نیا صدر کون؟ ... ٹرمپ یا جوبائیڈن

October 25, 2020

محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

امریکی سیاست پر غالب ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنز کے درمیان دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کے مختلف پہلو انتخابی مہم کو متاثر کرتے تھے ان میں ٹیکس پالیسی، نسلی رواداری، صحت سے متعلق حکومتی پالیسی اور خارجہ جیسے امور سر فہرست ہوتے تھے، امریکی ووٹر کی ایک بڑی تعداد سفید فام برتری کے حق میں ٹرمپ کی حامی ہے ،تارکین وطن کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کی حمایت بھی نظر آتی ہیں۔ ایسا ہی معاملہ مسلم پالیسی میں نظر آتا ہے جو کہ جمہوری اقدار کے منافی ہے،بین الاقوامی سیاست میں موجود اہم مسائل پر جوبائیڈن اور ڈونلڈٹرمپ کی پالسیوں میں زیادہ فرق نہیں دیکھا گیا البتہ نظریہ کا فرق ضرور ہے،یورپ میں یہ شدید خواہش موجود ہے کہ امریکا میں قیادت تبدیل ہو اور نیٹو ایران جوہری معاہدہ ، ماحولیات اور تجارت جیسے معاملات پر بات چیت شروع کی جاسکے، چین مخالف ممالک سے اتحاد ،افغانستان سے امریکا کا انخلا، اور افغانستان امن معاہدہے پر دونوں سیاسی جماعتوں میں اتفاق پایا جاتا ہے،پاکستان دوست ملکوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے FATF میں پاکستان کا گر ے لسٹ میں رہنا افسوس ناک بات ہوگا۔ ہم اس سلسلے میں کوئی ٹھوس کامیابی حاصل نہ کر سکے،گزشتہ دس برسوں میں دنیا کی مختلف ریاستوں میں ووٹ قوم و نسل پرستی ، معیشت اور انتہا پسندی کی بنیادوں پر ڈالا جا رہا ہے اور ٹرمپ اس ہی بنیاد پر ووٹ متاثر کررہے ہیں

ڈاکٹر نوشین وصی

ٹرمپ کی کوشش ہے کہ وہ ری پبلکن پارٹی کے ووٹرز کے علاوہ ان ووٹروں کو بھی اپنے ساتھ رکھیں جو مذہب، نسل پرستی اور امریکا کے وسائل پر اپنے حق کو بے انتہا عزیز رکھتے ہیں اور سفید فام نسل پرست، مسیح انتہا پسند، مذہبی اور نسلی اقلیتوں سے بیزارہیں پاکستان اور دیگر ممالک کے عوام محو حیرت ہیں کہ صدر ٹرمپ جیسی عادت و اطوار والے شخص کو امریکا جیسی ترقی یافتہ اور باشعور قوم کیسے گوارا کرسکتی ہے؟ اعلیٰ عدلیہ میں قدامت پسند ججوں کی نامزدگی صدر ٹرمپ کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے ، کورونا وائرس نے امریکا کی معیشت اور معاشرت کو شدید متاثر کیا ہے۔ کئی بڑی بڑی کارپوریشن بیٹھ گئی ہیں ۔ بےروزگاری اور چھوٹے کاروبار کا ٹھپ ہو جانا، قومی خسارے میں ہوش ربا اضافہ، اور اسٹاک مارکیٹ میں غیر یقینی کی صورت حال نے جو بائیڈن کی انتخابی مہم کو خوب ایندھن فراہم کیا ہے، اگر رائے عامہ کے جائزوں کو درست مانا جائے تو ٹرمپ کی شکست یقینی ہے ،ٹرمپ پاکستان کے لیے برے ثابت نہیں ہوئے اور خطہ میں خصوصا افغانستان میں پاکستان کو زیادہ اہمیت ملی

فیض رحمٰن

دوسرے امریکی صدور کی نسبت جوبائیڈن کو بیرونی دبائو سے زیادہ اندرونی دبائو کا زیادہ سامنا ہوگا۔ ٹرمپ غیر متوازی اندورنی پالیسیز کے باعث ملک عدم استحکام کا شکار ہے،امریکی انتخابات میں وائٹ ہائوس جو بھی جیتے مگر انتخابات میں حقیقی فتح ڈیموکریٹس ہی کی واضح نظر آرہی ہے. کانگریس میں ڈیموکرٹیس کو عددی اعتبار سے واضع برتری حاصل ہے جس کے برقرار رہنے کے ساتھ ساتھ اس مرتبہ ڈیموکرٹیس سینیٹ میں صرف 4 مزید سیٹیں جیت کر سینٹ بھی اپنے نام کرنے جارہے ہیں۔ ایسا ہوجانے پر ڈیموکرٹیس دونوں ایوانوں پر قابض ہو جائیں گے اور صدر ٹرمپ جیتنے کے باوجود ایک بھی بِل پاس نہ کرا سکیں گے

امتیاز محمد

تین نومبر بہت نزدیک ہے جب امریکی عوام آئندہ چار برسوں کے لئے اپنے نئے صدر کا انتخاب کریں گے، جسے دنیا کاسب سے طاقت ور ترین سیاسی شخص قرار دیا جاتا ہے، دنیا بھر میں امریکی انتخابات پر تبصرے جائزے اور پیش گوئی کا سلسلہ جاری ہے، اندازہ لگایا جارہا ہے کہ امریکی صدارتی انتخاب 2020 میں ڈونلڈ ٹرمپ آگے ہیں یا جوبائیڈن؟

