مفکرِ اسلام، مولانا مفتی محمودؒ کی جدوجہد اور سیاسی خدمات

October 16, 2020

مو لانا عبد الغفور حیدری

(سابق ڈپٹی چیئر مین سینٹ پاکستان)

مولانامفتی محمودؒہمارےسیاسی قائدین میں سےتھے ، قدرت نے آپ کو بڑی بصیر ت سے نوازا تھا۔ سیا سی میدا ن میں آپ ؒ کے فیصلے اس پر شاہد ہیں جن کی سیاسی حلقوں میں تعریف کی گئی، لیکن دیگر حضرات بھی مفتی صا حبؒ کو خر اج تحسین پیش کئے بغیر نہ رہ سکے ۔ مفتی صاحب ؒ نے اپنی سیا سی زندگی کا آعا ز ۱۹۴۲ء میں جمعیت علما ئےہند کے پلیٹ فا رم سے کیا۔ آپ ؒ تھوڑے ہی عر صے میں جمعیت علما ئے ہند کی مجلس عاملہ کے رکن بنے جو اس دور میں کسی شخصیت کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہوتی تھی، اس کے بعد ۱۹۴۷ء میں جب اللہ تعالیٰ کے فضل اور مدد سے پاکستا ن بنا تو آپ نے پا کستا ن کی سیا ست میں جمعیت علما ئے اسلا م کے پلیٹ فا رم سے حصہ لیا اورمختلف ادوار میں جمعیت علمائے اسلا م کے مختلف منا صب پر فا ئز رہے ۔

یہ با ت بھی ایک حقیقت ہے کہ جمعیت علمائے اسلا م کی بنیا دوں اور تعمیر وتر قی میں حضر ت مفتی صا حب کی خدما ت کسی سے مخفی نہیں ،شیح التفسیر مو لا نا احمد علی لا ہو ری ؒ نے جب جمعیت علما ئے اسلا م کے احیا ء کی ضرورت محسو س کی جس کی بنیا د پا کستان کے بننے کے بعد شیخ الا سلا م علا مہ شبیر احمد عثما نی ؒنے رکھی تو حضر ت لاہو ری ؒ کے سا تھ جن شخصیات نے جمعیت علمائے اسلا م کو ملک گیر جما عت بنا نے کے لیے بنیا دی کر دا ر ادا کیا ان میں مو لا نا مفتی محمودؒ، مو لا نا محمد عبد اللہ در خو استیؒ ، مو لا نا غلا م غوث ہز اروی ؒ ؒ ؒؒ، مو لا نا مفتی عبد الو احدؒ ، مو لا نا محمد اجمل خان ؒ کا نا م ہمیشہ سنہری حرو ف سے لکھا جا ئے گا۔

۱۹۵۶ء کا آئین ملک پا کستا ن کا پہلا آئین تھا چائیے تو یہ تھا کہ اس آئین کے اندر اسلا می قوانین کا مکمل نفا ذ ہو تا، لیکن اس کے با لکل برعکس اس آئین میں اسلا م کو صر ف دیبا چے تک محدود رکھا گیا اور غیر اسلا می قو انین کے نفا ذ کی کوشش کی گئی، جمعیت علما ئے اسلام کی قیا دت اس خطر ے کو بھا نپ گئی اور آئین سے غیر اسلا می دفعا ت کے خاتمے کے لیے حکومت پر زور دیا ،چنا نچہ مفتی صا حب ؒ کی قیادت میں اس فر یضے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے نہ صر ف غیر اسلا می شقوں کو بے نقا ب کیا اور عو ام کو آگا ہ کیا، بلکہ اس پر ایک جا مع رپو رٹ بھی تحریر کی ۔ مفتی صا حب ؒنے لکھا کہ مسلمانوں کو ۱۹۵۶ء کے اس آئین کے با رے میں کسی خو ش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چا ہیے، کیو نکہ اس میں اسلا م کو بطور تمہید ذکر کیا گیا ہے جو قا نو نا ً دستو ر کا حصہ نہیں بنتا۔

