دیتے ہیں ۔ ہمارے یہاں افسوس کہ ایسا نہیں ہے ۔

پاکستان نے شورمچایا ہے لیکں اس کے حل کے لیے مربوط بیانیہ تیار نہیں کیا ۔ ہمارا پرانا منترا کہ ہم اس مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی قراردوں پر چاہتے ہیں ، لیکن کئی کشمیری گروپس کا موقف ہے کہ اس نوعیت کے حل میں پاکستان سنجیدہ نہیں ۔ پاکستانی سفارت کاروں کی مغرب میں کشمیر پرخاص شنوائی نہیں، اکثر کشمیری گروپس ہمارے سفارتکاروں سے ناراض ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ سفارت کار چند افراد کے ساتھ ملنا جلنا پسند کرتے ہیں ۔ کچھ کو گلہ ہے کہ اقوام متحدہ میں اسے تمام سطحوں پر صحیح سے پیش نہیں کیا گیا اور اسے ابھی بھی اہم ایجنڈاوٗں میں شامل نہیں کیا جاسکا ہے۔ اور رہی سہی کسر نئے سرکاری سیاسی نقشے نے پوری کردی ۔

لوگ سر کھجا رہے ہیں اور اس ’’سرکاری سیاسی نقشے‘‘ کی معنویت سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ اب امریکی حلقوں سے بات چیت میں ہمیں کافی وضاحت کرنی پڑتی ہے کہ کشمیر متنازع ہے یا پاکستان کا حصہ؟ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اسکا فیصلہ کشمیری کریں گے یا آپکے وزیر اعظم نے یہ فیصلہ کرچھوڑا ہے ۔عوامل کچھ بھی ہوں۔ یہ طے ہے کہ بھارت کشمیر کھو چکا ہے، اس کی روح کو گنوا بیٹھا ہے، جغرافیائی قبضہ اس وقت تک رہے گا جب تک اس کے اپنے اعصاب جواب نہیں دیتے، لیکن یہ اگر مگر کا معاملہ نہیں رہا یہ صرف صحیح وقت کا سوال ہے۔

سردار نزاکت علی

رہنما ،پاکستان پیپلز پارٹی

اگست کے بعد ریاست جموں کشمیر کے اندر ظلم و ستم اور بربریت کا بازار گرم ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے- بی جے پی کی حکومت نے آرٹیکل 35اے اور 380ختم کرکے کشمیر کو تقسیم کرنے کی سازش کی اس میں پوری دنیا کے رہنے والے لوگوں نے کشمیریوں کے لیے آواز بلند کی پاکستان کے چاروں صوبوں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے لوگوں نے بھرپور آواز اٹھائی اور اپنی حکومت کو یہ مینڈیٹ دیا کہ پوری دنیا میں کشمیریوں کے لیے لابنگ کریں لیکن پاکستان کی حکومت مکمل طور پر ناکام ہوئی ہے۔

وزیراعظم پاکستان کی 27 اکتوبر کی تقریر کے بعد مجرمانہ خاموشی پر کشمیر کے لوگ سوال اٹھاتے ہیں جب ہندوستان کے اندر الیکشن ہو رہا تھا بی جے پی کے الیکشن منشور میں تھا کہ ہم کشمیر کے اسپیشل سٹیٹس کو ختم کریں گے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کا وزیر اعظم کہہ رہا تھا کہ مودی الیکشن جیتے گا تو مسئلہ کشمیر حل ہوگا جس طرح پاکستان کے لوگوں نے کشمیریوں کے لیے آواز اٹھائی اس پر پورے اہل کشمیر پاکستانی عوام کے شکر گزار ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ عوام کی کشمیر کے حوالے سے سوچ ایک طرف ہے اور حکومت کی سوچ ایک طرف ہے۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا پاکستان کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہوئی ہے، آج کشمیر کے لوگ سوال پوچھ رہے ہیں کہ اینٹ کا جواب پتھر سے کب دیں گے ؟کیا پاکستان کے موجودہ حکمران آخری کشمیری کے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں؟ بھارت پوری دنیا کو یہ باور کرانے میں مکمل طور پر کامیاب ہوا ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور کشمیر کی جو آزادی کی تحریک ہے وہ دراصل ایک دہشت گرد تحریک تھی، بدقسمتی سے ہمارے حکمران اپنا سچ پوری دنیا کو نہیں بتا سکے جب کہ ہندوستان نے اپنا جھوٹ بتاکر پوری دنیا میں لابنگ کرنے میں کامیاب ہوا ہے- پاکستان کے تمام الیکٹرونکس پرنٹ اور سوشل میڈیا نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے پاکستان کے اندر گڈ گورننس نام کی کوئی چیز نہیں ہے پاکستان کی موجودہ حکومت کے رویے کی وجہ سے کشمیر سمیت بہت سارے ایشیوز پر پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت تقسیم نظر آتی ہے، آج پاکستان کے اندر ایسی لیڈرشپ کی ضرورت ہے جس طرح ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم کشمیریوں کے لیے ہزار سال تک جنگ لڑیں گے جب محترمہ بینظیر بھٹو شہید وزیراعظم بننے کے بعد پہلی دفعہ مظفرآباد آئی تھیں تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا کہ جہاں کشمیریوں کا پسینہ گرے گا وہاں پاکستان والوں کا لہو بہے گا کشمیر والوں کو اس طرح کی کمنٹمنٹ والے حکمراں کی ضرورت ہے ماضی کی حکومتوں میں سرینگر-جموں سمیت پورے مقبوضہ کشمیر کی بات ہوتی تھی کہ ہم مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروائیں گے جبکہ موجودہ حکومت مظفرآباد کو بچانے کی بات کر رہی ہے پاکستان کے ہر مکاتب فکر کے لوگوں کو آگے آنا ہوگا اور اپنی حکومت کو یہ باور کرانا ہوگا کہ پاکستان کے لوگ کسی صورت تقسیم کشمیر کو قبول نہیں کریں گے اس کے علاوہ کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے اور کسی طرح کے بھی مذاکرات میں کشمیری قیادت کی شمولیت ناگزیر ہے مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی قیادت جس طرح پوری دنیا کو اپنا کیس پیش کر سکتے ہیں اس طرح پاکستان کے وزیر خارجہ نہیں کر سکتے لہذا کسی طرح کی بھی فیصلہ سازی میںپاکستان کی حکومت کو کشمیری قیادت کو شامل کرنا پڑے گا۔