چیلنج ہوشربا ہے مگر۔۔۔

October 15, 2020

قومی مفاد یا عوامی خدمت کا نعرہ انسانی تاریخ کے ہر دور میں بےدردی سے استعمال ہوا ہے اور 98فیصد مواقع پر اِس نعرے کے ذریعے بدترین استحصال ہوا ہے۔ جو جتنا بڑا فراڈیا ہوتا ہے اتنے ہی بلند بانگ نعرے لگاتا اورلچھے دار تقاریر کرتا دکھائی دیتا ہے، بس پہچاننے والی نظر ہونی چاہئے۔ ایسے مداری، ڈرامے باز کی اصلیت کو پہچاننا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ درویش نے ایسے بہروپیوں کو پہچاننے میں کبھی زیادہ دیر نہیں لگائی، البتہ مشکل ہمیشہ یہ پیش آئی کہ اپنے ہم نفسوں تک یہ آگہی کیسے پہنچائی جائے، عمومی و عوامی ذہن کی تطہیر کیسے کی جائے۔ بارہا یہ سوچ دریچۂ ذہن میں نمودار ہوتی ہے کہ ہٹلر جب اپنی قوم کو بےوقوف بنا رہا تھا تو جرمن اُس کی اصلیت کو کیوں سمجھ یا پرکھ نہیں پا رہے تھے؟ وہ اُس کے دھوکے میں کیوں آ رہے تھے۔ پھر نئی سوچ اُبھرتی ہے کہ جرمنوں کو مطعون کیوں کروں۔ مسلمانانِ جنوبی ایشیا کے ساتھ جب جب نوسربازیاں ہوئی ہیں، اُن دردناک مواقع پر عوامی ہجوم کی اندھی جذباتیت کہاں سے کہاں تک پہنچائی جا چکی تھی، اُس کو کیا کوسیں ایسے تمام مواقع پر ہماری قومی دانش اور ذمہ دار میڈیا کہاں تھا، تب عقل و دانش کہاں گھاس چرنے چلے جاتے ہیں؟ اِس کسوٹی پر پرکھنے کا ایک پیمانہ ضرور ہے، قیادت کا کوئی بھی دعویدار، جتنی لمبی لمبی چھوڑے، بڑھ چڑھ کر سبز باغ دکھائے سمجھ جائیں، یہ رانگ نمبر ہے، قیادت کا بھوکا ہے، شیطانی ذہن کی ایک نشانی اور بھی ہے، ہر فراڈیا خود نمائی و خود ستائی کے تحت اپنی شخصیت کے خول میں بری طرح گرفتار ہوتا ہے، اپنی ذات کے عشق میں مرا ہوا، پارسائی و حب الوطنی کے دعوے کرتا قوم کو ہمیشہ یہ جتلائے گا کہ آپ کی تقدیر بدل دینے والا مسیحا آ گیا ہے۔ خود کو ایک ایسی ماورائی ہستی کے طور پر پیش کرے گا جس پر تنقیدی نظر ڈالنا گویا گناہِ کبیرہ سے کم نہیں، جس کا سزاوار راندہ درگاہ ہوگا۔ ہمارے ایک حضرت فرمایا کرتے تھے کہ ہر ڈرامے باز کو اُس کے حصہ بقدرجثہ احمق یا بےوقوف ہی مل جاتے ہیں اور اِس دنیا کی رعنائیاں اُن احمقوں کی برکات میں رنگینیاں بھر رہی ہیں ورنہ اگر سارے ارسطو و افلاطون ہوتے تو ویرانے یا دیوانے کہاں جاتے۔ گنہگار آنکھوں نے بچپن میں مداری گیری کو قریب سے دیکھا ہے جس سے تھڑے والوں نے ویسی ہی امیدیں باندھ لیں جیسی حالیہ برسوں باندھی گئی ہیں اور پھر چند برسوں میں ایسا سواد چکھا جیسا اب کے چکھا جا رہا ہے، گویا دن میں تارے نظر آ گئے۔

عوام کالانعام جو پہلے محبتوں میں گلے پھاڑ رہے تھے اب کے بہتی آنکھوں کے ساتھ پورے سسٹم کو چیر پھاڑ دینا چاہتے ہیں، جو سہانے سپنوں اور پہاڑ جیسی اونچی امیدوں سے مایوسیوں کی کھائیوں میں گرتا ہے تو دھماکہ بھی کچھ اسی حساب سے ہوتا ہے۔ بدترین مخالفین کو ڈرامے کے بالمقابل ایکتا و اکھنڈتا اپنانا پڑی، قربان جائیں باچا خان کے فرزند کی تلخ نوائی پر فرمایا: شیطان کے ساتھ بھی اتحاد کرنا پڑا تو کریں گے مگر ڈرامہ اختتام پذیر کرکے رہیں گے۔ ہیچمدان کا خیال تھا کہ یہ سماں بندھنے میں ابھی وقت لگے گا کہ کم از کم اگلے چناؤ میں پہلے والی سیاہی لگائی جائے گی تو نتیجتاً عوامی لاوا اسی بےدردی سے پھٹ پڑے گا۔ جو دو ٹرم کا خواب چکنا چور کردے گا لیکن یہاں تو فصل وقت سے پہلے ہی پک کر تیار ہو گئی ہے، اللہ بخشے مفتی صاحب کو شاید قوم کو پھر یاد آ رہے ہیں، وہ تو کب کے خدا کو پیارے ہو چکے ہیں لیکن بڑے لوگوں کی آل اولاد تو پیچھے رہ ہی جاتی ہے اور پھر کون نہیں جانتا کہ تاریخ اپنے آپ کو ہر عہد میں دہراتی ہے۔ صدیوں پرانے معرکے اگر آج بھی اِسی آن بان اور شان کے ساتھ وقوع پذیر ہو سکتے ہیں تو چار دہائیاں قبل کے مناظر کیوں پلٹ کر سامنے نہیں آ سکتے؟ سوال یہ ہے کہ کیا پہاڑ سے ٹکرا کر راستہ بنایا جا سکتا ہے؟ سر پھٹے گا یا چترال کی طرف جاتے ہوئے راستے میں آنے والی لمبی سرنگ نکلے گی؟ یہ امکانات کی دنیا ہے، کسی بھی صورتحال کو دو ٹوک انداز میں رد نہیں کیا جا سکتا۔ مختصر قومی تاریخ میں صدق دل سے عوام جب بھی اُٹھے ہیں اُنہوں نے پہاڑوں کو رائی بنا کر ہی دم لیا ہے۔ یہاں خلیج بنگال تک جھانکنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے، کوئی ایک نہیں بے شمار مثالیں سامنے ہیں لیکن جائزہ لینے والی پہیلی یہ ہے کہ کیا قیادت میں اتنا دم خم ہے کہ عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر اُنہیں اپنے ساتھ آگے تک لے جا سکے۔ بلاشبہ چیلنج ہوشربا ہے لیکن کیا ڈینٹ ڈالنے کیلئے عوامی مکا آپ کی تمناؤں کے مطابق اُٹھ پائے گا؟ کچھ بھی کہیے نوکیلا کیل مٹیالے ٹرک کو پنکچر کر سکتا ہے۔