کیسے کیسے بےبصیرت اور وحشی لوگ

September 18, 2020

وہ پاکستان جو ہزار مہینوں سے بہتر شب ِ قدر میں عالمی نقشے پر نمودار ہوا تھا، قانون شکنوں، ہوس پرستوں اور وَحشیوں کی سرزمین میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ لاہور،سیالکوٹ موٹروے کی لنک روڈ پر تین بچوں کی ماں کی عصمت دری کا جو دل دہلا دینے والا سانحہ پیش آیا ہے، اس نے ہماری سماجی حسیات، ہماری پولیس فورس اور ہمارے سیاسی نظام کا کھوکھلا پن پوری طرح آشکار کر دیا ہے۔ میں سوچتا رہا کہ اُس وقت آسماں سر پر کیوں نہیں گر پڑا اور زمین کیوں نہ پھٹ گئی کہ ہماری سیہ بختی کا خاتمہ ہو جاتا، مگر شاید ہمیں جاںکنی کے مزید مراحل سے گزرنا ہے۔

ہمارے ہاں درندگی کے ایسے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن کو قلم رقم کرتے ہوئے لرز اُٹھتا ہے۔ ماں جسے اسلام نے عزت و احترام کا بلند ترین مقام عطا کیا ہے، اُسے بیٹے بےدردی سے قتل کر دیتے اور عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔ سوتیلے باپ اپنی بیٹیوں کی عزتوں سے کھیل رہے ہیں۔ مردہ بچیوں کو ہوس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔کم سن بچے نفسانی خواہشات کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں اور وہ بڑی سنگ دلی سے قتل بھی کر دیے جاتے ہیں۔ ان کی لاشیں کوڑے کرکٹ سے مل رہی ہیں۔ گینگ ریپ کے واقعات روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں یہ انتہائی شرمناک صورتِ حال اِس لیے نشوونما پا رہی ہے کہ ذہنوں سے سزا کا خوف تقریباً نکل چکا ہے اور قانون موم کی ناک بن گیا ہے جسے طاقتور طبقے اور جتھے اپنے مفاد کے لیے اور اپنی ضرورت کے مطابق موڑتے رہتے ہیں۔ ہمارا سیاسی اور معاشی نظام، ہمارا عدالتی بندوبست، ہماری سول انتظامیہ اور ہماری پولیس فورس طاقت وروں، ستم گروں، پرلے درجے کے بدمعاشوں، ذخیرہ اندوزوں، گراں فروشوں اور اربوں کی سبسڈی لینے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن، ہیرا پھیری اور ملاوٹ جیسی معاشرتی خرابیاں ہماری رگ و پے میں سرایت کر چکی ہیں اور عام آدمی ناقابلِ برداشت مہنگائی، بےروزگاری اور شدید مایوسی کا شکار ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ریاست روز بروز اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوتی جا رہی ہے۔

بدترین قسم کی معاشرتی، نفسیاتی اور تہذیبی شکست و ریخت سے بچاؤ کا سب سے محفوظ راستہ یہی ہے کہ ہم اس انقلاب کا گہری نظر سے جائزہ لیں جو دنیا کے سب سے بڑے لیڈر حضرت محمد ﷺ نے پندرہ سو سال پہلے جزیرۃ العرب میں برپا کیا تھا اور وَحشیوں کو اعلیٰ درجے کے انسانوں میں بدل دِیا تھا۔ اِس انقلاب کی بنیاد رُوحانی اور اخلاقی بلندی اور نہایت متوازن معاشی، معاشرتی اور سیاسی نظام پر رکھی گئی تھی اور نفس کے فطری تقاضوں کو بھی غیرمعمولی اہمیت دی گئی تھی۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان لانے کا باربار ذِکر آتا ہے۔ اللہ کی ذات کے بارے میں یہ اعلیٰ تصور دیا گیا ہے کہ وہ دیکھتا، سنتا اور دِلوں کے بھید بھی جانتا ہے۔ آخرت کا یہ تصور اُبھارا گیا ہے کہ اُس روز ہر شخص کو اپنے ہر عمل کا جواب دینا اور جزا و سزا کے مراحل سے گزرنا ہو گا۔ اِن عقائد سے ایک مسلمان کی زندگی میں جوابدہی کا احساس کارفرما رہتا ہے۔ اِسی طرح اسلام نے جنسی آسودگی کیلئے شادی کے ادارے کو کلیدی اہمیت دی ہے اور نکاح کو سہل بنایا ہے۔ پھر خاندان کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست اور معاشرے پر عائد کی ہے۔ انہیں اِس امر کا پابند کیا ہے کہ سفلی جذبات کو بھڑکانے والے مظاہر اور عوامل کی پوری طرح روک تھام کی جائے، چنانچہ زنا یعنی ریپ کی سزا اِنتہائی سخت سنگ باری رکھی گئی ہے۔