تین نومبر کو امریکی ووٹرز کیا فیصلہ کریں گے؟ ڈونلڈ ٹرمپ مزید چار سال کے لیے وائٹ ہاؤس میں رہیں گے یا جوبائیڈن؟ ری بلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر ٹرمپ کو ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن کی جانب سے کتنا بڑا چیلنج درپیش ہے؟ قومی راے شماری میں کس بنیاد پر کون آگے ہے؟ دونوں پارٹیوں میں سیاست اور منشور میں کیا فرق ہے؟ انتخابی مہم میں اہم ایشوز کیا ہیں؟ کورونا اثر کیا ہو گا؟ امریکی ووٹرز کی ترجیحات کیا ہیں؟

نتائج کے عالمی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ساؤتھ ایشیا کی سیاست پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ پاکستان کے لئے کون کتنا بہتر اور پالیسیوں میں کیا فرق ہے؟ پاکستانی عوام کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے ان سوالوں کے جوابات کے لئے جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا ، فورم میں کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نوشین وصی ، امریکا میں مقیم معروف صحافی اور عالمی سیاست کے ماہر فیض رحمٰن اور امریکی شہر فلوریڈا سے ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار امتیاز محمد نے اظہار خیال کیا، فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔

فیض رحمن، واشنگٹن

ماہر عالمی امور/ سابق سربراہ اردو سروس، وائس آف امریکا

اب سے صرف چند روز بعد ہی امریکی قوم فیصلہ دے چکی ہوگی کہ چوہتر سالہ صدر ٹرمپ اپنا اقتدار مزید چار سال کے لیے جاری رکھ سکیں گے یا پھر ان کے حریف ستتر سال کے جوزف بائیڈن ٹرمپ کو شکست دے کر امریکا کی ایک نئی تاریخ رقم کریں گے ۔

فیض رحمٰن، واشنگٹن
ماہر عالمی امور/ سابق سربراہ،
اردو سروس، وائس آف امریکا

میں نے جب سے امریکی انتخابات میں دلچسپی اور پھر ووٹ دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے، ہر انتخاب کو تاریخ کا سب سے اہم انتخاب ہی کہا گیا ہے ۔ اور یہ بات درست بھی ہے چونکہ امریکی انتخابات کے نتائج خصوصا صدراتی انتخاب صرف امریکا ہی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ کا دھارا موڑ دیتا ہے۔ اگر سن دو ہزار میں صدر جارج بش سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں صدر نہیں بنتے تو آج یقیناٴ دنیا کی تاریخ یکسر مختلف ہوتی، عراق جنگ شاید نہیں ہوتی اور شکستہ خوردہ امیدوار ایل گور کا پسندیدہ موضوع یعنی ماحولیاتی تبدیلی ایک مربوط پالیسی کی صورت میں دنیا کے سامنے ہوتا۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق سابق امریکی نائب صدر جوزف بائیڈن اور ان کی رفیق کاملا دیوی حارث صدر ٹرمپ اور ان کے رفیق مائک پنس سے کافی آگے ہیں ۔ مگر کیا وہ یہ انتخاب واقعی جیت جائیں گے؟ یہ بات ابھی پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی کیونکہ رائے عامہ کے جائزے دو ہزار سولہ میں بھی بہت بری طرح غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ کیا اس بار بھی ایسا ہوسکتا ہے ؟ بالکل! اور اس کی وجوہ میں سے ایک یہ ہے کہ جو بائیڈن اور کملا حارث ابھی بھی آزاد ووٹروں کو اچھی طرح متاثر نہیں کر پائے ہیں ۔ اور اس انتخاب کا فیصلہ دو باتوں پر ہوگا: ایک یہ کہ دونوں امیدوار اپنے اپنے کیمپ کے پکے ووٹرز کس تعداد میں باہر نکال سکتے ہیں ؟ اور دوسرے یہ کہ وہ ووٹرز جنہوں نے اب تک اپنا ذہن نہیں بنایا ہے وہ آئندہ چند دنوں میں کیا رخ اختیار کرتے ہیں ۔

اس ضمن میں صدر ٹرمپ کی مسلسل کوشش ہے کہ وہ ری پبلکن پارٹی کے ووٹرز کے علاوہ ان ووٹروں کو بھی اپنے ساتھ رکھیں جو مذہب، نسل پرستی اور امریکا کے وسائل پر اپنے حق کو بے انتہا عزیز رکھتے ہیں ۔ سفید فام نسل پرست، مسیح انتہا پسند، مذہبی اور نسلی اقلیتوں سے بیزار اور ان کے بڑھتے ہوئے اثر و نفوز سے خائف لوگ، ہم جنس پرستوں کے شدید مخالف اور سابق صدر باراک اوباما کے کیے گئے اقدامات نفرت کی حد سے زیادہ ناپسند کرنے والے ۔ یہ وہ حلقے ہیں جو ہر صورت میں ٹرمپ کو اپنا ووٹ دیں گے ۔ لیکن صدر ٹرمپ محض ان طبقات کے ووٹ سے منتخب نہیں ہوسکتے جب تک کہ ری پبلیکن پارٹی کے نظریات کو پسند کرنے والوں کی ایک عظیم اکثریت، جن میں انتہائی مناسب اور معتدل مزاج لوگ بھی شامل ہیں، انہیں ووٹ نہیں دیتے۔

