دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

October 11, 2020

ذہن سب کے الجھے ہوئے ہیں۔

راستے سے سب بھٹکے ہوئے ہیں۔

تجربہ کہہ رہا ہے ۔ تاریخ کا پہیہ آگے ہی بڑھتا ہے۔ اسے پیچھے دھکیلا نہیں جاسکتا۔ ذہن اس لیے الجھائے جارہے ہیں کہ تاریخ کے پہیے کو پیچھے دھکیلنے والے اپنی اپنی بات منوانا چاہتے ہیں۔ خفیہ ہاتھ اب بھی حرکت میں ہیں۔ کچھ توسیع پسند ہیں کچھ توسیع کے خلاف ۔

آزمائش سب کی ہے۔ اپوزیشن کی بھی۔ حکمرانوں کی بھی۔ اور اداروں کی بھی۔ آئین تو دانتوں میں انگلی دبائے محض دیکھ رہا ہے۔ از خود تو وہ کچھ نہیں کرسکتا۔ پارلیمنٹ۔ سپریم کورٹ۔ آئین کا نفاذ کرتے ہیں۔ ان کی تو بات مانی ہی نہیں جارہی ہے۔ حکومت گرانے کے مشاغل تو پہلے بھی اختیار کیے گئے۔ ایڈہاک ازم کا کھیل پہلے بھی کھیلا گیا۔ حکومت گرانے سے وقتی طور پر فائدہ تو ہوتا ہے مگر کس کو۔ جسے حکومت ملتی ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کو تسلیم بھی کرلیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم ادارے کے خلاف نہیں۔ چند طالع آزمائوں کے خلاف تھے۔

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

ہم تذبذب کے دور Age of Confusion سے گزر رہے ہیں ۔یہ تذبذب حقیقی ہے یا پیدا کیا گیا ہے۔ بزرگ کہتے تھے۔

توچہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشد

تجھے کیا پتہ اس گرد کے پیچھے سے کوئی سوار نکل آئے ۔ مگر آج کے دَور میں۔

کوئی علم نہ کوئی شہسوار ملتا ہے

پسِ غبار بھی اب تو غبار ملتا ہے

یہ حکومت بھی عوام کی راحت کے لیے کچھ نہیں کرسکی ہے۔ کوئی تبدیلی نہیں لاسکی۔ مگر عوام خوف زدہ ہیں کہ اس حکومت کا متبادل اگر وہی ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اس ملک پر حکمرانی کرتے رہے ہیں ۔ جن کی املاک۔ میراث ۔بینک بیلنس بڑھتے گئے۔ جو خود امیر سے امیر تر ہوتے گئے۔ ملک غریب سے غریب تر ہوتا گیا۔ کیا پھر وہی باریاں لینے کو آجائیں گے۔ ان میں سے کوئی بھی اپنی لوٹ مار پر معافی مانگنے کو تیار نہیں ہے۔ کوئی بھی اپنی غلط پالیسیوں کا اعتراف کرکے یہ نہیں بتارہا کہ وہ آئندہ عوام کی بہتری۔ ملک کی خوشحالی کے لیے کوئی طویل المیعاد یا مختصر مدت کا کوئی اقتصادی۔ سماجی۔ عمرانی۔ پروگرام لے کر آرہے ہیں۔

ہمارے بہت سے احباب۔ دردمند پاکستانی چاہے پنجاب میں ہوں جنوبی یا شمالی میں۔ سندھ کے شہروں میں ہوں یا دیہات میں۔ کے پی کے میں بلوچستان میں۔ کسی بھی لسانی نسلی گروہ یا فرقے سے۔ وہ سخت تشویش میں ہیں۔ کچھ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پاکستان کو عراق۔ شام۔ لیبیا بنانے کی سازشیں ہیں۔ بعض کے دل سقوط بغداد کے ہولناک مناظر دہلارہے ہیں۔ بغداد اسلام آباد بنے گا یا کراچی۔ امریکہ برطانیہ پاکستان میں صورت حال میں ابال رکھنا چاہتے ہیں۔ انڈیا بھی اپنے خفیہ ایجنٹوں کو سرگرم کررہا ہے۔