مفتی صاحب نے ایوب خان کے دور میں غیر اسلامی مسودے کے خلا ف صدائے حق بلند کی اور فر مایا : اسمبلی کے اندر میر ی مو جو دگی میں اللہ تعا لیٰ اور اس کے رسو ل ﷺکے دین کے خلاف کو ئی کارروائی، کو ئی قا نو ن سا زی مکمل نہیں ہو سکے گی۔ میں سید نا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اس تا ریخ سا ز خطبے سے ر ہنما ئی حا صل کر تا ہو ں کہ آپ ؓ نے فر مایا تھا ’’ اللہ کا دین کمی کا شکا ر ہواور میں زندہ رہو ں ،یہ نہیں ہو سکتا ‘‘۔پھر آپ نے اپنے مدبر انہ اور عالما نہ اندا ز میں قر آن وسنت کے ذریعے ان قو انین پر شدید تنقیدکی اور حقیقت کو واضح کر کے رکھ دیا ۔

۱۹۶۲میں جب ایو ب خا ن نے بی ڈی سسٹم کے ذریعے ملک پر آمریت مسلط کرنے کی کو شش کی اور ۲۱اپر یل ۱۹۶۲ء کو انتخا با ت کا اعلا ن کیا تو مفتی صاحب ؒ نے سیا سی جما عتو ں پر پابندی کی وجہ سے انفر دی طو ر پر الیکشن میں حصہ لیا اور ڈیرہ اسما عیل خان کی سیٹ پر پہلی مر تبہ بھا ری اکثریت سے کا میاب ہوگئے، کو ئی امید وار بھی مقا بلہ نہ کر سکا ۔جب اسمبلی میں حلف لینے کی تقریب ہوئی تو مفتی صا حب ؒ نے حلف کے ان الفا ظ کہ ’’دستور کو با قی رکھوں گا ‘‘کے متعلق واشگاف الفا ظ میں فر ما یا:’’ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دستور کو جو ں کا تو ں با قی رہنے دیں گے، بلکہ اس دستور کے ذریعے دئیے ہو ئے اختیا را ت کو برو ئے کا ر لا تے ہو ئے ان جملہ خرابیوں اور خامیوں کو جو قر آن وسنت کے متصا دم ہوں گی، ان میں تر میم کر یں گے۔ مر د درویش کے یہ الفا ظ اسمبلی کے ریکا رڈ میں شا مل کیے گئے۔

مفتی صا حب ؒ نے صو بہ سر حد (کےپی کے) وزارت اعلی کا قلمدا ن سنبھا لا اور قلیل مدت میں جو دینی اور سیاسی کا رہائے نما یا ں انجا م دیئے ۔مخالفین بھی اس کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔ صو بہ سر حد کی فضا کو اسلامی بنا نے کے لیے انہو ں نے وہ تما م اقدا ما ت کیے جو قا نون نے وزیر اعلیٰ کو دئیے تھے ۔مثلا ً شراب پر پابندی ،مسا جد کو زیادہ سے زیا دہ آبا د کر نا ،صو بے میں دینی تعلیم کے فرو غ کے لیے اقدامات، جمعۃ المبا رک کے اجتما عا ت کو عو ام کے لیے تر غیبی اندا ز میں ڈھا لنا او ر اس کی تدابیر ،اوقا ف کی مسا جد کے علماء کو باوقا ر مقام عطا کر نا ،سنیما گھروں کی غیر اسلامی حرکات کی مؤ ثر روک تھا م ،اسکول اور کا لج میں اسلا می تعلیمات کو فر وغ دینے کے لیے مختلف تدابیر کا استعما ل، ملک کے جید علما ئے کرام سے مشاورت کا اہتمام ،تا کہ اس کی روشنی میں وفاقی حکومت کو اسلا می نظام قا ئم کرنے کے لیے رہنمائی دی جا ئے ۔

ایک مدرسے کے پڑھے ہو ئے اور مدرسے میں پڑھانے والے ایک عالم اور شرعی مسائل پر فتوے دینے والے ایک مفتی نے سیاست میں اس طرح حصہ لیا کہ جدید تعلیم یافتہ حضرات کے ہجوم میں نہ صرف نمایاں ہوا،بلکہ بہت سوں کو سیاست کاسبق پڑھایااور اسلامی سیا ست سے روشناس کروایا ۔آپ کی سیا سی مسائل پر رائے فتوے کی طرح محترم سمجھی جاتی تھی، گو یا ملکی تاریخ کو پہلی بار دین وسیاست کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملا۔ مفتی صا حب کی شخصیت اس قدر بلند ہے کہ ان پر جس قدر لکھا جائے، اتنا ہی کم ہے ۔تحریر وتقریر کی دنیا سے مفتی صاحب کا قد وکاٹھ بلند ہے ۔ملکی تاریخ میں خود ایک تاریخ بن کر یہ عظیم شخصیت 1980ء میں کراچی میں سفر حج کی تیاری میں خالق حقیقی سے جا ملی ۔