لہٰذا معاملہ اتنا سیدھا بھی نہیں ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ کی مخالفت ان کی اپنی پارٹی میں بھی ہے ، لیکن ایک حد تک۔ پاکستان اور دیگر ممالک کے عوام محو حیرت ہیں کہ صدر ٹرمپ جیسی عادت و اطوار والے شخص کو امریکا جیسی ترقی یافتہ اور باشعور قوم کیسے گوارا کرسکتی ہے؟

پہلے تو یہ سمجھا جائے کہ یہ انتخاب محض دو باعمر افراد کے درمیان نہیں ہیں ۔ یہ دونوں امیدوار دو انتہائی مختلف نظریات کے حامل ہیں۔ یہ وہ نظریات ہیں جن کی بنیاد پر پوری امریکی قوم تقریباً دو برابر حصوں میں تقسیم ہے اور اس تقسیم کی بنیاد پر وہ اپنے امیدوار کی ہر برائی سے صرف نظر کرنے پر تیار ہیں ۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قدامت پسند مسیح آبادی، معاشی قدامت پسند، سماجی قدامت پسند، لا محدود ذاتی اسلحہ رکھنے کے حامی اور ہر اس حلقہ کے لیے جوکہ بائیں بازو اور لبرل سیاست اور افکار کا مخالف ہے صدر ٹرمپ ایک نعمت غیر متقربہ ثابت ہوئے ہیں۔

انہوں نے پوری کوشش کی ہے کہ ہر وہ وعدہ جو انہوں نے اپنی پہلی انتخابی مہم میں کیا تھا پورا کریں۔ اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں، جن میں ٹیکسوں میں کمی، امیگریشن پر پابندیاں، یورپ، چین، کینیڈا، میکسیکو اور دیگر تجارتی بلاکس سے معاہدوں پر نظر ثانی، اور نسلی اور مذہبی انتہاپسندوں کا کھل کر ساتھ دینا شامل ہے ۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر اعلیٰ عدلیہ میں قدامت پسند ججوں کی نامزدگی صدر ٹرمپ کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جس کی وجہ سے اب تک ری پبلیکن پارٹی ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر ساتھ کھڑی ہے ۔ یہ معاملہ بہت سے لوگوں کے لیے زندگی اور موت کے مسئلے جیسا ہے۔

امریکا کا انتخابی نظام دوسری جمہوریتوں سے بہت مختلف ہے ۔ یہاں صدارتی انتخاب میں فیصلہ عوام کے پاپولر ووٹوں سے نہیں ہوتا ، بلکہ عوام الیکٹورل کالج کو منتخب کرتے ہیں اور اس کالج کے پانچ سو اڑتیس ووٹوں میں سے جو اکثریت حاصل کرلے وہی صدر بن جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ہلیری کلنٹن کے مقابلے میں کم عوامی ووٹ حاصل کیے تھے لیکن الیکٹورل کالج کی اکثریت جیت کر کے وہ صدر بن گئے ۔

اسی طرح صدر بش نے اپنی پہلی ٹرم کے انتخاب میں ڈیموکرٹیک امیدوار ایل گور سے کم ووٹ لیے تھے لیکن الیکٹورل کالج میں معمولی اکثریت لے کر وہ صدر بن گئے ۔ الیکٹورل کالج کی یہ معمولی اکثریت بھی انہیں سپریم کورٹ کے فیصلے سے ملی تھی جو کہ سپریم کورٹ میں موجود ری پبلیکن صدور کے نامزد کردہ ججوں نے لکھا تھا ۔ اس لیے صدر ٹرمپ کو اور ری پبلیکن پارٹی کو یہ بھی امید ہے کہ ایک متنازعہ انتخاب کی صورت میں سپریم کورٹ میں قدامت پسند ججوں کی اکثریت کی وجہ سے فیصلہ ان کے حق میں آئے گا۔

چونکہ امریکا میں ججوں کا تقرر خالصتا سیاسی بنیادوں پر ہوتا ہے۔ اور سپریم کورٹ میں فیصلے بھی انہی بنیادوں پر ہوتے ہیں لہٰذا کسی معاملے کے غلط یا صحیح ہونے کا دارومدار اس امر پر ہوتا ہے کہ جج کا تعلق کس پارٹی سے ہے اور اس کا تقرر کس پارٹی کے صدر نے کیا تھا۔ اور یہ ایک نکتہ ایسا ہے جو کہ اس انتخاب کو انتہائی اہم اور تاریخ ساز بنادیتا ہے ۔ مثال کے طور پر موجودہ سپریم کورٹ میں چار جج قدامت پسند یعنی ری پبلیکن صدور کے مقرر کیے ہوئے ہیں اور تین جج لبرلز یعنی ڈیموکریٹک صدور نے لگائے ہیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس بھی قدامت پسند ہیں اور صدر بش کے نامزد کیے ہوئے ہیں لیکن وہ انتہائی اہم معاملات میں کورٹ کے لبرل ججوں کے ساتھ فیصلہ دیتے ہیں مثال کے طور پر صدر اوبامہ کا نافذ کیا ہوا نظام صحت ری پبلیکن پارٹی گرانا چاہتی ہے اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرچکی ہے لیکن قدامت پسند چیف جسٹس نے اس معاملے پر اپنے لبرل ساتھیوں کی حمایت کی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ نظام جس سے قدامت پسند حلقے نفرت کرتے ہیں ابھی تک قائم ہے۔ اس وقت صدر ٹرمپ پانچویں قدامت پسند جج، ایک خاتون، ایمی کونی بیریٹ کو نامزد کرچکے ہیں اور امریکی سینیٹ ان کی تقرری کی توثیق کیا ہی چاہتی ہے بلکہ اس تحریر کی اشاعت تک شائد سینیٹ ان کی توثیق کرچکی ہو۔

