ملازمت یا حجاب؟ سنگاپور میں نئی بحث

September 21, 2020


سنگاپور میں مسلمان خواتین کے لیے اپنی ملازمت کے دوران حجاب پہننے کے معاملے سے متعلق نئی بحث توجہ کا مرکز بن گئی۔

سنگاپور میں مسلم خواتین کئی مقامات پر اپنی مرضی کے مطابق حجاب پہن کر پردے کا خاص خیال رکھ سکتی ہیں، تاہم کئی ایسی ملازمتیں ہیں جو خواتین کو حجاب اور اسکارف پہننے سے روکتی ہیں۔

اسکارف اتار کر کام کرنے والی ایک ایسی ہی خاتون فرح بھی ہیں جو سرکاری اسپتال میں اپنے دن کا آغاز کرتے ہوئے اپنے حجاب کو لازمی اتارتی ہیں۔

فرح اپنی نوجوانی سے ہی اسلامی تعلیمات کے عین مطابق اسکارف کا استعمال کرتی آرہی ہیں، وہ اس ملک کے 40 لاکھ عوام کی 15 فیصد مسلم آبادی کا حصہ ہیں جو سنگاپور کے ہر مقام پر حجاب پر پابندی کے خاتمے کا مطالبہ کر رہی ہے۔

چینی ٹیبلائیڈ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق فرح نے سرکاری ملازمت کے لیے اپنے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب وہ ملازمت کے لیے گئیں تو ان سے یہ کہا گیا کہ ’اگر آپ یہ حجاب پہنیں گی تو پھر یہاں کام نہیں کر سکتیں۔‘

سرکاری اسپتال میں فزیوتھراپسٹ فرح کہتی ہیں کہ ’ان الفاظ کے بعد میں نے خود کو بےبس پایا، یہ واقعی ناانصافی تھی، آخر کیوں یہ حجاب ہمارے لیے ملازمتوں کے حصول کے آڑے لائی جاتی ہے؟‘

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انھوں نے مجبوراً ملازمت اختیار کرلی اور اپنے کام کے دوران انھیں یہ اسکارف اتارنا پڑتا ہے۔

حال ہی میں سنگاپور میں ایک احتجاج سامنے آیا تھا جب ایک خاتون کو ڈپارٹمنٹل اسٹور میں بطور پروموٹر کام کرنے کے دوران حجاب اتارنے کا حکم دیا گیا۔

سنگاپور کی پہلی خاتون صدر حلیمہ یعقوب جو خود بھی اسکارف و حجاب پہنتی ہیں، جب ان سے مسلمان خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک سے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں کہا کہ ’یہاں مسلم خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کی کوئی جگہ نہیں۔‘

احتجاج کے بعد ڈپارٹمنٹل اسٹور نے تو اس مسلمان خاتون سے متعلق اپنی پالیسی کو تبدیل کرلیا، تاہم کئی مسلمانوں نے سوشل میڈیا پر متعلقہ اداروں کو مسلم خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک سے متعلق آگاہ کیا جن میں پولیس اور نرسنگ کا شعبہ شامل ہے۔

واضح رہے کہ کثیرالقومی اور کثیرالثقافت پسِ منظر رکھنے والے سنگاپور میں مسلم خواتین کے حجاب پہننے سے متعلق بحث کوئی نئی نہیں۔

مشرقی ایشیائی ریاست کے محکمہ پولیس اور صحت کی جانب سے اس موضوع سے متعلق کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔

سنگاپور کی صدر نے ڈپارٹمنٹل اسٹور کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ کام کی جگہ پر امتیازی سلوک پریشان کن ہے کیونکہ یہ کسی کو اپنی روزی کمانے سے محروم رکھتا ہے۔

اپنے فیس بک پیغام میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ملازمت پر رکھنے کے لیے صرف لوگوں کی صلاحیتوں کا تعین کیا جانا چاہیے اور کچھ نہیں۔