سخت سزاؤں کے اعلان سے پہلے اسلام نے انسان کے معاشی، معاشرتی اور نفسانی تقاضے پورا کرنے کا خاص اہتمام کیا ہے۔ عہدِ نبویؐ اور خلافتِ راشدہ میں زبردستوں اور زیردستوں کے لیے ایک ہی قانون تھا اور عدالتیں پوری طرح بااختیار، غیرجانب دار اور اِسلامی شعائر کی پابند تھیں۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ نے قانون کے حوالے سے فرمایا تھا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ ؅بھی چوری کی مرتکب ہوتی، تو اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیا جاتا۔ اِسی طرح خلفائے راشدین  کے زمانے میں ایک یہودی نے خلیفۂ وقت کے خلاف عدالت میں شکایت دائر کی۔ خلیفہ عدالت میں طلب کر لیے گئے۔ وہ اپنے حق میں شہادت نہ لاسکے، تو معزز قاضی نے اُن کے خلاف فیصلہ سنا دیا۔ اسلامی سزاؤں پر بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں، انہیں پاکستان کے چیف جسٹس اے آر کارنیلئیس کی وہ تقریر یاد دِلانا ضروری ہے جو اُنہوں نے بین الاقوامی جیورسٹ کانفرنس میں کی تھی جو آسٹریلیا میں منعقد ہوئی تھی۔ وہ مذہباً عیسائی تھے اور اُنہوں نے مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ معاشروں میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے اسلامی سزاؤں کا نفاذ ازبس ضروری ہے۔

چودھری شجاعت حسین نے وزیرِاعظم عمران خان کو پپو کیس کا وہ تاریخی وقوعہ یاد دِلایا ہے جو جنرل ضیاء الحق کے عہد میں پیش آیا تھا۔جس میں پپو نامی بچے سے زیادتی کے مجرم کو چوبرجی چوک میں سرِعام پھانسی دی گئی تھی اور اُس کی لاش کئی روز تک کھمبے سے لٹکی رہی تھی۔ اِس عبرت ناک منظر کے بعد سالہا سال تک ریپ کا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا۔ وہ مجرم جو خواتین کی عزتوں سے کھیلتے ہیں، انسانی حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اجتماعی عصمت دری کے واقعات روکنے کے لیے ایک ہمہ پہلو حکمت ِ عملی اختیار کرنا ہو گی۔ خواتین کے بارے میں تہذیب ناآشنا مردوں کا مائنڈ سیٹ بدلنا، پولیس کے پورے نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانا، خواتین سے پوچھ گچھ کے لیے خواتین عملے کا تقرر کرنا اور ظلم رسیدہ عورتوں کی سماجی اور نفسیاتی بحالی اور اُن کی شناخت چھپائے رکھنے کے لیے ایک علیحدہ شعبہ قائم کرنا ضروری ہے۔ اِس کے علاوہ کردار سازی کا اہتمام اسکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں کی سطح تک ہونا چاہیے۔ پنجاب کی پولیس فورس کی قیادت کی اعلیٰ کارکردگی کا پول جناب سینیٹر مشاہد اللہ خاں اور پولیس کے نہایت دیانت دار پولیس افسر جناب ذوالفقار چیمہ نے کھول دیا ہے ۔