اس تقرری کے بعد اور ٹرمپ کی اگلی جیت کی صورت میں اگلے چار سال میں ایک یا دو منصب اور خالی ہوئے تو سپریم کورٹ میں قدامت پسندوں کی مطلق اکثریت ہو جائے گی ۔ چوں کہ امریکا میں ججوں کی تقرریاں تا حیات ہوتی ہیں اور ہر صدر نسبتاً جوان لوگوں کی تقرری کرتا ہے لہذا کورٹ پر آئندہ کم از کم چالیس سال تک قدامت پرستوں کو قبضہ ہو جائے گا ۔ یہ صورتحال لبرل ایجنڈا، اقلیتوں، امیگریشن، نظام صحت، ٹیکس کے نظام اور کئی مسائل پر بہت ہی خطرناک منظر پیش کرسکتی ہے جوکہ ڈیموکرٹیک پارٹی اور کئی آزاد ووٹروں کے لیے ناقابل قبول ہے ۔

ایک اور بہت اہم نکتہ صدر ٹرمپ کی " امریکا پہلے " کی بنیا د پر بنائی گئی خارجہ پالیسی ہے ۔ اور اس پر انہیں کئی آزاد ووٹرز جن میں بہت سے تارکین وطن بھی شامل ہیں کی حمایت حاصل ہے۔ کسی بھی نئی جنگ سے اجتناب، امریکی دفاعی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر ، ناٹو کے بجٹ میں کمی، افغانستان سے فوج کی واپسی، باوجود انتہائی دباوٗ کے ایران اور شمالی کوریا سے محتاط رویہ، پاکستان پر ڈرون حملوں سے مکمل دوری، اقوام متحدہ کی نالائقی اور شاہ خرچیوں کو للکارنا اور ان جیسے کئی ایسے مسائل ہیں جن پر صدر ٹرمپ نے انتہا پسندوں کے علاوہ بہت سے دوسرے ووٹروں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔

تاہم صدر ٹرمپ کی واضح کمزوری کورونا وائرس پر ان کی انتظامیہ کا تاخیر سے اقدامات کرنا اور مسلسل ابہام پھیلانا ہے ۔ انہوں نے اپنی بیماری کے دوران بھی اس بیماری کا مذاق اڑایا اور انتہائی لاپرواہی برتی اور دنیا کو خصوصا اپنے چاہنے والوں کو یہ پیغام دیا کہ یہ بیماری اتنی خطرناک نہیں اور اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے امریکی سائنسدانوں کی بھی بارہا تذلیل کی، نتیجہ کے طور پر ان کے چاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد حفاظتی ماسک نہیں پہنتی جس سے کئی لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ ٹرمپ کی کورونا وائرس کے بارے میں اس لاپرواہی سے ان کے اپنے معتدل مزاج ووٹرز ناراض ہیں۔ کورونا وائرس نے امریکا کی معیشت اور معاشرت کو شدید متاثر کیا ہے۔ کئی بڑی بڑی کارپوریشن بیٹھ گئی ہیں ۔

بےروزگاری اور چھوٹے کاروبار کا ٹھپ ہو جانا، قومی خسارے میں ہوش ربا اضافہ، اور اسٹاک مارکیٹ میں غیر یقینی کی صورت حال نے جو بائیڈن کی انتخابی مہم کو خوب ایندھن فراہم کیا ہے ۔ اس کے علاوہ صدر ٹرمپ کی شخصیت کا ایک انتہائی منفی پہلو ان کی مختلف معاملات پر مسلسل غلط بیانی بھی ہے۔ یہ وہ عناصر ہوں جو کہ انہیں شکست سے دوچار کرسکتے ہیں اور اگر رائے عامہ کے جائزوں کو درست مانا جائے تو ٹرمپ کی شکست یقینی ہے ۔ لیکن ٹرمپ نے ایک انتہائی خطرناک پیش بندی یہ کی ہوئی ہے کہ وہ انتخاب کو متنازعہ قرار دے کر نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر سکتے ہیں جس سے امریکا بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک بڑا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔

دوسری طرف جوبائیڈن ہیں ، بذات خود کوئی متاژکن شخصیت نہیں ہیں ۔ اگر جیت گئے تو اٹھتر سال کی عمر میں صدر بنیں گے جو کہ خود ایک ریکارڈ ہوگا۔ جو بائیڈن نے کوشش کی ہے کہ امریکا کی تمام مذہبی اور نسلی اقلیتوں کو ساتھ لے کر چلیں ۔ سیاہ فام آباد ی تاریخی طور پر ڈیموکریٹک امیدواروں کو ووٹ دیتی آئی ہے اور اس دفعہ بھی ایسا ہی ہوگا ۔ اس الیکشن میں مسلمانوں کے ووٹ بھی اہمیت حاصل کرگئے ہیں خاص طور پر ان ریاستوں میں جہاں انتخابی کالج کے ووٹ بہت اہم ہیں اور ان کا فیصلہ معمولی اکثریت سے ہونے کی توقع ہے ۔ جوبائیڈن نے مسلمانوں کے لیے باقاعدہ ایک وڈیو جاری کی ہے جس میں انہوں نے قران کا حوالہ دیا اور رسول اکرم محمدﷺ کا بھی ذکر کیا ہے۔

