آئین، جمہوریت اور مولانا؟

October 24, 2020

خلیفہ دوئم حضرت عمر ؓ بن خطاب فرمایا کرتے تھے کہ ہر بدعت (نئی اختراع) بری نہیں ہوتی اگر ایک بدعت سیہ(بری) ہوتی ہے تو دوسری بدعت حسنہ کہلاتی ہے ، تشریح اس کی یہ فرماتے تھے کہ ایسی نئی اختراع جو شریعت سے متصادم نہ ہو اور عوام کیلئے مفید ہو وہ بدعت حسنہ ہے جبکہ اس کے بر عکس کوئی بھی بدعت سیہ کہلائے گی۔اسی اصول پر ہم عرض کریں گے کہ کسی بھی شعبے میں تمام لوگ برے نہیں ہوتے، طبقہ علماءمیں بھی جہاں علمائے سو کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے وہیں علمائے حق بھی پائے جاتے ہیں۔ علماءسے مراد علم والے لوگ ہیں اس میں مذہبی یا غیر مذہبی کی تخصیص نہیں ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کہا کرتے تھے کہ علماءکی ٹرم صرف مذہبی علم تک محدود نہیں کی جانی چاہیے جو سائنس کا علم رکھتے ہیں وہ علمائے سائنس ہیں، اسی طرح معیشت، طب یاسیاست کا علم رکھنے والوں کو ان علوم کے علماءقرار دیا جانا چاہیے۔دیگر شعبہ جات کی طرح دینیات کے علمائے حق ہر دور میں فریضہ حریت و خدمت انجام دیتے رہے ہیںانہی میں ایک مفتی صاحب نے ایک عالم دین ہوتے ہوئے شعبہ سیاست میں جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ بہت سے سکہ بند سیاستدانوں پر بھاری ہیں، ان کا دینی شعور کبھی جمہوریت اور آزادی اظہار کے ساتھ نہیں ٹکرایا ۔ مفتی صاحب جس طرح سویلین بلکہ عسکری جبر کے خلاف بھی کمربستہ ہوئے، انہوں نے تحریک بحالی جمہوریت یعنی MRD کی قربت میں بھی ذرا کوتاہی نہیں کی حالانکہ ایم آر ڈی بنیادی طور پر محترمہ بینظیر بھٹو کی رہنمائی میں پیپلز پارٹی کی تحریک تھی۔ اگر سویلین جبر نے بلوچستان کی منتخب جمہوری حکومت پروار کیا تو مفتی صاحب نے، باچا خاں کے فرزند خاں عبدالولی خاں کے ساتھ مل کر بنائی گئی سرحد کی کولیشن گورنمنٹ جس کے وزیراعلیٰ مفتی صاحب خود تھے، احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ آج مفتی صاحب کے فرزند مولانا فضل الرحمٰن نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے والد کی طرح اسی انقلابی قافلہ حریت کا تسلسل ہیں۔

ہمارے موجودہ سیاستدانوں کی کھیپ میں وہ سب سے بڑھ کر سیاست کی باریکیوں اور نزاکتوں کو سمجھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جذبہ حریت اور قوت عمل سے بھی مالا مال ہیں، جب اپوزیشن کے تمام سیاستدان آنے والے حالات کے حوالے سے تذبذب کا شکار تھے مولانا اس وقت بھی واضح اور دو ٹوک موقف کا اظہار کرنے میں کسی لیت و لعل سے کام نہیں لے رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مابعد پوری اپوزیشن نے ان کی امامت میں پی ڈی ایم تشکیل دی ۔مولانا کی شخصیت میں ہوش مندی اور معاملہ فہمی کا ایسا توازن ہے کہ بیک وقت مختلف الخیال لوگوں کو ساتھ لے کر چل سکتے ہیں، طاقتوروں کو بھی وہ چڑاتے نہیں بلکہ سمجھاتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے آنکھ اور پتلی کے استعارے سے کیا خوبصورت تمثیل پیش فرمائی ہے۔ پتلی کا کام آنکھ کی حفاظت کرنا ہے لیکن اگر پتلی کا کوئی بال اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے آنکھ میں گھس جائے تو آنکھ رو کر یا دکھ جھیل کر اسے نکال باہر کرتی ہے۔ مولانا کا استدلال یہ ہے کہ ہر ریاستی یا حکومتی شعبے کو اپنی حدود و قیود میں رہ کر فریضہ منصبی ادا کرنا چاہیے، وہ آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں اور کوئی بھی مسئلہ ہو وہ ہمیشہ اسے 1973ءکے آئین کے تناظر میں دیکھتے ہیں، مذہبی حوالوں سے اُنہوں نے کبھی دہشت گردی و شدت پسندی کا ساتھ نہیں دیا۔تاہم اُن کی اعتدال پسندی انہیں کبھی حق سچ بیان کرنے سے روک نہیں پائی۔مسئلہ پارلیمنٹ کی عظمت کا ہویا آئین کی سربلندی کا یا صوبائی خود مختاری کا، انہوں نے ہمیشہ ڈنکے کی چوٹ تمام اکائیوں کی نمائندگی کا حق ادا کیا ہے۔ پوچھا جاتا ہے کہ آپ کی اس جدوجہد کا مقصد کیا ہے تو صاف گویا ہوتے ہیں کہ ”ہم ملک میں عوامی جمہوریت کی بحالی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں“۔ خرابی اس وقت پڑتی ہے جب آپ دوسروں کے کام میں مداخلتِ بیجا کرتے ہیں، اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں۔ کسی کو ان پر بالکل اسی طرح شب خون مارنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، جس طرح عوامی رائے کی چوری قبول نہیں کی جا سکتی۔ دعا ہے کہ مولانا کی جدوجہد سے جہاں آئین اور جمہوریت کا بول بالا ہو وہیں وطن عزیز کو سماجی، معاشی اور سیاسی استحکام بھی نصیب ہو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)