عثمان بزدار اور شہزاد اکبر

September 17, 2020

شہزاد اکبر ہمیشہ داتا دربار، بابا فریدالدین گنج شکر اور دیگر مزارات پر جانے والا فرد ہے۔ اُن کی حاضری کا یہ عمل عام لوگوں کی طرح ہوتا تھا۔ ان کے آبائو اجداد کا روحانی تعلق سرخیلِ تصوف، پیر سید مہر علی شاہ گولڑہ شریف کی مقدس سرزمین سے ہے۔ شہزا داکبر بنیادی طور پر صوفیاء کے اُس قافلہ کا فرد ہے جوظاہر کے بجائے باطن پر زیادہ یقین کا قائل ہے۔ اسی لئے اُنہیں وفاقی مشیر احتساب (وزیر احتساب) اور وفاقی مشیر داخلہ (وزیر مملکت داخلہ) ہونے کے باوجود ٹی وی چینل پر بہت کم آنے کا شوق ہے۔ جب وہ ضروری سمجھیں پریس کانفرنس کرتے ہیں یا پھر محدود پیمانے پر ٹی وی چینلز کی اسکرین پر نمودار ہوتے ہیں۔ جمعرات کے روز جب لاہور آئے تو میں قیلولہ کر رہا تھا، مسلسل کالیں کرتے رہے لیکن مجھ سے رابطہ نہ ہو سکا، جب میں نے کال بیک کی تو کہنے لگے آپ کے ہمراہ داتا دربار حاضری دینا تھی، جب آپ کی کال آئی تو اُس وقت میں داتا حضور لنگر کی تقسیم میں مصروف تھا، صبح آپ خطبہ جمعہ اور مریدین سے ملاقاتوں سے فارغ ہو لیں، ہم سہ پہر میں گورنر ہائوس میں کافی پئیں گے، ملاقات میں مَیں نہ صرف اُن سے خوف ناک حیرت میں مبتلا کرنے والے انکشافات سنے بلکہ انہوں نے تمام تر ثبوتوں کے ساتھ دکھایا کہ یہ ہیں وہ وجوہات جس کی وجہ سے اب مجھے بار بار پنجاب آنا پڑے گا۔ ملاقات میں جب بیوروکریسی کی بات چل نکلی تو کہنے لگے اب جو چیخیں سننے کو مل رہی ہیں، یہ چیخیں اور بڑھیں گی، آنے والے دنوں میں حیران کن کیسوں کی ایف آئی آر درج ہونے جا رہی ہیں۔ پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں قبضہ مافیا کا گلا ہم قانونی طریقہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دبانے جا رہے ہیں کہ ان کی آنے والی نسلیں بھی شہریوں کو تنگ نہیں کریں گی اور کسی کی جائیداد پر کوئی قبضہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکے گا۔