انہوں نے کشمیر میں وزیراعظم مودی کے اقدامات کی بھی مخالفت کی ہے اور ٹرمپ کی چند مسلم ممالک سے ٹریول پر لگائی گئی پابندی کو بھی اپنے اقتدار کے پہلے دن ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔ لیکن ان کی بہت سی کم زوریاں بھی ان کے آڑے آرہی ہیں جن میں انںکی تباہ کن عراق جنگ کی بھرپور اور غیر مشروط حمایت، ان کی نائب صدارت میں لیبیا کی تباہی، یمن پر بمباری اور مسلط کی ہوئی جنگ، پاکستان پر غیر معمولی ڈرون حملے، اور ان پر اور ان کے بیٹے پر کرپشن کے الزامات شامل ہیں۔

یہ انتخاب جنوبی ایشیا خصوصا پاکستان کے لیے کیا مضمرات رکھتا ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ ٹرمپ پاکستان کے لیے کوئی برے ثابت نہیں ہوئے اور خطہ میں خصوصا افغانستان میں پاکستان کو زیادہ اہمیت ملی۔ پاکستان کی اپنی ایک مخصوص حیثیت اور اہمیت کے پیش نظر ، اگر جوبائیڈن صدر منتخب ہوئے تو امریکی پالیسی میں بہت بڑی تبدیلی نہیں آئے گی لیکن مختلف معاملات پر پاکستان پر دباوٗ بڑے گا جس میں داخلی مسائل شامل ہوں گے اور علاقے میں بھارت کی اہمیت میں اضافہ ہوسکتا ہے کیوں کہ ان کی نائب صدر بھارتی نژاد ہیں اور مضبوط بھارتی لابی ان کے پیچھے ہے۔ ٹرمپ کی مودی سے دوستی کے باوجود ان کے دور میں بھارت کے تجارتی اور خارجی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ ہزاروں بھارتیوں کے کام کرنے کے ویزے خطرے میں پڑے ہوئے ہیں اس کے علاوہ عوامی سطح پر بھی ٹرمپ نے بھارت کو تجارت، کورونا، اور ماحولیات پر اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔

ڈاکٹر نوشین وصی

اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ بین الاقوامی تعلقات، کراچی یونی ورسٹی

امریکا صدراتی انتخابات نہ صرف امریکا کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں بلکہ یہ پورے عالمی سیاسی منظرنامہ کے لیے اہم تصور کیے جاتے ہیں۔ عالمی سطح پر بات کی جائے تو ایک زمانہ وہ تھا جب امریکی صدراتی انتخاب دنیا کی جمہوریتوں کے لیے ایک رہنمائی کا پہلو لیے ہوتے تھے۔ جس طرح مخالف امیدواروں کے مابیں تقاریری مناظرے ہوا کرتے تھے جس طرح کی مدبرانہ تقاریر پر ناظرین و سامعیں دیکھتے اور سنتےتھے وہ امریکا کی عالمی حیثیت کو بڑھاتے تھے۔

ڈاکٹر نوشین وصی
اسسٹنٹ پروفیسر،
شعبہ بین الاقوامیتعلقات،
کراچی یونی ورسٹی

پھر دنیا کی سیاست میں عالمی طاقت کے حامل ہونے کی وجہ سے بھی منتخب ہونے والے صدر کس سیاسی جماعت سے ہوں گے اور کس طرح امریکا کی پالیسیاں دنیا کو متاثر کریں گی خصوصاً اہم تنازعات جیسے فلسطین کا مسئلہ ، جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کا معاملہ جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا میں بڑھتی انتہا پسندی اور مشرق و سطی کی سیاست وغیرہ جیسے اہم مسئلوں پر امریکا کی پالسی کیا ہوگی یہ دنیا کے امین و استحکام کے لیے کلیدی حیثیت کے حامل سمجھے جاتے تھے ماضی قریب میں ماحولیاتی آلودگی اور تغیر کے مسائل ،خطوں کااستحکام اور دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے صدراتی انتخابات اہمیت کے حامل رہے۔

قومی سطح پر دیکھا جائے تو امریکی سیاست پر غالب ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنز کے درمیان دائیں اور بائیں بازوں کی سیاست کے مختلف پہلو انتخابی مہم کو متاثر کرتے تھے ان میں ٹیکس پالیسی، نسلی رواداری، صحت سے متعلق حکومتی پالیسی اور خارجہ جیسے امور سر فہرست ہوتے تھے ۔ ان الیکشن کی خاص بات یہ ہے کہ مذکورہ بیان کردہ تمام ہی پہلوؤں میں ایک واضح تبدیلی نظر آئی جو شاید امریکا کہ صدراتی انتخابی ماحول اور اس کے دنیا پر اثرات کو ہمیشہ ہی کے لیے بدل دے ۔

وہ کیا پہلو ہے؟ سر فہرست تو یہ کہ کورونا کے اثرات نے الیکشن کے کئی انتظامی پہلوؤں کو متاثر کیا جیسا کہ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی جس پر ٹرمپ کو بہت اعتراضات تھے۔ اس ضمن میں ان کے بہت سے بیانات جیسے کے اس بار الیکشن کے نتائج عدالت سے آئیں گے اور یہ کہ اگر وہ ہارے تو پر امن منتقلی اقتدار نہیں ہوگا جیسی باتیں قابل ذکر ہیں۔مختصر یہ کہ امریکی صدراتی انتخابات اس سال ان شان دار جمہوری اقدار کی روایات کو برقرار نہ رکھ سکے جو امریکی جمہوریت کو مثالی اور قابل رشک بناتے تھے۔

ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن اور ری پبلیکن امیداور امریکا کے موجودہ صدر ٹرمپ کے مابین پہلے مناظرے میں جو زبان استعمال کی گئ، جس طرح اپنے منشور پر بات کرنے کے بجائے مخالف امیدوار پر الزام تراشیاں کی گئی اور جو عدم برداشت کا رویہ دنیا نے دیکھا اس نے عالمی سیاست میں امریکا کہ خاکے کو بہت متاثر کیا۔ قومی سطح پر بھی امریکا کے “Melting Point” امیج میں بھی واضح تبدیلی نظر آئی ہے۔ مثال کے طور پر امریکی ووٹر کی ایک بڑی تعداد سفید فام برتری کے حق میں ٹرمپ کے حامی نظربآتی ہے اور سیاہ فام باشندوں کے خلاف اختلافات اور جذبات کا فائدہ اٹھانا چاہتی تھی۔

اسی طرح تارکین وطن کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کی حمایت بھی ہم کو نظر آتی ہیں۔ ایسا ھی معاملہ مسلم پالیسی میں ہمیں نظر آتا ہے جو کہ جمہوری اقدار کے منافی ہے۔ڈیموکریٹ اور ری پبلیکنز کے درمیان نظریاتی جنگ اس طرح کہ معاملات پر کبھی اس طرح نہ دیکھی گئی۔ پس جوہر سمجھا رہا تھا کہ Black life Matter جیسی تحریکیں اور کورونا وائرس انتخابی مہم میں کلیدی حیثیت کے حامل ہوں گے ایسا دیکھا نہہں جارہا۔

امریکی ووٹر کے لیے جو ایشوز اہمیت کے حامل ہیں ان میں سر فہرست معیشیت اور صحت کے متعلق حکومتی پالیسی ہے۔مجموعی طور پر امریکی ووٹرز کی توجہ کے مرکز قومی سطح کے مسائل و معاملات ہیں جیسے سپریم کورٹ میں تعیناتی ،ذاتی پستول رکھنا،نسلی امتیاز جیسے معاملات اور حکومتی صحت کی پالیسی اہم ہیں ۔اس کے علاوہ ووٹرز کے لیے کورونا و ائرس پر قابو پانے کے لیے حکومتی پالیسی ،پر تشدد جرائم ،معاشی اور نسلی نا ہمواریاں، تارکین وطن سے متعلق پالیسیاں، ماحولیاتی پالیسی،اور سقوط حمل اہم ہیں دونوں پارٹیوں کی پالیسی ان معاملات پر ایک دوسرے سے متضاد ہے مثال کے طور پر ڈیمو کریٹس 21 سال سے کم عمر تمام لوگوں کو ہیلتھ انشورنس دینے کے حامی ہیں جب کہ ری پبلیکنز کا کہنا ہے کہ نجی شعبہ صحت کے معملات کو بہترطور پر دیکھ سکتا ہے۔ ڈیموکریٹس آمدنی کے مطابق ہر طبقہ سے ٹیکس لینے کی حامی ہیں جب کہ ریپلکنز ٹیکس میں کٹوتی کی بات کرتے ہیں۔

ڈیموکریٹس نسلی امتیاز کو ختم کرنا چاہتے ہیں جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ سفید برتری کے تصور کو بڑھاوا دے رہے ہیں ذاتی ہتھیار رکھنے کے حوالے سے بھی دونوں پارٹیوں میں اختلاف ہے۔ اول الذکر اس کو ختم یا محدود کرنا چاہتے ہیں۔جب کہ ری پبلیکنز اس کے حامی ہیں تاہم ایک بات قابل غور ہے کہ بین الاقوامی سیاست میں موجود اہم مسائل پر جوبائیڈن اور ڈونلڈٹرمپ کی پالسیوں میں زیادہ فرق نہیں دیکھا گیا البتہ نظریہ کا فرق ضرور ہے۔ ٹرمپ امریکا پہلے کی بات کرتے ہیں جب کہ جوبائیڈن مشترکہ حکمت عملی کے حامی ہیں۔ یورپ ، لاطینی امریکا اور مشرق وسطی یہ سمجھتا ہے کے بائیڈن کی جیت ان کے حق میں بہتر ثابت ہوگی۔

یورپ میں بالخصوص یہ شدید خواہش موجود ہے کہ امریکا میں قیادت تبدیل ہو اور نیٹو ایران جوہری معاہدہ ، ماحولیات اور تجارت جیسے معاملات پر بات چیت شروع کی جاسکے۔ یورپ میں کچھ تحفظات الیکشن نتائج کے حوالے سے بھی پائے جاتے ہیں اکثریت کی نظر میں نتائج غیر واضح ہونے کے صورت میں اقتدار منتتقل ہونے میں ماضی کی نسبت زیادہ وقت لگ سکتا ہے اور اس سے غیر مستحکم صورت حال پیدا ہوسکتی ہے پہلے ہی کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور اس پر قابو پانے میں امریکا عالمی سطح پر ناکام نظر آیا جس نے ایک غیر مستحکم صورت حال پیدا کی ٹرمپ کی پالیساں پہلے ہی اہم بین الاقوامی امور پر غیر معمولی عدم استحکام کا باعث رہی ہیں ۔

چین جیسے ملکوں میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ حیت جائیں تو یہ اچھا ہوگا اور ایسا اس لیے نہیں کہ ٹرمپ چین کے لیے بہتر ہوں گے بلکہ بیچنگ یونیورسٹی کے ایک پروفیسرکی رائے ہے کہ جتنا نقصان ڈونلڈٹرمپ دوبارہ منتخب ہو کر امریکا کو پہنچا سکتے ہیں اتنا کوئی اور نہیں اور یہ چین کے حق میں ہوگا۔

