’’ساون‘‘ اردو شاعری کا رومانوی موضوع

October 14, 2020

ڈاکٹر اظہار احمد

ہر موسم اپنا الگ الگ حسن رکھتا ہے ۔یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ ہر لحظہ تبدیلی کی خواہش مند رہتی ہے ۔زیادہ دیر تک موجود رہنے والی چیزوں سے انسان جلد بیزار اور اُکتا جاتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے رنگا رنگ موسم پیدا کیے ،تا کہ انسان کے ذوق اور فطرت کے تغیر کی تسکین ہو سکے۔ان ہی رنگا رنگ اور خوبصورت موسموں میں ایک برسات کا موسم بھی ہے۔ جب شدید گرمی کے کی وجہ سے انسان کی طبیعت بوجھل ہوجاتی ہے تو ایسے میں برسات کا موسم اور ساون کی گھٹائیں کسی نعمت سے کم نہیں ہوتیں۔

بارش کی بوچھاڑ ذہن پر چھائی مایوسی کو دھو دیتی ہے، باغوں میں جھولے ڈالے جاتے ہیں۔آموں سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے اور مختلف اقسام کے پکوان پکتے ہیں۔ برسات کا موسم جہاں، ماحول اور عام انسان کے مزاج کو متاثر کرتا ہے، وہیں شعراءبھی اثر انداز ہوتےہیں۔

اردو ادب کی قدیم روایت سے ہی ہر شاعرساون یا برسات کا استعارہ اظہار ذات کے لیے نہایت خوبصورت پیرائے میں استعمال کرتا آیا ہے،کسی کے لیے غم، کسی کے لیے جدائی،کسی کے لیے وصال،کسی کے لیے مایوسی،کسی کے لیے آنسو،کسی کے لیے ہنسی کی پھوار اور کسی کے ہاں محبوب کی زلفوں کی گھٹاؤں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔جب عام زندگی میں برسات کی اتنی اہمیت ہے تو شاعری میں کیوں نہیں استعارہ بنے ۔ ایران میں بھی برسات کو ’’برشگال‘‘کے نام سے شاعری میں استعمال کیا گیا ہے لیکن ہمارے ہاں بطور استعارہ سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ہمارے رومانوی شعرا ءکے ہاں اس کا بہت ذکر ہے ،پروین شاکر نے کچھ اس طرح اظہار کیا۔

یہ احتجاج بجا ہے کہ تیز تھی بارش

یہ ماننا ہے کہ کچا تھا اپنے شہر کا رنگ

پرانے شعراء جن میں نظیر اکبر آبادی اور دیگرشعراء نے برسات پر بہت کچھ لکھا۔

در حقیقت موسم انسانی جذبات میں جومحسوس یا غیر محسوس تبدیلی کی وجہ بنتا ہے، شاعری اسی تبدیلی سے تحریک حاصل کرتی ہے اور یوں اس تعلق کا رشتہ زمین سے کائنات تک جڑتا چلا جاتا ہے۔ یہ تعلق موسم بہار کے خوشبوؤں بھرے لمحات میں بھی مضبوط ہوتا ہے اور پت جھڑ کی اداس رُتوں میں بھی،یہ گرما کی اونگھتی ہوئی دوپہروں سے بھی تصویریں بنانے کا ہنر سیکھتا ہے اور سرما کی طویل سرد راتوں میں بھی ہجر و وصل کے گیت بنتا ہے، یہی تعلق برسات کے موسم میں جھولوں پر جھولنا بھی سکھاتا ہے اور سکھیوں کے ساتھ گل بینی کے لیے انگلی پکڑ کر باغوں کی سیر کراتا ہے۔

انسان کی فطرت سے یہ دوستی تخلیق کرنے کے سارے حوالوں میں اپنی اثر پذیری سے رنگ بھرتی ہے۔برسات میں جب مون سون کی ہوائیں بادلوں کی چھاگلوں کو پانی سے بھر کر جب یہاں وہاں چھڑکتی پھرتی ہیں توآسمان پر جیسے میلے لگ جاتے ہیں ۔یہی میلہ ،یہی جشن جب کالی گھٹائیں دن کی روشنی کو شام کے چھٹنے میں بدل دیتی ہیں تو دلوں کی دنیا میں عجیب ہل چل سی مچ جاتی ہے پھر کہیں سے کوئی دل شاعر پکار اٹھتا ہے ۔

باغوں میں پڑے جھولے

تم بھول گئے ہم کو

ہم تم کو نہیں بھولے (چراغ حسن حسرت)

موسموں کے حوالے عالمی زبانوں میں بھی بہت نمایاں ہیں۔موسمی ہواؤں کو علامتی سطح پربھی اور استعاراتی ڈھانچے میں خوب استعمال کیاگیا ہے۔ انگریزی شاعری اخصوصاًجاپانی شاعری میں سارے موسموں کے ذائقے موجود ہیں۔ خواہ مضامین عشق کے ہوں یا دوسرے انسانی رویوں کے،برسات نے کسی کو مایوس نہیں کیا ،در اصل کسی بھی خطے میں وہاں کے سماجی حالات و واقعات ،رسم و رواج اور موسم مزاج پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ایسے میں تخلیق کار کا اس سے متاثر ہونا اور اس کے اثر کو قبول کرنا فطری عمل ہے ۔