جب وزیراعلیٰ پنجاب کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی تو کہنے لگے وہ بہت لگن اور جواں مردی کے صادق جذبوں کے ساتھ محنت کرنے والا فرد ہے، عثمان بزادر پہلا ایسا وزیراعلیٰ ہے جس کے اثاثے وزیراعلیٰ بننے کے بعد بڑھنے کے بجائے کم ہوئے ہیں، وہ وزیراعظم پاکستان کی مکمل ہدایت و سرپرستی میں چلنے والا آدمی ہے، جب تک اُسے وزیراعظم کی شفقت و حمایت حاصل ہے کوئی اُن کو وزیراعلیٰ کے منصب سے ہٹانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ عثمان بزدار کام، کام اور بس کام کے ایجنڈے پر یقین رکھتے ہیں اور سیدھے راستے کے مسافر ہیں۔ میڈیا کے بارے میںکہنے لگے کہ جب میڈیا کسی کی ذاتی باتوں کی غیرضروری تشہیر کرے گا تو پھر اُس کی اپنی ساکھ متاثر ہوگی۔ وزیراعلیٰ پنجاب کا ایک مختصر کلپ، جو اُسی دن وائرل ہوا تھا، کے بارے میں کہنے لگے، اب بتائیں یہ کیا ہے، میں نے جواب دیا صحافتی اخلاقیات کا جنازہ ہم خود نکال رہے ہیں، جب ہم یا کوئی فرد انٹرویو دیتا ہے تو پوچھا جاتا ہے کہ دیکھنا آپ کی طرف ہے یا کیمرہ کی طرف، بعض دفعہ یہ بھی ہمیں کہا جاتا ہے کہ آپ نے اس کیمرہ میں دیکھنا ہے اور رہی بات مائیک لگانے کی تو ہم خود ٹی وی اینکرز مائیک رائٹ لیفٹ لگانے کی ہدایات اِسی اسٹاف سے لیتے ہیں جس کا صرف لائٹ یا کیمرہ مین کی حد تک پروگرام میں کردار ہوتا ہے، میں نے اُن سے اتفاق کیا کہ ہم خود بعض دفعہ سیٹ پر لگی لائٹس کے بارے میں کہتے ہیں کہ لائٹ کی روشنی میری آنکھوں میں زیادہ پڑ رہی ہے اور مجھے سامنے اچھی طرح نظر نہیں آرہا تو اور پھر لائٹ کی سمت تبدیل کی جاتی ہے، اگر یہی باتیں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کہہ دیں تو سوشل میڈیا پر طوفانِ بدتمیزی کیوں؟ میں نے کہا ایک دفعہ اہم خاتون کا انٹرویو خود کرنے اسلام آباد گیا تو اُس طاقتور خاتون (حالیہ بھی طاقتور ہے) نے مجھے کہا کہ کیمرہ اس طرف لگوائیں کیونکہ اس طرف لگانے سے میرا چہرہ لمبا ہو جاتا ہے، ٹیم نے اس کی معصوم خواہش پوری کردی۔ اگر ایسا جناب بزدار نے کہا ہوتا تو سوشل میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لینا تھا۔ اب میں میڈیا سے سوال کرنے کی جسارت کروں گا کہ ان کے اوپر بھی کچھ اخلاقی ضابطےلاگو ہوتے ہیں یا نہیں، کیا یہ وڈیو کلپ وائرل کرنے والے عملہ کے خلاف ایکشن لیا جانا چاہئے یا نہیں اور کیا اس عملہ کے نام میڈیا پر نشر کئے جاتے ہیں یا نہیں۔ اگر ہم میڈیا والے اپنا قبلہ خود درست نہیں کریں گے تو مجھے بتائیں اور کون کرے گا؟ یہ ہیں وہ سوالات جن کے جوابات میڈیا کو دینے کی ضرورت ہے۔ صحافت صحیفہ سے ہے، صحافت مقدس پیشہ ہے لیکن صحافتی اصولوں کی پاسداری وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ کوئی فرد کسی بھی میدان میں ہو، اسے چاہئے خود اپنی اصلاح کرے۔ ہم دونوں نے اتفاق کیا کہ حکومت اور عثمان بزدار پر تنقید کرنا میڈیا کا حق ہے لیکن کردار کشی کونسی صحافت ہے؟ یہ ہیں وہ وجوہات جن کے جوابات درکار ہیں۔

کاش! ان موضوعات کے اوپر بھی تمام ٹی وی چینل کے اینکرز ایک دن یک زبان ہوکر صدائے احتجاج بلند کریں ورنہ پھر نہ کہنا نیشنل میڈیا کمزور ہورہا ہے اور لوگ اب ٹی وی پروگرام بہت کم دیکھتے ہیں، ہمیں اپنی صفوں میں چھپے ایسے لوگ تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو میڈیا کا چہرہ خراب کر رہے ہیں، ایمان دار آدمی کی باقی خوبیوں کے علاوہ ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ تنقید سننے والا ہوتا ہے۔ مکالمہ وقت کی ضرورت ہے۔ مکالمہ کی صدا ہر طرف سے بلند ہوتی نظر تو آتی ہے لیکن آغازِ مکالمہ کون کرے گا؟