جنوبی ایشیا کی سیاست پر کوئی بھی امیدوار جیتے کوئی خاص فرق نہیں ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنا اور اس کے لیے چین مخالف ممالک سے اتحاد ،افغانستان سے امریکا کا انخلا، اور افغانستان امن معاہدہے پر دونوں سیاسی جماعتوں میں اتفاق پایا جاتا ہے۔ دوسرے یہ خطہ امریکا کے طویل ِالمیعاد مقاصد کے لیے بہت اہم ہے اور امریکا یہاں Status quo کو برقرار رکھناچاہے گا اور اس تناظر میں پاکستان امریکا تعلقات میں بھی ہمیں کوئی بنیادی تبدیلی نظر نہیں آتی۔

اہم بات یہ کہ پاکستان کس طرح خطے میں اپنی حیثیت کو مضبوط کرتا ہے اس وقت پاکستان کی خارجہ پا لیسی کو بہت سی ناکامیوں کا سامنا ہے پاکستان کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ وہ اپنے دوست ملکوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے ۔ گزشتہ برس بھارت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے پر پاکستان اپنے دوستوں کی طرف سے تنہائی کا شکار نظر آیا اور ہم اس سلسے میں کوئی ٹھوس کامیابی حاصل نہ کر سکے۔

قومی سطح پر جو سروے اور رائے شماری کی گئی ہے ان میں بائیڈن واضح اکثریت سے آگے ہیں۔ تاہم یہ اس بات کی ضمانت نہیں کہ الیکشن کون جیتے گا جیسا کہ 2016 کے صدارتی انتخاب میں دیکھا گیا۔ پھر امریکا کے صدراتی انتخابات میں یہ بات اہم نہیں کہ امیداور کو کتنے ووٹ ملے بلکہ اہم یہ ہے کہ کہاں سے ووٹ ملے یعنی کس ریاست سے چوں کہ صدر کا انتخاب بالواسطہ طور پر الیکٹورل کالج کرتا ہے جس میں الیکٹرز کی تعداد ہر ریاست کی آبادی کے تناسب سے ہوتی ہے۔

2016 کے صدارتی انتخاب میں ہلیری کلنٹن کو 2.9ملین ووٹ قومی سطح پر ڈونلڈٹرمپ سے زیادہ ملے تھے تاہم وہ الیکٹورل کالج میں ہار گئی تھیں اسی وجہ سے اب دونوں پارٹیوں کی توجہ ان ریاستوں پر ہے جہاں ووٹ کسی بھی سیاسی جماعت کے حق میں با آسانی تبدیل ہو جاتا ہے ۔ امریکی سیاست میں انھیں اصل معرکہ کی جگہ یاسوئنگ اسٹیٹ (Swing state) کہا جاتا ہے اس اعتبار سے مشی گن، وسکونسز، پینسلوانیا ، فلوریڈا ، شمالی کیرولینا ایری زونیا اہمیت کی حامل ہیں ۔ ان ریاستوں میں سے پیشتر میں 2012 میں جو ووٹ بارک اوباما کو ملا وہ 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ملا۔ بہت سی ریاستوں میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ووٹرز شخصیت کی بنا پر ووٹ دیتے ہیں پارٹی یا منشور کی بنیاد پر نہیں اور یہ کسی کے بھی حق میں جاسکتا ہے۔

ٹرمپ اگر چہ 2016 میں پسندیدہ امیدوار نہیں تھے مگر اس بار بائیڈن بھی بہت پسندیدہ امیدوار نہیں ہیں کیوں کہ انھیں اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھاجاتا ہے۔ پس اگرچہ پیش گوئیاں جو بائیڈن کے حق میں زیادہ ہیں۔ مثال کے طور پر امریکا میں تاریخ کے ایک پروفیسر ایلن لیچ مین جو تیس سال سے ہر صدراتی انتخاب کے نتائج کی درست پیش گوئی کر رہے ہیں اور اس ضمن میں ان کی کتا ب The keys to white house بھی خاصی مقبول ہوچکی ہے کہ مطابق بائیڈن یہ انتخاب جیتیں گے تاہم جیسے اس صدارتی انتخاب میں بہت سے نئے پہلو امریکی سیاست کے سامنے آئے ہیں اسی طرح تیس سال کہ بعداس بار ان کی یہ پیشن گوئی بھی غلط ثابت ہوسکتی ہیں اور قوی امکان ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہی آئندہ چار سال وہائٹ ہاؤس کےمکین رہیں گے۔ گزشتہ دس برسوں میں دنیا کی مختلف ریاستوں میں ووٹ قوم و نسل پرستی ، معشیت اور انتہا پسندی کی بنیادوں پر ڈالا جا رہا ہے اور ٹرمپ اس ہی بنیاد پر ووٹ متاثر کررہے ہیں۔

امتیاز محمد

امیدوار ڈیمو کریٹ پارٹی، فلوریڈا

امتیاز محمد
امیدوار ڈیمو کریٹ پارٹی،
فلوریڈا

امریکی اتخابات میں جوبائیڈن اخلاقی سماجی سیاسی روایتی تعلیمی تجرباتی دیانتی دینی اور عددی اعتبار سے ٹرمپ سے آگے ہیں۔ مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ جوبائیڈن یقینی طور پر صدر بن جا ٸیں گے. اس کا دارومدار الیکٹرول کالج پر ھوگا۔ گزشتہ انتخابات میں ہیلری کلنٹن ٹرمپ سے آگے تھیں اور دو ملین سے زیادہ ووٹ لینے کے باوجود الیکٹرول کالج میں کم ڈیلی گیٹس ہونے کی وجہ سے الیکشن جیت نہیں پائی تھیں۔