شعراءآسمان پر چھانے والے بادلوں کو کبھی تو نیل فام پریاں کہتے اور کبھی محبوب کی سیاہ زلفوں سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ یہ موسم شاعری میں ایک رومانوی موضوع کی صورت میں داخل ہوا۔ اختر شیرانی سے لے کر عصر حاضر کے نامور شاعروںنے بھی اسی موضوع کو اپنی شاعری میں رومانوی انداز میں پیش کیا ۔اختر شیرانی کا یہ بند ملاحظہ کریں:؂

گھٹاؤں کی نیل فام پریاں

افق پر دھومیں مچا رہی ہیں

ہواؤں کو گد گدا رہی ہیں

فضائیں موتی لٹا رہی ہیں

چوں کہ شاعری حالات اور خیالات کے زیر اثر پیدا ہونے والے جذبات و احساسات کا نام ہے ،جس کو شاعر علامات ،اشارات ،تشبیہات اور استعارات میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔ مختلف تشبیہات اور استعارے جغرافیائی حالات اور تہذیبی اثرات سے تشکیل پاتے ہیں ۔برسات کا موسم کڑی دھوپ اور تمازت میں یوں بھی ایک خیر کی خبر لاتا ہے۔ اَبر سے سیراب ہو کر ہی سبزہ وگل ایک شاداب فضا کو ہموار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آزادؔ کی نظم ’’ابرِ کرم‘‘ کا یہ شعر ملاحظہ کریں:

ساون کے گیت اٹھا رہے طوفاں دلوں میں ہیں

پردیسیوں کی یاد سے ارماں دلوں میں ہیں

قدیم شعراء میں جوش ؔ کے ہاں بھی منظر نگاری کے کئی نمونے برسات کے حوالے سے ملتے ہیں ۔برسات استعارے کی حیثیت سے قدرتی منظر نگاری کے کام تو آئی لیکن ساتھ ہی اپنی معنی آفرینی میں اس کی وسعت فزوں تر ہوتی چلی گئی۔ موجودہ دور کے اردو شعرا ءنے اپنے اپنے کمالِ تخیل کے زور پر ہزار پہلوؤں سے پیش کیا،ہجر کی کیفیت میں غم اُمڈ تے ہوئے بادلوں کو ،آنسوؤں کی جھڑی کو، پیڑوں کی سبز بختی کو،محبوب کی آرزو وصل کی تڑپ کو، زمین کی تشنگی اور سیرابی کو،محبت و التفات کے تسلسل سے میسر آنے کو اور حالات کی ستم ظریفی و کم نصیبی کے اظہار کو ،غرض کہ اشعار میں الگ الگ طرح کی معنی آفرینی کا ایک جہاں تازہ ہے جو شعرا ءنے برسات کے حوالے سے پیش کیا ۔

ہر زبان و ادب کے استعارے تہذیبی اور زمینی لحاظ سے الگ ہیں۔ فارسی ادب میں بہار و گلستان کو فوقیت حاصل رہی ہےاور اسی بہار کے استعارے نے شاعری میں کئی حوالوں سے جگہ بنائی ۔اسی طرح انگریزی ادب میں ’نیچر‘ کی شاعری جہاں جہاں بھی کی گئی اس میں بارش کو منظر نگاری کے لیے استعمال کیا گیا ،یہ الگ بات ہے کہ برسات کو مغربی شاعری یا دوسری زبانوں کی شاعری میں الگ انداز اور الگ معنی سے پیش کیا گیا ۔

قدرتی منظر نگاری میں بہر حال ہر ایک نے اہمیت دی ۔ کبھی کبھار باہر کا موسم اندر کے موسم پر اثر اندازہونے لگتا ہے لیکن ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے کیوں کہ بہر حال ہماری ذات کے اندر کا موسم بہت مضبوط ہوتا ہے۔عزیز اعجاز نے کہا تھا:

جیسا موڈ ہو ویسا موسم ہوتا ہے

موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے

جہاں تک سوال بارشوں کے موسم پر شاعری کرنے کا ہے تو بارشیں فطرت کی شاعری کانام ہے۔ ان کی ہر بوند ایک مکمل شعر ہے اور شاعر کا اس موسم سے متاثر ہونا فطری عمل ہے۔ساون میں تبدیلی کے کئی رنگ نظر آتے ہیں۔مثلاً کہیں موسلا دھار بارش ہے تو کہیں پھوارہے، کہیں رم جھم تو کہیں کن من بوندوں کی برسات۔یہ سب چیزیں انسان کی طبیعت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

شاعر تو ویسے بھی حساس ہوتے ہیں، اسی لیے باہر کا موسم اچھا ہو تو اندر کا موسم بھی بے حد شگفتہ ہو جاتا ہے۔کوئل کی کوک،پرندوں کی چہچہاہٹ اور بارش کا جل ترنگ طبیعت پر کیسے اثر انداز نہیں ہو گا۔یہی وجہ ہے کہ اسے بطور استعارہ شاعر اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہیں۔ برسات رجائیت اور حزن و ملال کے دونوں پہلو رکھتی ہے۔شاعری میں ہجر کی کیفیت اور حزن و ملال کے رویوں اور استعاروں کوبھی نمایاں کرتی ہے۔