مجھے تشویش نہیں ہے۔ میں 1950 کی دہائی سے یہ شورشیں۔ یہ شعلہ نوائیاں دیکھتا آرہا ہوں۔ محترم شخصیتوں اور ریاستی اداروں کے خلاف اس سے زیادہ ہرزہ سرائی ہوتی رہی ہے لیکن ان دنوں ٹی وی ریڈیو ریاست کے ماتحت ہوتے تھے۔ اخبارات محتاط تھے۔ سوشل میڈیا نہیں تھا۔ اس لیے یہ بے سروپا گفتگو وائرل نہیں ہوتی تھی۔ اب ٹیکنالوجی ہمیں استعمال کررہی ہے یا ہم اس کے ہاتھوں استعمال ہونا چاہتے ہیں۔ وقتی طور پر لگتا ہے کہ یہ لہریں دریائوں میں طغیانی لے آئیں گی۔ منظم اور مستحکم اداروں میں بھی خلفشار پیدا ہوجائے گا۔ ایسا ہوگا نہیں۔ پہلے بھارت روس کے ساتھ مل کر ہمارے ہاں بحران پیدا کرتا تھا۔ اب وہ امریکہ کا چہیتا ہے۔ امریکہ بھی ہمارے ہاں انتشار کا خواہاں ہے۔ لیکن ہماری 60فیصد نوجوان آبادی نے جیسے کورونا کو پھیلنے نہیں دیا۔ اس طرح تاریخ کے پہیے کو بھی پیچھے نہیں جانے دے گی۔

کہا جارہا ہے کہ پنجاب پہلی بار جاگا ہے۔ ورنہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیتا رہا ہے۔ کیا پنجاب واقعی جاگ اٹھا ہے۔ کیا پنجاب مضبوط مرکز۔ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کے نظریات سے دستبردار ہوچکا ہے۔ کیا پنجاب چھوٹے صوبوں پر غلبے کے خمار سے باہر نکل رہا ہے۔ کیا اس نے مصلحت کی چادر اتار دی ہے۔ کیا اب اس کی بکل میں چور نہیں ہے۔ ہر چند کہ اقبال نے کہا تھا۔

تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا

ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد

تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگادے

یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد

پنجاب دریائوں کی ۔ عشاق کی صوفیائے کرام کی سرزمین ہے۔ صدیوں سے یہ جبر۔ استبداد اور سازشوں کی مزاحمت کرتا آرہا ہے۔ پہلے بھی پاکستان کی سا لمیت کی جنگیں پنجاب میں ہی لڑی گئی ہیں۔ ساری دنیا بدل گئی ہے پنجاب بھی بدل گیا ہے۔ مگر تاریخ کا پہیہ وہاں بھی پیچھے نہیں دھکیلا جاسکتا۔ تاریخ کہہ رہی ہے کہ حکومت گرانے میں وہی اتحاد کامیاب رہے ہیں جن میں جماعت اسلامی شامل رہی ہے۔

عمران حکومت معاملات سے نمٹنے میں بہت کمزور رہی ہے۔ تذبذب کا شکار ہے۔ جتنے ترجمان ہیں اتنا ذہنی انتشار برپا ہوتا ہے۔ بین الاقوامی ادارے بھی پاکستان میں یہ خلفشار برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ دہشت گردی کے خلاف قربانیاں دینے ،قابو پانے کے باوجود پاکستان ابھی تک ممنوعہ فہرست میں کیوں ہے۔ بھارت کے دلائل کیوں تسلیم کیے جاتے ہیں۔ کشمیر میں مظالم اور جبر پر اقوام عالم کیوں خاموش رہتی ہیں۔ چین سے دوستی کی سزا کیوں دی جارہی ہے۔

خالص جمہوریت۔ حقیقی آئینی ماحول کی اگر سچی آرزو ہے تو قومی سیاسی پارٹیاں پہلے اپنے اندر جمہوریت کیوں نہیں لارہی ہیں۔ بادشاہت رویوں پر کیوں غالب ہے۔ شہزادے شہزادیاں۔ وفادار سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں پر سبقت کیوں لے جاتی ہیں۔ آئین سے ماورا اختیارات کیوں استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر سیاستدان بھی آئینی دائرے میں رہیں تو اداروں کو بھی آئینی دائروں میں محدود رکھا جاسکتا ہے۔ پاکستان کا ہر خیر خواہ یہ چاہتا ہے کہ ملک میں حقیقی جمہوریت ہو۔ سب ادارے اپنا اپنا کام کریں۔ فوج اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پوری کرے لیکن یہ جلسے جلوسوں تند و تیز بیانات سے نہیں۔ منظم ’سیاسی‘ حکمت عملی سے ممکن ہے۔