جنگ۔ تین نومبر کو امریکی ووٹرز کیا فیصلہ کریں گے؟

امتیاز محمد رائےعامہ کے تمام سروے اور تقریباً تمام میڈیا آوٹ لیٹس جوبائیڈن کی فتح کے اشارے دے رہے ہیں لیکن اس کا حتمی فیصلہ تین نومبر کو ہی ہو پائے گا۔

جنگ۔ ڈونلڈ ٹرمپ مزید چار سال کے لیے وائٹ ہاؤس میں رہیں گے یا جوبائیڈن؟ اوررِی پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر ٹرمپ کو ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن کی جانب سے کتنا بڑا چیلنج درپیش ہے؟؟

امتیاز محمد . دوسرے امریکی صدور کی نسبت جوبائیڈن کو بیرونی دبائو سے زیادہ اندرونی دبائو کا زیادہ سامنا ہوگا۔ ٹرمپ غیر متوازی اندورنی پالیسیز کے باعث ملک عدم استحکام کا شکار ہے۔ سفید فام ملیشیا گورنروں کو اغوا کرنے کی منصوبہ بندیوں میں ملوث پائے گئے ہیں جوکہ بڑی تشویش کی بات ہے

قومی راے شماری میں کس بنیاد پر کون آگے ہے؟

امتیاز محمد۔ اب تک کیے جانے والے تمام سرویز میں جوبائیڈن لیڈ پر ہیں مگر یہ لیڈ زیادہ بڑی نہیں ہے

جنگ۔ دونوں پارٹیوں کی سیاست اور منشور میں کیا فرق ہے؟

امتیاز محمد ۔ ڈیموکریٹس واضع طور پر نچلے طبقات کے ساتھ ساتھ تاریکین وطن کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس وقت امریکیوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہیلتھ انشورنس کا ہے. جس کا حل ابامہ کیئر کی صورت میں موجود ہے لیکن ری پبلیکن اسے ختم کرنا اور ڈیموکریٹ اسے جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ٹیکسیشن میں ڈیمو کرٹیس نچلے طبقے کو رعایتیں دینا چاہتے ہیں جب کہ ری پبلیکن امرأ کو رعایتوں کا مستحق گردانتے ہیں. ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی خارجہ پالیسی میں جو تبدیلیاں کی ہیں ڈیموکرٹیس انہیں بہتری کی طرف لانا چاہتے ہو ایرانی کیوبا میکسیکو اور یوروپینز سے بہتر تعلقات کے خواں ہیں۔

جنگ۔ انتخابی مہم میں اہم ایشوز کیا ہیں؟

امتیاز محمد ۔ ہیلتھ کیئر، بے روزگاری، عام آدمی کی ہتیاروں کی خریداری میں آسانیاں، مہنگائی

جنگ۔ انتخابات اور ووٹوں پر کورونا اثر کیا ہو گا؟

امتیاز محمد . ڈیموکریٹس تمام سائنسی سفارشات پر عمل کرنے کو تر جیح دیتے ہیں جب کہ ری پبلیکن صدر ٹرمپ کی بے احتیاطی کے قائل ہیں۔

جنگ۔ امریکی ووٹرز کی ترجیحات کیا ہیں؟

امتیاز محمد ۔ بے روزگادی کا خاتمہ اور ہیلتھ انشورنس کا حصول امریکیوں کی ترجیحات میں سرفہرست ہیں۔

جنگ۔ نتائج کے عالمی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

*امتیاز محمد ۔ دنیا کے امن میں حائل بہت سی مشکلات پر اس کے گہرے اثرات کے ساتھ ساتھ مشرقی وسطٰی میں ہونے والے حالات پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

جنگ۔ ساؤتھ ایشیا کی سیاست پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟

امتیاز محمد ۔ ایرانی خلیج فارس عرب اسرائیل تعلقات کا انحصار انتخابی نتائج پر ہے۔

جنگ۔ پاکستان کے لئے کون کتنا بہتر اور پالیسیوں میں کیا فرق ہے؟

امتیاز محمد ۔ ڈیموکریٹس پاکستانی جمہوریت اور سیاست دانوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں جب کہ ری پبلکن کا جھکائو فوج پر مرکوز ہے۔ جس سے اس بات کا با آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہا آئندہ پاکستان کے وزیر اعظم بلاول بھٹو ہوں گے یا نہیں؟۔ ایک واضح رہے کہ امریکی انتخابات میں وائٹ ہائوس جو بھی جیتے مگر انتخابات میں حقیقی فتح ڈیموکریٹس ہی کی واضح نظر آرہی ہے. کانگریس میں ڈیموکرٹیس کو عددی اعتبار سے واضع برتری حاصل ہے جس کے برقرار رہنے کے ساتھ ساتھ اس مرتبہ ڈیموکرٹیس سینیٹ میں صرف 4 مزید سیٹیں جیت کر سینٹ بھی اپنے نام کرنے جارہے ہیں۔ ایسا ہوجانے پر ڈیموکرٹیس دونوں ایوانوں پر قابض ہو جائیں گے اور صدر ٹرمپ جیتنے کے باوجود ایک بھی بِل پاس نہ کرا سکیں گے۔